... loading ...
ریاض احمدچودھری
قائداعظم محمد علی جناح ایک پاک صاف ذہن کے مالک، راست فکر اور راست گو انسان تھے۔ پاکستان کو ایک جدید اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ان کے دل و دماغ میں یہ بات سما گئی تھی برصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں سے آزادی دلائی جائے نیز ہندو اکثریت کی غلامی میں جانے سے محفوظ رکھا جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ مسلمانوں کی ایک ایسی مملکت قائم کرنا چاہتے تھے جہاں وہ قرآن و سنت کے احکامات و تعلیمات کے مطابق آزادنہ زندگی بسر کر سکیں۔
قائد خلیفہ راشد دوم حضرت عمر فاروق کے نظام حکومت جیسا نظام پاکستان میں رائج ہوتے دیکھنا پسند کرتے تھے۔ بابائے قوم پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت کو دین اسلام کے زریں اصولوں پر استوار کر کے دنیا پر ثابت کرنا چاہتے تھے یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیںجس طرح رسول کریمۖ اور خلفائے راشدین کے زمانے میں تھے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر ان کے خطاب سے یہ بات عیاں ہوتی ہے وہ پاکستان میں اسلامی معیشت کو رائج دیکھنا چاہتے تھے اور یہاں ہر قسم کے استحصال سے پاک معاشرہ دیکھنے کے آرزومند تھے جس میں غریبوں کو بھی آگے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کے یکساں اور بھرپور مواقع حاصل ہوں۔ وہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کا سوفیصد تحفظ چاہتے تھے اور انہیں برابر کا شہری تصور کرتے تھے۔
قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو اقوام عالم میں ایک ممتاز مقام پر فائز دیکھنے کے آرزومند تھے۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہئے ہم پاکستان کو بانی پاکستان کے تصورات کا آئینہ دار بنانے میں کس قدر کامیاب ہوئے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے اس سمت میں ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے تاہم سفر جاری رہا تو ایک نہ ایک دن منزلِ مراد تک ضرور پہنچ جائیں گے۔قائد چاہتے تھے کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کا ماڈل بنا کر پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ ہمیں نظام حکومت دیا جائے تو ہم ایک ایسا ماڈل معاشرہ دیں گے جس کا افسر، جج، وکیل، استاد، پولیس، تاجر وغیرہ اور انتخابی نظام بھی مثالی ہو گا۔ قیام پاکستان سے قبل انتخابات کے دوران جی ایم سید نے قائداعظم کو خط لکھا ہمارا ایک مخالف امیدار اپنے اخراجات لیکر ہمارے حق میں دستبردار ہونے کو تیار ہے’ ایسا ہو جائے تو اس سے ہماری پوزیشن خاصی مستحکم ہوجائے گی۔ آپ کی کیا رائے ہے؟۔ قائداعظم نے جواباً لکھا میں اس سیٹ کو خریدنے کے بجائے یہ سیٹ ہارنا زیادہ پسند کروں گا۔
6 مارچ 1940 کو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں خطاب کے دوران فرمایا کہ دو سال ہوئے میں نے شملہ میں کہا تھا کہ ہندوستان کیلئے پارلیمانی جمہوری نظام حکومت غیر موزوں ہے۔ اس پر کانگریس اخبارات نے میرے خلاف بیان بازی کی کہ تم اسلام کو نقصان پہنچانے کے مجرم ہو کیونکہ وہ جمہوریت کی تلقین کرتا ہے۔ مگر جہاں تک مجھے اسلام کا علم ہے، وہ ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتا جو مسلم اکثریت کو مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے۔ ہم کوئی ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جسی کی رو سے ایک غیر مسلم اکثریت محض تعداد کی بنا پر مسلمانوں پر حکومت کرے اور ہمیں اپنا فرمانبردار بنا لے۔ 11 جنوری، 1938 کو گیا ریلوے سٹیشن بہار پر ایک بہت بڑے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا کر فرمایا”آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ جھنڈا در حقیقت اسلام کا جھنڈا ہے، کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھے ہیں۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں، حالانہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔ اسلام ہمیں ایک مکمل ضابطہ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین، فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس میںوہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم ایک اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں، بلکہ ہماری اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی، عدل و مساوات اور اخوت ہے”۔ اس کے بعد آپ 6 مارچ 1946ء کو فرماتے ہیں”ہمیں قران پاک، حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے، اگر ہم ان کی صحیح تجرمانی کریں اور قراٰن پاک پر عمل پیرا ہوں۔”
ماہ فروری 1948کو قائد اعظم نے ریڈیو پاکستان پر اپنے خطاب میں یہ ہی فرمایا تھا کہ ، ْپاکستان کا آئین ابھی پاکستان کی قومی اسمبلی کو بنانا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اسکی شکل و شباہت کیا ہوگی۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یہ اسلامی جمہوری نوعیت کا ہوگا جو اسلام کے اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ جو آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح آج سے تیرہ سوسال قبل قابل عمل تھے۔
قائد اعظم بااصول، انصاف پسند اور جرات مند مدبر تھے۔اسلامی فلاحی مملکت کا قیام ان کا خواب تھا۔ایسا پاکستان جہاں سب کو یکساں سماجی و معاشی انصاف ملے گا۔ قائد کے سنہری اصول اتحاد، یقین محکم اور نظم و ضبط آج بھی پاکستان کی ترقی اورخوشحالی کے ضامن ہیں۔قائد اعظم کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ سیاسی اور ذاتی مفادات کو پس پشت رکھ کر بحیثیت قوم اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کی مثالی فضا پیدا کی جائے۔
٭٭٭