وجود

... loading ...

وجود

چینی کی بے چینی

هفته 13 ستمبر 2025 چینی کی بے چینی

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

چینی کا استعمال مضر ِصحت ہونے کے باوجود پاکستان میں چینی کا حد سے زیادہ استعمال تشویش کا باعث ہے ۔پاکستان میں چینی کی قیمتوں پر حکومت کے تمام دعوؤں کے باوجود عوام کو ریلیف نہ مل سکا اور صورتحال تاحال گھمبیر ہے ۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت ملک میں چینی کی اوسط قیمت 181.36روپے فی کلوگرام ہے جو گزشتہ ہفتے 181.59روپے تھی یعنی صرف 23 پیسے کی کمی آئی ہے ، تاہم یہ کمی عوام کے لیے نہ ہونے کے برابر ہے ۔ کراچی میں شہری سب سے مہنگی چینی 195روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہیں، اسلام آباد، راولپنڈی، پشاور اور خضدر میں بھی قیمتیں 190روپے کے قریب ہیں۔ ایک سال قبل یعنی 2024کے انہی دنوں میں اوسط قیمت 142.32 روپے تھی جس سے واضح ہے کہ گزشتہ برس کے دوران چینی کی قیمتوں میں شدید اضافہ ہوا۔ حکومت نے گزشتہ ماہ بحران پر قابو پانے کے لیے چینی کی درآمد کی اجازت دی تھی اور اندازاً پانچ لاکھ ٹن تک درآمد کا فیصلہ کیا گیا تھا جس میں نجی شعبہ اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان دونوں شامل تھے ، مگر قیمتوں پر خاطر خواہ اثر نہ پڑا۔
درآمدات کے باوجود قیمتوں کے مستحکم نہ ہونے کی متعدد وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ درآمد شدہ چینی کی لاگت ہی بہت زیادہ ہے ۔ پورٹ پر پہنچنے کے بعد چینی کا خرچ تقریباً 153 روپے فی کلوگرام آتا ہے ، اگر اس پر سیلز ٹیکس شامل کیا جائے تو یہ 181روپے تک جا پہنچتی ہے اور دیگر اخراجات اور ٹیکسز شامل ہوں تو قیمت 249روپے فی کلوگرام تک بھی جا سکتی ہے ۔ بعض رپورٹس کے مطابق کراچی کی بندرگاہ پر اترنے والی چینی کی قیمت 155سے 160روپے فی کلوگرام تک پڑتی ہے ، حالانکہ اس پر حکومت نے ڈیوٹی اور ٹیکسز میں کچھ چھوٹ دی ہوئی ہے ۔ لیکن جب مارکیٹ میں یہ چینی پہنچتی ہے تو اس کی قیمت ویسے ہی مقامی سطح پر پہلے سے زیادہ ہونے کے باعث کسی واضح کمی کی صورت سامنے نہیں آتی۔دوسری بڑی وجہ ذخیرہ اندوزی اور دلالوں کی سرگرمیاں ہیں۔ پاکستان میں کئی شوگر مل مالکان خود ہی بروکر کا کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ چینی کو ذخیرہ کر کے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں تاکہ قیمتیں بڑھ سکیں۔ یہ عمودی انضمام صارفین کے لیے مزید مشکلات کھڑی کرتا ہے اور حکومت کے اقدامات بے اثر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ تیسری وجہ پالیسیز کا المیہ ہے ۔ حکومت کی شوگر پالیسی ہمیشہ عارضی اور دباؤ کے تحت بنی ہے ، اس میں طویل المدتی منصوبہ بندی کا فقدان ہے ۔ گزشتہ سیزن میں حکومت نے غیر حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر سات لاکھ پینسٹھ ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی جس سے ملک کے اندر قلت پیدا ہوئی اور قیمتوں میں اچانک اضافہ ہو گیا۔ اندازہ ہے کہ اس فیصلے کے نتیجے میں چینی کی قیمت میں تقریباً 40 فیصد یعنی 56 روپے فی کلو تک کا اضافہ ہوا۔ اسی طرح حالیہ دنوں میں درآمد کے لیے جاری کیے گئے ایک لاکھ ٹن کے ٹینڈر کو بلند قیمت اور آئی ایم ایف کے اعتراضات کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا جس سے مارکیٹ میں یہ تاثر مزید گہرا ہوا کہ حکومت کے اقدامات عملی ریلیف دینے سے قاصر ہیں۔چوتھی وجہ یہ ہے کہ حکومتی نگرانی اور مارکیٹ کنٹرول کے اقدامات ناکام ثابت ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر کراچی میں کمشنر نے ہول سیل سطح پر چینی کی قیمت 170 روپے اور ریٹیل سطح پر 173روپے مقرر کی لیکن عملی طور پر مارکیٹ میں قیمت 185سے 190روپے تک پہنچ گئی اور چھوٹے دُکاندار200روپے فی کلو تک وصول کرنے لگے ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرکاری ریٹ صرف کاغذی کارروائی تک محدود ہیں اور ان پر عمل درآمد کرانے والا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ رمضان اور دیگر مواقع پر جب چینی کی طلب بڑھتی ہے تو دکاندار اور ڈیلرز موقع سے فائدہ اٹھا کر مزید اضافہ کر دیتے ہیں۔ عوام کی مجبوری یہ ہے کہ وہ مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور احتجاج کی صورت میں بھی حکومت محض زبانی وعدوں تک محدود رہتی ہے ۔
اس پس منظر میں اگر تاریخی پہلو دیکھا جائے تو مارچ 2025میں گزشتہ سال کی نسبت چینی کی قیمتوں میں 22فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس وقت عوام نے اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ دیگر ضروری اشیاء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ لیکن اب صورت حال مختلف ہے ۔ چینی روزمرہ کی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی اشیاء میں سے ہے اور اس کی قیمتوں میں استحکام نہ ہونے سے براہِ راست ہر گھر کا بجٹ متاثر ہو رہا ہے ۔ حکومت نے درآمدات کے ذریعے ریلیف دینے کی کوشش کی لیکن جب تک درآمد شدہ چینی کی قیمت مقامی سطح پر مسابقتی نہیں بنتی اس وقت تک اس کے اثرات ظاہر ہونا ممکن نہیں۔ بلکہ کئی ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ نظام میں امپورٹ بھی دراصل دلالوں اور مل مالکان کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ صارفین تک چینی پھر بھی زیادہ نرخ پر ہی پہنچے گی۔
مستقبل میں کئی خطرات موجود ہیں۔ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو صارفین کو مہنگی چینی ہی خریدنا پڑے گی اور کسی بڑی کمی کی امید نہیں رہے گی۔ مارکیٹ میں ذخیرہ اندوزی جاری رہی تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے ۔ حکومتی اداروں کی مداخلت کمزور ہے اور ان کے پاس شفافیت اور مؤثر نفاذ کا نظام موجود نہیں، اس لیے عوامی ریلیف کے اقدامات محض دعووں تک محدود ہیں۔ اسی لیے اب وقت آ گیا ہے کہ
حکومت فوری اور عملی اقدامات کرے ۔ سب سے پہلے درآمد شدہ چینی پر عائد ٹیکسز اور لیویز میں کمی لائی جائے تاکہ عام صارف کو 175
روپے فی کلو کے قریب چینی دستیاب ہو سکے ۔ دوسرا، درآمدی ٹینڈرز کو شفاف اور بروقت بنایا جائے تاکہ قیمتوں پر فوری اثر پڑے ۔ تیسرا،
ذخیرہ اندوزی کرنے والے مل مالکان اور دلالوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ۔ اس مقصد کے لیے ایک مؤثر مانیٹرنگ نظام قائم کیا جائے جو ضلعی سطح تک قیمتوں کو مانیٹر کرے ۔ چوتھا، مقامی پیداوار کو بڑھانے کے لیے زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کی جائے ، کسانوں کو بہتر بیج اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے اور بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جائے ۔ پانچواں، ڈیجیٹل مانیٹرنگ ٹولز جیسے پرائس اسکور کارڈ کو فعال کر کے عوامی سطح پر قیمتوں کے ڈیٹا کو شفاف بنایا جائے تاکہ صارفین کو صحیح معلومات دستیاب ہوں اور وہ مہنگے دام پر خریداری سے بچ سکیں۔حقیقت یہ ہے کہ سرکاری دعووں کے باوجود چینی کی قیمتیں نیچے آنے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ اس کی اصل وجوہات میں ناقص پالیسی سازی، درآمدی عمل کی مشکلات، ٹیکس کا بوجھ، ذخیرہ اندوزی اور حکومتی اداروں کی کمزور گرفت شامل ہیں۔ اگر حکومت واقعی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے ، ورنہ چینی کی قیمتیں اسی طرح بلند رہیں گی اور عوام کو ہر روز اس مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ صورتحال اس بات کی علامت ہے کہ ملک کے معاشی نظام میں بنیادی اصلاحات کے بغیر کسی بھی حکومتی اعلان یا وقتی اقدام سے عوام کو مستقل فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
چینی کی بے چینی وجود هفته 13 ستمبر 2025
چینی کی بے چینی

سحر زدہ تاریخ! وجود جمعه 12 ستمبر 2025
سحر زدہ تاریخ!

منافع خور مافیا اور بھوکے عوام وجود جمعرات 11 ستمبر 2025
منافع خور مافیا اور بھوکے عوام

قائد اعظم کا خواب، اسلامی فلاحی معاشرہ وجود جمعرات 11 ستمبر 2025
قائد اعظم کا خواب، اسلامی فلاحی معاشرہ

بھارتی آبی دہشت گردی وجود بدھ 10 ستمبر 2025
بھارتی آبی دہشت گردی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر