وجود

... loading ...

وجود

کواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائلکواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائل

بدھ 10 ستمبر 2025 کواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائلکواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائل

حمیداللہ بھٹی

مسلسل سات برس تک مودی شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاسوں میں شرکت سے گریزاں رہے ، مگر حالیہ دوروزہ اجلاس میںشرکت کی غرض سے چینی شہرتیانجن جاپہنچے۔ یہ شرکت عالمی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والوں کے لیے غیر متوقع نہیں تھی ۔البتہ روسی صدرپوتن اور چینی صدرشی جن پنگ سے ظاہری قُربت نے بہت سوں کو چونکایا ہے۔ پوتن سے خوشگوار ماحول میں چہل قدمی کرتے ہوئے مودی کا چینی صدر کے پاس جانا اور تینوں کی گفتگوکوایسارنگ دینا جیسے کوئی اہم مشاورت ہورہی ہو سے دراصل مودی کا ٹرمپ کو پیغام تھاکہ دیکھ لیں ہمارے پاس آپ کا متبادل ہے ،یہ پیغام امریکہ نے سمجھ لیا جس کی تصدیق ٹرمپ کے اُس بیان سے ہوئی کہ ہم نے چین کے ہاتھوں روس اور بھارت کوکھو دیا ہے۔ مگر فوجی پریڈ میں عدم شرکت سے واضح ہوگیاکہ حالات ویسے نہیں جیسارنگ دیاگیا۔ انھی سطور میں لکھاجا چکا کہ بھارت اور امریکہ فطری اتحادی ہیں۔یہ زیادہ دیرایک دوسرے سے الگ رہ ہی نہیں سکتے۔ مودی جیسے چہیتے کا نخرے دکھاناایسے قیاس کی تصدیق ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں عدم شرکت کافیصلہ بظاہر غیر معمولی ہے جن کے جلد اثرات سامنے آسکتے ہیں ٹرمپ نے رواں برس کے آخرپر کواڈ اجلاس میں شرکت کی غرض سے بھارت آنا تھا مگراب وہ نہیں آرہے اِس سفارتی دھچکے کے جواب میں ہی مودی نے جنرل اسمبلی کے جلاس میں عدم شرکت کافیصلہ کیا جس کے نتائج زیادہ دیر پوشیدہ نہیں رہیں گے اور کواڈ اجلاس سمیت ٹیرف مسائل حل کرنے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس شنگھائی تعاون تنظیم سے زیادہ اہم ہے کیونکہ عالمی سربراہانِ مملکت سے ملاقاتوں کے مواقع ملتے ہیں۔ ہر سربراہ مملکت کی خواہش ہوتی ہے کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں لازمی شرکت کرے مگر مودی نے یہ نادر موقع دانستہ طور پر کھو دیا جس کی ایک وجہ تو پاکستانی وزیرِ اعظم سے پہلے خطاب کرنا ہوسکتی ہے۔ اس لیے وزیرِ خارجہ جے شنکر کو بھیجنے کا فیصلہ کیاگیا جو 27ستمبر کو بطور 19ویں مقرر خطاب کریں گے جبکہ شہباز شریف 26 ستمبر کو اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے بعد دوسرے مقررہوں گے۔ اگر مودی خود جنرل اسمبلی میں خطاب کے لیے جاتے تو انھیں شہباز شریف سے پہلے خطاب کرناپڑتا ،یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کانہ صرف ماحول بنتا مودی کو شاید خدشہ تھاکہ الزامات کا زیادہ بہتر انداز میں جواب دینے سے پاکستان کو بھارت پرکہیں سبقت نہ حاصل ہوجائے اسی بناپر مودی نے عدم شرکت ہی مناسب سمجھی، جبکہ کچھ سفارتی حلقے مودی کے جنرل اسمبلی اجلاس میں عدم شرکت کے دوجوازپیش کرتے ہیں ۔اول: اپنی عادت کے مطابق ٹرمپ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس سے مودی کی تضحیک کاتاثربنے دوم: رواں برس مئی کی پاک بھارت جھڑپوں کے دوران بھارتی فضائیہ کے ہونے والے نقصانات کے متعلق عالمی ذرائع ابلاغ کے سوالات نہ سنناپڑیں ۔ ممکن ہے مذکورہ جواز درست ہوں مگرزیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ بھارت اپنی اہمیت کے پیشِ نظر نخرے دکھا نے کی روش پر گامزن ہے۔ مودی کو بخوبی معلوم ہے کہ چین کی معاشی و فوجی طاقت کے خلاف امریکہ کی ضرورت بھارت ہے دورے سے گریزپر مودی کی ایسی سفارتی چال اور نفسیاتی حربہ ہیں جو ٹرمپ کو کواڈاجلاس کے طے شدہ دورے کوبحال کے ساتھ ٹیرف مسائل حل کرنے کی طرف اہم قدم ہوسکتاہے۔ لہٰذاٹرمپ رواں برس کے آخر پراگر کواڈ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت آجائیں اور پچاس فیصدٹیرف کونصف کردیں تو حیرانگی نہیں ہو گی ۔
بھارت میں مودی کا سیاسی جادو دم توڑچکا ۔اُن کے لیے مشکلات بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن نے دھاندلی کے کچھ ایسے ناقابلِ تردید ثبوت پیش کردیے ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ مودی وہ نہیں جو نظر آتے ہیں۔ کھوئے عوامی اعتماد کوبحال کرنے اور ناقابلِ شکست ہونے کا تاثردینے کی مودی کی تمام چالیں ناکامی سے دوچار ہوتی جارہی ہیں ۔کسی بیرونی طاقت کے آگے کمزوری کی صورت میں اپوزیشن کو مزید باتیں بنانے کا موقع مل سکتاہے۔ اسی لیے تو پاک بھارت جنگ کے خاتمے میں ٹرمپ کردار کوبھی تسلیم نہیں کررہے جوخفگی کی ایک اہم وجہ ہے۔ رواں برس سترہ جون کے بعد سے ٹیلی فون پربھی گفتگو نہ کرنے میں یہ احتیاط ہے کہ ٹرمپ کو کوئی ایسا موقع نہ دیاجائے جسے بنیاد بنا کروہ ذرائع ابلاغ کوکسی قسم کی کہانی سنا سکیں لیکن گریز کا مطلب امریکہ اور بھارت کے درمیان اختلاف لینادرست نہیں۔
ٹرمپ نے مودی کو رواں ہفتے اپنا دوست قرار دیا جس کا مودی نے خیر مقدم بھی کیا۔اِس کے باوجود جے شنکر کو بھجنے کافیصلہ باعث تعجب ضرورہے مگراِس طرح امریکی صدر سے ملاقات کاامکان نہیں رہانیزامریکی صدر کو پیغام ملے گاکہ آپ کو اگر ہمارامہمان بنناناپسندہے تو ہمیں بھی کہیں جانے کاکوئی شوق نہیں۔ حالانکہ مودی بخوبی جانتے ہیں کہ بھارت ا گرامریکہ کی ضرورت ہے تو بھارتی معیشت کے لیے امریکہ بھی ناگزیر ہے۔ اِس لیے جنرل اسمبلی اجلاس میں عدم شرکت کو ایک قسم کا کچھ لو کچھ دو کی طرف اِشارہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ روسی تیل و اسلحہ خریدناتوایک بہانہ ہے، اصل بات امریکہ سے تجارت میں بھارت کوحاصل غیر معمولی برتری ہے جونہی یہ معاملات طے ہوئے تومودی ہو یا کوئی اور، دونوں ممالک میں ازسرِ نو گاڑھی چھننے لگے گی۔
اپنے حمایتی طبقات کااعتمادبحال نہ رکھنے کے علاوہ مسئلہ یہ ہے کہ رواں ماہ 17 ستمبر کو مودی 75 سال کے ہوجائیںگے۔ بی جے پی کی سرپرست راشٹریہ سیوک سنگھ کے وضع کردہ کلیے کے مطابق 75 برس کی عمر کے بعدعملی سیاست سے کنارہ کشی لازم ہے۔ اِس کلیے کااطلاق بی جے پی کے تین درجن سے زائدرہنمائوں پر ہو چکا جن میں سابق وزیرِ داخلہ ایل کے ایڈوانی ، سابق وزیرِ خزانہ یشونت سنگھ سمیت مرکزی وزیر اور فکری رہنما مرلی منوہر جوشی جیسے اہم لوگ شامل ہیں ۔مودی کو یقین ہے کہ راشٹریہ سیوک سنگھ نے اگر اقتدار چھوڑنے کا کہہ دیا تو بی جے پی کچھ نہیں کر پائے گی۔ اس لیے جنونی کاتاثرقائم رکھتے ہوئے وہ بھارت کو ایک خالص ہندو ریاست بنانے کے ساتھ خطے کی طاقت بنانے کے ایسے منصوبے پر عمل پیراہیں جو اُن کی سیاسی ناکامیوں کوڈھانپ لے۔ اقتدارواختیارکی ہوس تو انسانی جبلت میں ہے ۔اِس لیے مودی جیسا جنونی سیاسی فائدے کے لیے ہر حدتک جا سکتا ہے ۔بھارت نے اگر خطے کی طاقت بنناہے تو امریکی تعاون وحمایت حاصل کرنا ضروری ہے ۔اسی لیے جنرل ا سمبلی جیسے اہم اجلاس میں نہیں گئے مگر ٹرمپ اور مودی کے درمیان دوری بھارت اور امریکہ کے درمیان دوری تصورنہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا دونوں ممالک میں اگرجلدہی باہمی تعاون کی راہ ہموار ہوجائے تو یہ کوئی عجوبہ نہیںہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی آبی دہشت گردی وجود بدھ 10 ستمبر 2025
بھارتی آبی دہشت گردی

کواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائلکواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائل وجود بدھ 10 ستمبر 2025
کواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائلکواڈ اجلاس اور ٹیرف مسائل

سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل وجود منگل 09 ستمبر 2025
سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل

بھارت میں لو جہاد کانیا قانون وجود منگل 09 ستمبر 2025
بھارت میں لو جہاد کانیا قانون

ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے وجود منگل 09 ستمبر 2025
ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر