وجود

... loading ...

وجود

بزدل مودی اور جنرل اسمبلی اجلاس

منگل 30 ستمبر 2025 بزدل مودی اور جنرل اسمبلی اجلاس

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مودی بزدل لیڈر ہے جو صرف اپنے ملک میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا ہے اور گِیدَڑ بَھبکیاںدیتا ہے ،گذشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے دم دبا کر بھاگ گیا اس کی ہمت نہیں تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف کا سامنا کرے اور اپنے جھوٹے پہلگام بیانیہ کو ثابت کرے ۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس دنیا کے بڑے اور اہم ترین سیاسی اجتماعات میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں دنیا کے سربراہان مملکت اور وزرائے اعظم اپنی اپنی حکومتوں کی پالیسیوں، ترجیحات اور عالمی مسائل پر مؤقف پیش کرتے ہیں۔ اس اجلاس میں کی جانے والی تقریریں صرف رسمی نہیں ہوتیں بلکہ اکثر نئی عالمی سمت متعین کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ کسی ملک کا سربراہ اگر اس موقع پر موجود نہ ہو تو یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آخر وہ کیوں غیر حاضر رہا۔ بھارت جیسے بڑے ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور اس کی بجائے اپنے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کو نمائندگی کے لیے بھیجا۔ یہ فیصلہ محض ذاتی مصروفیت کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی سیاسی، سفارتی اور داخلی محرکات کارفرما ہیں۔مودی کی غیر حاضری کی ایک بڑی وجہ امریکہ اور بھارت کے درمیان تجارتی تنازعات سمجھی جا رہی ہے ۔ پچھلے کچھ عرصے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر اضافی محصولات عائد کر کے تعلقات میں تناؤ پیدا کر دیا تھا۔ امریکہ کا موقف ہے کہ بھارتی منڈیوں میں امریکی مصنوعات کو کھل کر جگہ نہیں مل رہی جبکہ بھارت اپنی مصنوعات کے لیے رعایتیں چاہتا ہے ۔ یہ ٹیرف وار ایسی نوعیت کی تھی کہ اگر مودی خود جنرل اسمبلی میں شریک ہوتے اور وہاں امریکہ کے ساتھ ایک ہی اجلاس یا تقریب میں براہِ راست گفتگو ہوتی تو اس کا نتیجہ غیر ضروری تلخی یا میڈیا میں منفی سرخیوں کی صورت نکل سکتا تھا۔ اس لیے بھارتی حکومت نے سوچا کہ بہتر یہی ہے کہ وزیر اعظم ذاتی طور پر اس بحث کا حصہ نہ بنیں اور یہ بوجھ نمائندہ سطح پر وزیر خارجہ اٹھائیں تاکہ تناؤ کم ہو۔
اس فیصلے کی ایک اور جہت بھارت کی موجودہ سفارتی پالیسی ہے ۔ مودی حکومت خطے میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتی ہے اور وہ یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ بھارت کسی بھی عالمی دباؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران لازمی طور پر فلسطین، اسرائیل، یوکرین، ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق جیسے حساس موضوعات پر بات ہونی تھی۔ ان معاملات پر براہ راست بیان دینا بھارت کو کسی نہ کسی ملک کی ناراضگی مول لینے پر مجبور کر دیتا۔ مثال کے طور پر اگر یوکرین پر روس کی کارروائی کو زیادہ سختی سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تو روس ناراض ہوتا اور اگر زیادہ نرم بات کی جاتی تو امریکہ اور یورپی یونین معترض ہوتے ۔ اسی طرح اسرائیل اور فلسطین کے حوالے سے غیر جانبداری برقرار رکھنا بھی مشکل تھا کیونکہ بھارت اسرائیل کے ساتھ دفاعی تعلقات رکھتا ہے اور فلسطینی عوام کے ساتھ روایتی ہمدردی بھی اس کی پالیسی کا حصہ رہی ہے ۔ چنانچہ مودی نے یہ مناسب جانا کہ اس مشکل صورت حال میں کسی بھی تنازع کو وزیر خارجہ کے ذریعے سنبھالا جائے تاکہ وزیراعظم کی ذات پر براہِ راست تنقید نہ آئے ۔
مودی کی غیر شرکت کی ایک اور وجہ داخلی سیاست سے بھی جڑی ہوئی ہے ۔ بھارت میں آنے والے عام انتخابات اور ریاستی سطح کے ضمنی انتخابات نے وزیراعظم کی مصروفیات بڑھا دی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی انتخابی مہم کے لیے عوامی جلسوں، منصوبوں کے افتتاح اور مقامی سطح پر سیاسی حکمت عملی پر زیادہ توجہ دینا چاہتی ہے ۔ ایسے وقت میں وزیراعظم کا طویل دورہ امریکہ میں گزارنا پارٹی کے لیے فائدہ مند نہ سمجھا گیا۔ مودی کی سیاسی حکمت عملی ہمیشہ یہ رہی ہے کہ وہ عوامی رابطے کو اپنی طاقت بناتے ہیں، اس لیے انہوں نے اپنی مصروفیات کا جھکاؤ اندرون ملک رکھا۔یہ فیصلہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کو اب صرف ایک پلیٹ فارم سمجھتا ہے ، مکمل عالمی پالیسی کا مرکز نہیں۔ مودی حکومت خطے میں Quad، BRICS، G20 اور دیگر علاقائی اتحادوں پر زیادہ فوکس کر رہی ہے جہاں براہِ راست مفادات اور عملی تعاون کی گنجائش زیادہ ہے ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اگرچہ ایک اہم علامتی مقام ہے مگر یہاں اکثر تقریریں محض بیانات کی حد تک رہ جاتی ہیں۔ عملی سطح پر کوئی فوری تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ بھارت کی قیادت چاہتی ہے کہ اپنی توانائیاں ان فورمز پر خرچ کی جائیں جہاں سے براہِ راست معاشی، تجارتی یا دفاعی فوائد حاصل ہوں۔مودی کی غیر موجودگی کو کچھ حلقے کمزوری سمجھتے ہیں اور یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر بھارت عالمی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے تو اس کا وزیراعظم کیوں پیچھے ہٹ رہا ہے ۔ تاہم بھارتی حکومت اس تاثر کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وزیر خارجہ ایک تجربہ کار سفارتکار ہیں اور وہ بھارت کا مؤقف بہتر انداز میں پیش کر سکتے ہیں۔ ایس جے شنکر کی تقرری اس مقصد کے لیے کی گئی کہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ بھارت ترقی، امن، ماحولیاتی تحفظ اور غربت کے خاتمے کے لیے پالیسیوں پر عمل پیرا ہے ۔ مودی کے اس فیصلے سے عالمی سطح پر یہ پیغام بھی گیا کہ بھارت اپنے مؤقف کو محتاط انداز میں پیش کرنا چاہتا ہے اور وہ کسی بھی تنازع میں براہ راست الجھنے سے گریز کرتا ہے ۔ یہ پالیسی بعض ماہرین کے نزدیک محتاط حکمت عملی ہے اور بعض اسے کمزوری قرار دیتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ عالمی سیاست میں الفاظ اور علامتوں کی بڑی اہمیت ہے ۔ اگر بھارت مستقل طور پر اس پلیٹ فارم کو ثانوی حیثیت دیتا رہا تو اس کی عالمی آواز کمزور ہو سکتی ہے ۔ لیکن اگر یہ صرف ایک وقتی فیصلہ ہے تو پھر اسے ایک سفارتی چال کہا جا سکتا ہے ۔
دنیا کے دیگر رہنما اس موقع پر اپنی موجودگی کو اہمیت دے رہے تھے ۔ امریکہ، یورپ اور چین کے سربراہان نے اپنی تقاریر کے ذریعے اپنے مؤقف کو اجاگر کیا۔ ایسے میں بھارت کے وزیراعظم کی غیر حاضری نے عالمی میڈیا میں سوال ضرور پیدا کیے ۔ کچھ تجزیہ نگاروں نے کہا کہ یہ فیصلہ بھارت کی جانب سے امریکہ کو ایک خاموش پیغام ہے کہ اگر تجارتی دباؤ بڑھایا گیا تو بھارت براہِ راست تعلقات کو ٹھنڈا بھی کر سکتا ہے ۔ بعض کے نزدیک یہ پیغام اندرونی سیاست کے لیے تھا کہ وزیراعظم عالمی اجلاس سے زیادہ اپنے عوام کے ساتھ ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت جیسا بڑا ملک اگر اپنی قیادت کو عالمی فورمز پر نمایاں رکھے تو اس کے مؤقف کی اہمیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔ جنرل اسمبلی میں کی جانے والی تقریر دنیا بھر کے میڈیا میں نمایاں طور پر رپورٹ ہوتی ہے اور اس سے ایک ملک کی نرم طاقت میں اضافہ ہوتا ہے ۔ اگرچہ وزیر خارجہ کی موجودگی اہم ہے مگر وزیراعظم کی شخصیت کا اثر اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر یہ سوال ضرور رہا کہ مودی کیوں نہیں گیا ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت آئندہ برسوں میں کیا رویہ اپناتا ہے ۔ اگر یہ روایت قائم ہو گئی کہ بھارتی وزیراعظم بار بار اس اجلاس سے غیر حاضر رہا تو یہ اس کی عالمی ساکھ پر اثر انداز ہو گی۔ تاہم اگر یہ صرف اس بار کا فیصلہ ہے اور مستقبل میں مودی یا کوئی اور بھارتی وزیراعظم دوبارہ اس پلیٹ فارم پر بھرپور شرکت کرے تو یہ خلا پر ہو سکتا ہے ۔اس وقت بھارت کو چاہیے کہ اپنی سفارت کاری کو دو سطحوں پر متوازن رکھے ۔ ایک طرف علاقائی اور عملی اتحاد جیسے Quad، BRICS اور G20 پر فعال کردار ادا کرے اور دوسری طرف اقوام متحدہ جیسے عالمی فورمز کو بھی نظر انداز نہ کرے ۔ کیونکہ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں دنیا کے چھوٹے بڑے تمام ممالک یکساں طور پر بات کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ بھارت اگر مستقل اپنی غیر موجودگی سے دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ ان فورمز کو غیر اہم سمجھتا ہے تو یہ اس کے عالمی اثر و رسوخ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
مودی کی غیر حاضری محض ایک وقتی حکمت عملی ہے جس کا مقصد تجارتی تنازعات اور حساس عالمی موضوعات پر غیر ضروری دباؤ سے بچنا تھا۔ مگر بھارت کو مستقبل میں یہ حقیقت یاد رکھنی ہوگی کہ عالمی پلیٹ فارمز پر ذاتی موجودگی علامتی ہی سہی مگر بے حد ضروری ہے ۔ یہ موجودگی کسی بھی ملک کے لیے عالمی سیاست میں طاقت اور اثر کی علامت ہوتی ہے اور بھارت جیسا ملک اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس موقع پر عالمی برادری کے سامنے اپنا موقف بھرپور انداز سے پیش کیا، دنیا معترف ہو گئی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بیس نکات کی باسی کڑھی وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بیس نکات کی باسی کڑھی

غزہ: موت کے سائے میں صحافت وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
غزہ: موت کے سائے میں صحافت

بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان وجود جمعرات 02 اکتوبر 2025
بے مقصد شہرت اور سطحی نمائش ایک گمراہ کن رجحان

پاکستان کا ہر شہری مقروض وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
پاکستان کا ہر شہری مقروض

آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول وجود بدھ 01 اکتوبر 2025
آزاد کشمیر میں عدمِ استحکام ناقابلِ قبول

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر