... loading ...
محمد آصف
اکیسویں صدی کو بجا طور پر میڈیا کی بالادستی کا دور کہا جاتا ہے ۔ ٹیلی ویژن اور سینما سے لے کر سوشل میڈیا اور اسٹریمنگ پلیٹ فارمز
تک، آج میڈیا انسانی سوچ، رویے اور طرزِ زندگی کو تشکیل دینے والا سب سے طاقتور ذریعہ بن چکا ہے ۔ میڈیا کے بے شمار مثبت پہلو ہیں،
جیسے تعلیم، آگاہی اور تفریح، لیکن اس کے منفی اثرات بھی اتنے ہی گہرے ہیں۔ مسلم معاشروں کے لیے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ میڈیا کے
یلغار نے مغربی ثقافت کی اندھی تقلید کو بڑھا دیا ہے اور مذہبی شعور کو مزید کمزور کر دیا ہے ۔ یہ تینوں عوامل میڈیا کا اثر، ثقافتی تقلید، اور روحانی
غفلت فرد کی شناخت، خاندانی ڈھانچے اور اجتماعی اخلاقی قدروں پر تباہ کن اثر ڈال رہے ہیں۔
میڈیا کا یلغار:ایک عالمی حقیقت
آج میڈیا محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ ثقافتی پیغام رسانی کا طاقتور ہتھیار ہے ۔ فلموں، ڈراموں، موسیقی، فیشن اور اب ڈیجیٹل پلیٹ
فارمز کے ذریعے عالمی میڈیا انڈسٹری، جو زیادہ تر مغربی طاقتوں کے قبضے میں ہے ، مخصوص طرزِ زندگی اور اقدار کو فروغ دے رہی ہے ۔ یہ
اثر صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں بلکہ دور دراز کے علاقوں میں بھی سرایت کر رہا ہے ، اور لوگوں کے نظریات کو بڑی تیزی سے بدل رہا
ہے ۔ترقی پذیر ممالک میں، جہاں تعلیمی اور مذہبی ڈھانچے کمزور ہیں، غیر ملکی میڈیا کا یلغار زیادہ تر غیر تنقیدی اور غیر شعوری قبولیت پر مبنی
ہے۔ بالخصوص بچے اور نوجوان میڈیا کے سب سے بڑے شکار ہیں جو لاشعوری طور پر خوبصورتی، کامیابی اور خوشی کے وہ معیارات اپناتے
ہیں جو اسکرین پر دکھائے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ اثر مقامی اقدار، زبان اور روایت کو کمزور کر کے ان کی جگہ ایک
یکساں عالمی ثقافت کو رواج دے رہا ہے ۔
مغربی ثقافت کی اندھی تقلید
میڈیا کے اس یلغار کا سب سے نمایاں نتیجہ مغربی ثقافت کی اندھی تقلید ہے ۔ کسی قوم کے لیے یہ فطری ہے کہ وہ دوسری تہذیبوں سے سیکھے
اور مفید چیزوں کو اپنائے ، مگر جب یہ عمل غیر تنقیدی تقلید میں بدل جائے تو اس سے شناخت اور ثقافت کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں۔ فیشن،
تفریح، تعلقات کے ماڈلز، حتیٰ کہ بات چیت کے انداز تک مغرب سے مستعار لیے جا رہے ہیں، بغیر یہ سوچے کہ یہ مقامی روایات اور مذہبی
تعلیمات سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مغربی طرزِ زندگی کو ترقی، آزادی اور جدیدیت کی علامت سمجھتا ہے ۔ اس کا
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لباس میں بے پردگی بڑھتی ہے ، انفرادیت کو اجتماعی ذمہ داری پر فوقیت دی جاتی ہے ، اور مادی کامیابی کو زندگی کا مقصد بنا
لیا جاتا ہے ، جبکہ روحانیت اور اخلاقی گہرائی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے ۔ خاندان کا تصور، جو مشرقی اور اسلامی معاشروں میں بنیادی حیثیت
رکھتا ہے ، آزادی اور لبرل تعلقات کے مغربی نظریے کے سامنے دب رہا ہے ۔ یہ تقلید صرف ظاہری انداز تک محدود نہیں بلکہ اقدار اور
تمناؤں تک پھیل گئی ہے ۔ شہرت، دولت اور لذت کی خواہشجیسا کہ مغربی میڈیا میں دکھائی جاتی ہے بہت سے افراد کا مقصدِ حیات بن چکی
ہے ۔ اس اندھی تقلید نے خدمت، عاجزی اور ایثار جیسے اوصاف کو پیچھے دھکیل دیا ہے اور نئی نسل کو اپنی جڑوں سے کاٹ دیا ہے ۔
مذہبی شعور کی کمی
اس بحران کی تیسری جہت مذہبی شعور کی کمی ہے ۔ بہت سے معاشروں میں دین کا علم محض رسمی عبادات تک محدود ہو گیا ہے ، جبکہ دین کی
گہری حکمت اور رہنمائی کو نظرانداز کر دیا گیا ہے ۔ میڈیا اس جہالت کو مزید بڑھاتا ہے ، کیونکہ اکثر مذہب کو دقیانوسی، تنگ نظر یا غیر متعلقہ
دکھایا جاتا ہے ۔ جب مضبوط مذہبی تعلیم کا فقدان ہو تو نوجوان ایسے پروپیگنڈے سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ تفریح میں ڈوبا ہوا
معاشرہ عبادت اور روحانی تربیت کے لیے وقت یا دلچسپی نہیں رکھتا۔ گھنٹوں سوشل میڈیا پر وقت ضائع کیا جاتا ہے ، فلمیں دیکھی جاتی ہیں اور
مشہور شخصیات کے کلچر کو اپنایا جاتا ہے ، جبکہ نماز، قرآن کی تلاوت اور سیرت النبی ۖ سے رہنمائی کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے ۔ اس عدم
توازن نے فرد کی روحانیت کو کمزور کر دیا ہے اور معاشرتی اخلاقی قوت کو بھی متاثر کیا ہے ۔
تینوں مسائل کا باہمی ربط
میڈیا کا یلغار، مغربی ثقافت کی تقلید، اور مذہبی شعور کی کمی تینوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ میڈیا وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے
مغربی اقدار عام ہوتی ہیں۔ اندھی تقلید ان اقدار کو مزید مضبوط کرتی ہے ، جبکہ مذہبی شعور کی کمی انسان کو ان اقدار کا تنقیدی جائزہ لینے یا ان
کی مزاحمت کرنے سے روک دیتی ہے ۔ یوں ایک ایسا دائرہ بن جاتا ہے جس میں ثقافتی غلامی اور روحانی زوال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر ایک نوجوان جو زیادہ وقت مغربی میڈیا دیکھنے میں گزارتا ہے ، لازمی طور پر اس کی فیشن اور طرزِ زندگی کی پیروی کرتا ہے ۔
جب مذہبی تعلیم اور آگہی کمزور ہو تو وہ یہ سوچنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے کہ آیا یہ ماڈل اسلامی اقدار سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ وقت
کے ساتھ ساتھ یہ رویہ ایمان کو کمزور اور معاشرتی شناخت کو مبہم کر دیتا ہے ۔
بحران کا حل
اس بحران سے نکلنے کے لیے ایک جامع حکمتِ عملی کی ضرورت ہے ۔ سب سے پہلے میڈیا کے ساتھ غیر تنقیدی رویہ ختم کر کے تنقیدی
شعور پیدا کرنا ہوگا۔ تعلیمی اداروں میں میڈیا لٹریسی کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ نوجوان سیکھ سکیں کہ کون سا مواد فائدہ مند ہے اور کون سا
نقصان دہ۔دوسرا، مقامی ثقافت کو زندہ کرنا ہوگا۔ اس کا مطلب ہے زبان، ادب، فنون اور اقدار کو فروغ دینا تاکہ معاشرے اپنی جڑوں پر
فخر کر سکیں۔ اگر مقامی انڈسٹریز ایسے ڈرامے ، فلمیں اور مواد تیار کریں جو ثقافت اور اخلاقیات پر مبنی ہوں تو مغربی مواد کا متبادل فراہم ہو سکتا
ہے ۔تیسرا اور سب سے اہم پہلو مذہبی تعلیم کا احیاء ہے ۔ دین کو محض رسومات تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے ایک مکمل طرزِ زندگی کے طور پر
پیش کیا جائے جو روحانی، فکری اور سماجی پہلوؤں کو حل کرتا ہے ۔ جدید ذرائع ابلاغ کو بھی دین کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے ، جیسے
آن لائن دروس، قرآن کورسز اور مثبت اسلامی مواد کی ترویج۔
نتیجہ
میڈیا کی یلغار، مغربی ثقافت کی اندھی تقلید، اور مذہبی شعور کی کمی معاشروں کے لیے سنگین خطرے ہیں۔ اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ہماری
شناخت کو مٹا دیں گے ، خاندانی ڈھانچے کو کمزورکریں گے اور نئی نسل کو ایمان سے دور لے جائیں گے ۔ لیکن یہ بحران ایک موقع بھی ہے کہ
ہم جدید دنیا سے مثبت پہلو اختیار کرتے ہوئے اپنی اصل اقدار کو زندہ کریں۔ اصل حل تنہائی اختیار کرنے میں نہیں بلکہ توازن میں ہے ۔
ہمیں میڈیا اور عالمی ثقافت کے مثبت پہلوؤں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ اسی توازن کے
ذریعے ہم نئی نسل کو ایک ایسا مستقبل دے سکتے ہیں جو نہ صرف ترقی یافتہ ہو بلکہ باایمان، بااخلاق اور اپنی شناخت پر فخر کرنے والا بھی ہو۔
٭٭٭