وجود

... loading ...

وجود

بھارت عالمی تنہائی کا شکار

اتوار 28 ستمبر 2025 بھارت عالمی تنہائی کا شکار

ریاض احمدچودھری

بھارتی اپوزیشن رہنماؤں نے وزیراعظم نریندر مودی کی خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت عالمی سطح پر تنہائی اور کمزوری کا شکار ہو گیا ہے۔ ان کے مطابق مودی کی سفارتکاری ذاتی تعلقات، تصویری نمائش اور دکھاوے تک محدود رہی ہے، جس کا نقصان براہِ راست عوام اور ملک کے اسٹریٹجک مفادات کو ہو رہا ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی نے سوال اٹھایا کہ”ہاؤڈی مودی اور نمستے ٹرمپ جیسی مہمات سے بھارت نے کیا حاصل کیا؟” ایچ ون بی ویزا پر پابندیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ امریکا کو بھارت کی کوئی پرواہ نہیں۔کانگریس رہنما اروند کیجریوال نے مودی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا: “کچھ تو کریں، آخر 140 کروڑ عوام کا وزیر اعظم اتنا بے بس کیوں ہے؟”ملیکارجن کھرگے نے انکشاف کیا کہ ایچ ون بی ویزا رکھنے والے متاثرین میں 70 فیصد ہندوستانی ہیں، جب کہ 50 فیصد ٹیرف سے 10 شعبوں میں 21 ہزار 700 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔ چابہار بندرگاہ سے استثنیٰ ختم ہونے کے باعث بھی بھارت کو اسٹریٹجک نقصان ہوا ہے۔اسی طرح کانگریس رہنما گورو گگوئی نے کہا کہ امریکا کے حالیہ فیصلے سے بھارت کے مستقبل کو نشانہ بنایا گیا ہے، لیکن مودی کی خاموشی اور دکھاوے کی سیاست بھارتی شہریوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔ کپل سیبال نے طنزیہ انداز میں کہا کہ “ایچ ون بی ویزا پر پابندی کے بعد ذاتی تعلق، گلے ملنا اور ‘اب کی بار ٹرمپ سرکار’ کہاں گیا؟”اپوزیشن رہنماؤں نے الزام لگایا کہ مودی حکومت کی خارجہ پالیسی دکھاوے، جھوٹ اور تکبر پر مبنی ہے جو اب زمین بوس ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتہا پسند مودی اپنی سیاسی بقا کے لیے بھارت سمیت پورے خطے کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
امریکی جریدے” نیو یارک ٹائمز” نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاہے کہ امریکہ اورچین کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے بعد بھارت عالمی تنہائی کا شکارہوگیا ہے۔ 2014میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے چین کے صدر شی جن پنگ کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا لیکن اس دوران چینی فوجی بھارتی سرحد پر ان کے فوجیوں کے ساتھ تصادم میں الجھ گئے جس سے نہ صرف نریندر مودی کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں بھارتی فوج کو سخت سردی والے علاقے میں جنگی حالت میں تیار رکھنا پڑا جس سے بھارت کی معیشت بھی متاثر ہوئی۔ سالوں بعد بھارتی وزیراعظم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرم جوشی دکھائی اور اپنی سیاسی ساکھ مزید دا ئوپر لگا کر اس تعلق کو تیزی سے بدلنے کی کوشش کی۔نریندر مودی نے اپنی پہلی مدتِ حکومت میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اتنی دوستی بڑھائی کہ پروٹوکول توڑ کر ہیوسٹن میں ایک بھرے اسٹیڈیم میں ان کی انتخابی مہم میں شرکت کی۔سابق بائیڈن انتظامیہ نے بھی تعلقات کو وسعت دینا جاری رکھا کیونکہ بھارت کو چین کے خلاف ایک مضبوط اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے حال ہی میں50فیصد کا بھاری ٹیرف لگانے کے اقدام نے نریندر مودی کو ذلت سے دوچار کر دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت کو روسی تیل کی خریداری کا حوالہ دیتے ہوئے 50فیصد کا بھاری ٹیرف لگا دیا اور بھارتی معیشت کو مردہ قرار دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ رواں سال کے اوائل میں پاک۔بھارت تنازعہ حل کرنیکی کوشش کے دوران پاکستانی قیادت کو برابری کی حیثیت دے کر بھارت کو پہلے ہی ناراض کرچکے تھے۔اس سب نے بھارت کو ایک ایسی صورتحال سے دوچار کر دیاجہاں اسے اپنی طاقت کو دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ایک وسیع اور بڑھتی ہوئی معیشت ہونے کے باوجود مودی نے رواں ہفتے اعتراف کیا کہ تجارتی تنازعے پر انہیں سیاسی قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔بھارت بیجنگ کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے اور مودی گزشتہ 7برسوں میں پہلی بار رواں ماہ کے آخر میں چین کا دورہ کرنے والے ہیں، مگر تعلقات اب بھی سرحدی جھڑپ اور حالیہ دنوں میں پاکستان کے ساتھ کشیدگی کے دوران چین کی جانب سے پاکستان کی حمایت کی وجہ سے تنائو کا شکار ہیں۔دوسری طرف مودی نے کہا کہ میں رواں سال کے آخر میں روسی صدر پیوٹن کی بھارت میں میزبانی کرنے کا منتظر ہوں۔مگر اس دوڑ دھوپ اور ضد سے ہٹ کر بھارت کی یہ خواہش کہ وہ ایک معاشی اور سفارتی طاقت کے طور پر اپنے عروج کو مستحکم کرے، غیر یقینی صورتحال سے ماند پڑتی دکھائی دیتی ہے۔بھارتی حکام اور ماہرین میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ملک کو اپنی طویل آزمودہ اسٹریٹجک خود مختاری کی پالیسی پر واپس جانا ہوگا۔بیجنگ اور واشنگٹن میں بھارت کی سابق سفیر نیروپما را نے کہا کہ ٹرمپ کے سخت اقدامات نے انتہائی اہم شراکت داری کی اسٹریٹجک منطق کو تہ و بالا کر دیا ہے، جو 2 دہائیوں سے زیادہ عرصے میں بڑی محنت سے پروان چڑھائی گئی تھی۔ نئی دہلی کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی عملی اسٹریٹجک ایڈجسٹمنٹس کرنا ہوں گی۔
رواں ہفتے ٹرمپ کے بھاری ٹیرف کے اعلان کے بعد مودی نے ایک جلسے سے خطاب میں کہا تھا کہ بھارت کبھی اپنے کسانوں، ماہی گیروں کے مفاد پر سمجھوتہ نہیں کرے گا، مجھے معلوم ہے کہ مجھے ذاتی طور پر بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور میں اس کے لیے تیار ہوں۔ امریکی جریدے کی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ درحقیقت یہ تعلقات اس سے پہلے ہی بگڑنا شروع ہو گئے تھے، جب ٹرمپ نے روسی تیل پر توجہ مرکوز کی، حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق تعلقات کی خرابی کا تعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایک ذاتی ناراضگی سے ہے۔رواں برس مئی میں پاکـبھارت کشیدگی جب سرحد پار جھڑپوں میں بدلی تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے دونوں فریقوں پر دبائو ڈال کر جنگ بندی کرائی۔جہاں پاکستانی حکام نے اس کا خیر مقدم کی اور ٹرمپ کا نام نوبل امن انعام کے لیے تجویز کیا ، وہیں بھارتی حکام نے امریکی صدر کے دعوے کی تردید کر دی اور ٹرمپ کے موقف کے خلاف موقف اپنایا، جسے وہ درجنوں بار دہرا چکے ہیں۔ بھارتی حکام نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مودی ایک طاقتور لیڈر ہیں جنہوں نے اپنی عسکری طاقت سے پاکستان کو جنگ بندی کی درخواست کرنے پر مجبور کیا تھا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025
لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں

وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر