... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عربوں کو ”جنگی رضاکاروں” کی ضرورت ہے اور پاکستان کو ”اربوں” کی!پاک سعودیہ معاہدہ دونوں کی ضروریات پوری کرتا ہے، مگر کتنی؟ یہ پہلو ابھی پردۂ ابہام میںہے۔ بلا شبہ یہ معاہدہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور اس میں مشرق وسطیٰ کے اندر تبدیلیوں کے آتش فشاں کو دہکانے والا ایک لاوا موجود ہے۔ مگر معاہدے کو پاکستان میں حرمین شریفین کے تحفظ کی ایک رومانوی گوٹا کناری کرکے پیش کیا جا رہا ہے، اگر ردِ عمل کی مختلف پرتوں کو کھولا جائے تو ‘سرکاری’ سرپرستی کے بیانئے میں یہ ایک انوکھا واقعہ بھی لگتا ہے۔معاہدے کے انوکھے پن کے ساتھ حرمین شریفین کے تحفظ کا ایک سرشار کردینے والا تاثر اپنی نہاد میں جائزہ طلب ہے۔ درحقیقت یہ منظر نامہ ہماری قومی طاقت کے ارتکاز میں ریاستی مقاصد کے خدمت گار تمام روایتی اداروں بشمول مذہبی روایت کے زوال سے پیدا ہونے والی ایک ذہنیت کا آئینہ دار بھی ہے۔
معاہدے کے انوکھے پن کے ابتدائی تاثر کو پہلے لیتے ہیں۔ پاکستان اور سعودیہ میں مستقبل کے دفاعی تعلقات کی بنیاد 1951ء کے ایک معاہدے سے ڈالی گئی۔ یہ باہمی تعاون کا پہلا خاکہ تھا۔پاکستان کا سعودی عرب سے 1967 سے 1970 کی پوری دہائی تک غیر رسمی دفاعی تعاون جاری رہا۔ اس دوران میں سعودی فضائیہ اور زمینی افواج کی تربیت کااہتمام ہوتا رہا۔ پاکستان سے فوجی انسٹرکٹرز اور پائلٹ تربیت فراہم کرتے رہے۔ یہ تعلقات1982ء میں ایک باضابطہ دفاعی تعاون میں ڈھل گئے یہاں تک کہ اس معاہدے کے بعد سعودی دفاعی ڈھانچے کی تنظیم نو کی گئی۔ 1990 میںپہلی خلیجی جنگ ( آپریشن ڈیزرٹ شیلڈ)کے موقع پر پاکستان کے فوجی دستے باقاعدہ سعودی عرب میں تعینات رہے۔اگلی دہائی (2000ئ) بھی خالی نہیں گئی۔ یہ دونوں ملکوں میںانسدادِ دہشت گردی میں تعاون اور انٹیلی جنس شیئرنگ ، فوجی مشقیں اور دہشت گردی کے خلاف شراکت کا عرصہ رہا۔ 2015ء میں یمن کا بحران پیدا ہوا۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے فوجی مداخلت کا فیصلہ مسترد کردیا، تب پاکستان نے براہِ راست جنگ میں شرکت تو نہیں کی لیکن فوجی مشاورت اور تربیت کا عمل رُک نہیں سکا۔ پاکستان اور سعودیہ کے درمیان میں2018 سے 2021 تک ایک سپریم کوآرڈی نیشن کونسل متحرک رہی جس نے مشرکہ مشقوں اور دفاعی تعاون کو ایک ادارہ جاتی شکل دے دی۔ انسدادِ دہشت گردی میں تعاون اور عسکری تربیت بھی جاری رہی۔
اس پورے تاریخی بہاؤ میں17ستمبر 2025 کو پاکستان میں” اسٹریٹیجک ڈیفنس پارٹنر شپ ”کا ایک معاہدہ عمل میں آیا۔ غور کیا جائے تو پاکستان کا سعودیہ کے ساتھ تعلقات میں ابتدائی کردار زیادہ تر فوجی تربیت، دفاعی ڈھانچے کی معاونت اور انسٹرکٹرز کی فراہمی پر مبنی رہا۔ پھر 1982 سے 2025 تک یہ باضابطہ دفاعی شکل کی صورت بھرتے رہے۔ نتیجہ معلوم ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ اپنے دفاعی ڈھانچے کے لیے پاکستانی فوجی تجربے پر انحصار کیا۔سوال یہ ہے کہ معاہدوں ، مشقوں ، تربیتوںاور تعلق داریوں کی اس پوری تاریخ میں ایسا کیا انوکھا ہوا کہ 17ستمبر کے معاہدے کو بہت زیادہ اہمیت ملنے لگی؟نیا معاہدہ دراصل ایک مسلسل روایت کا حصہ ہی ہے جو آٹھ دہائیوں پر محیط ہے ۔البتہ ہر دور میں حالات کے مطابق ان معاہدوں کی نوعیت اور توجہ کا محور حسب ِ ضرورت بدلتا رہا۔یعنی اس نوع کے معاہدوں کی فوجی، مالی، سرمایہ کاری یا توانائی کی جہتوں سے تشریح کی جاتی رہی۔حالیہ پاک سعودیہ معاہدے کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ”کسی بھی ایک ملک پر حملہ دوسرے ملک پر بھی تصور کیا جائے گا”۔ یہ معاہدے کی پہلی ہی شق ہے۔ صرف اسی شق پر پاکستان میں فتح کے شادیانے ، عالم اسلام کے اتحادی ترانے ، اور سرشاری کے نغمے سنائی دے رہے ہیں۔ مگر اسی شق نے عالمی سطح پر جو سوالات پیدا کیے ، اس کا پہلا اثر وزارت خارجہ کے ترجمان کی محتاط زبان پر دکھائی دیا۔ جب اُنہوںنے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ یہ ایک دفاعی معاہدہ ہے اور یہ کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف نہیں۔ اگر یہ کسی بھی تیسرے ملک کے خلاف نہیںتو کیا اِسے پاکستان اور سعودیہ کی روایتی تاریخ میں ایک تربیتی نوع کا معاہدہ سمجھا جائے گایا نہیں؟ اس کے جواب میں بغلیں بجانے کا عمل رک سکتا ہے۔ اس لیے یہ سوال نظرانداز کر دیں۔
عالمی سطح پر سب سے زیادہ تجسس یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ سعودی عرب کو جوہری چھتری فراہم کرتا ہے۔ یہ پہلو معاہدے میں ابہام رکھتاہے۔ مگر پاکستان کے غیر موثر اور اپنے بیانات میں ناقابل اعتبار وزیر دفاع خواجہ آصف نے اب تک دو موقف اختیار کیے ہیں۔پاکستان کے ایک نجی چینل پر 18 ستمبر کو وزیر دفاع سے یہ سوال ہو اکہ” پاکستان کو جو دفاعی تحفظ ایٹمی ہتھیاروں سے حاصل ہے ، کیاوہ سعودی عرب کو بھی فراہم کیا جائے گا؟” خواجہ آصف نے جواب دیا:”ریاض اور اسلام آباد کے درمیان حالیہ دفاعی معاہدے کے تحت ضرورت پڑنے پر پاکستان کا جوہری پروگرام سعودی عرب کے لیے دستیاب ہو گا”۔ خواجہ آصف کے اس بیان کو عرب ذرائع ابلاغ میں بہت زیادہ جگہ دی گئی۔ مگر جب یہی سوال برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹر نے خواجہ آصف سے پوچھا تو اُن کا جواب مختلف تھا:”معاہدے میں ایٹمی ہتھیار شامل نہیں، البتہ اسے خلیج کے دیگر ممالک تک بھی بڑھایا جاسکتا ہے ”۔ یہ ایک ہی زبان سے ادا کیے گئے دو مختلف موقف ہیں۔ یہ نکتہ واضح رہنا چاہئے کہ سعودی عرب واضح اشارہ دے رہا ہے کہ ”وہ اس معاہدے سے ایک طرح کی ”ایٹمی ڈھال” حاصل کر رہا ہے”۔ ان تضادات کو یہیں پر چھوڑ دیتے ہیں تاکہ پاکستان میں رومانوی دنیا میں آسودہ مگر عملی دنیا سے لاتعلق مذہبی ذہن کی جذباتی تسکین اور لفطی گولہ باری کا سامان بکھر نہ جائے۔ ایک نکتے کے طور پر واضح رہنا چاہئے کہ عالمی سطح پر یہ تجسس موجود ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو ”ایٹمی ڈھال” دے گا یا نہیں؟
اب آئیے! حرمین شریفین کے تحفظ کے سرشار کردینے والے تاثر کی معنویت کو حقائق کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیل نے 9 ستمبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک رہائشی کمپاؤنڈ پر حملہ کر کے حماس کے جلاوطن قیادت کو نشانہ بنایا ۔ جس نے پوری عرب دنیا کو بے چین کردیا۔ کیونکہ اس حملے کو امریکا نے قطر میں اپنا عسکری اڈہ (العدید ائیربیس) ہونے کے باوجود روکا نہیں۔ا س کے بعد 57اسلامی ممالک کے سربراہان ایک کانفرنس میں 15 ستمبر کو دوحہ میں جمع ہوئے ، مگر ایک مذمتی بیان سے زیادہ کچھ بھی طے نہ کر سکے۔ظاہر ہے کہ مسلم ذہن جو عالم اسلام کے حکمرانوں سے برگشتہ اور برانگیختہ حالت میں ہے، مگر اسے مختلف قسم کی روایتی اور غیر روایتی تعبیرات میں الجھا کر گمراہ کن طریقے سے ایک مسیحائی انتظار کی رومانوی فضا میں رکھا گیا ہے۔اس ذہن کو اپنے آپ سے لڑتے ہوئے خود ہی تسلی وتشفی کا ایک سامان کرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ قطر میں دوحہ کانفرنس سے مایوس مسلم ذہن نے اس کے ٹھیک دو روز بعد 17ستمبر کو پاکستان سعودیہ کے ”اسٹریٹیجک ڈیفنس پارٹنر شپ ” معاہدہ کو اسرائیل کے خلاف سمجھ کر قبول کر لیا۔ اور اس کی مختلف تعبیرات پیش کرنا شروع کردیں۔ یہاں تک کہ جمعة المبارک کے اجتماعات کو اس معاہدے کی تقدیس بیان کرنے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حیرت ہے کہ بلاول بھٹو کی زبان سے بھی حرمین شریفین کا ذکر ہوا اور اصحابِ منبر و محراب اور صاحبان ِجبہ و دستار نے بھی اس کی تعبیر کے لیے یہی الفاظ استعمال کیے۔ سرکاری ہینڈلرز بھی اسی کا ابلاغ کر رہے تھے تو اسلامی انقلاب کے علمبرداران کی زبانوں سے بھی یہی” زمزم ”بہہ رہا تھا۔ایسی زبردست ہم آہنگی میںاس سوال پر کسی نے غور تک نہیں کیا کہ کیا سعودی عرب ، اسرائیل کو ایک دشمن ریاست سمجھتا بھی ہے یا نہیں؟ کیا سعودی عرب کے نزدیک اسرائیل اس کے لیے کوئی خطرہ بھی ہے یا نہیں؟ یہ سوال کوئی عجیب نہیں، قرین حقیقت ہے۔اس کا جواب اگلی تحریر میںڈھونڈیں گے۔ بس یہاں یہ یاد رکھیں کہ اس کے جواب سے ہی معاہدے کے گرد بُنے گئے بیانئے کی حقیقت واضح ہوتی ہے۔
٭٭٭