وجود

... loading ...

وجود

سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل

منگل 09 ستمبر 2025 سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل

ڈاکٹر سلیم خان

یوگی ادیتیہ ناتھ نے سنبھل کے حوالے سے یہ کہہ کر کہ وہاں سے ہندو خوف کے مارے نقلِ مکانی کر رہے ہیں خود اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار لی ۔ اس لیے کہ سوال پیدا ہوگیا اگر ایسا ہورہاہے تو کیا وہ گھاس چھیل رہے ہیں۔ ہندو عوام کو تحفظ دینے میں پچھلے ٨ سال سے جاری و ساری ڈبل انجن سرکار کیوں ناکام ہوگئی؟ ہندو ان پر بھروسا کیوں نہیں کرتے ؟ یوگی ادیتیہ ناتھ کی ذہنی حالت درست ہوتی تو وہ ایسا احمقانہ بیان ہر گز نہیں دیتے بلکہ جس عدالتی پینل نے یہ رپورٹ دی ہے اسے دبا دیتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ انہیں کے ایماء پریہ رپورٹ ان کی مرضی کے مطابق بنائی گئی اور اس کے ذریعہ وہ خود اپنے سیاسی مستقبل کی چتا جلا رہے ہیں۔ یہ سب ان کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہے جس کے پسِ پشت کچھ ٹھوس سیاسی عوامل کارفرما ہیں۔ نومبر 2024ء کے اندر سنبھل میں ہونے والے احتجاج میں پولیس فائرنگ سے 5 مسلمان شہید ہو گئے تھے ۔ پولیس نے ان پر گولی چلانے سے انکار کردیا تھا اس لیے یہ سوال پیدا ہوگیاتھا کہ وہاں پر پولیس کی موجودگی میں آخر کس نے اور کس کے کہنے پر گولی چلائی اور اس کے نتیجے میں بے قصور لوگ مارے گئے ۔ ان حقائق کی تحقیق کے لیے ایک جوڈیشیل پینل تشکیل دیا گیا۔ اس عدالتی پینل کی ذمہ داری تو یہ تھی کہ پتہ لگاتا نچلی عدالت کے حکمنامہ پر پہلے سروے نہایت پرامن طور پر مکمل ہوجانے کے دو دن بعد اتوار یعنی چھٹی کے دن علیٰ الصبح دوسرا غیر قانونی سروے کیوں کیا گیا؟ اس میں کون کون غیر سرکاری لوگ شامل تھے ؟ انہوں نے اشتعال انگیز نعرے لگا کر احتجاج کرنے لوگوں کو کیوں بھڑکایا؟ اس زیادتی کے خلاف پر امن مظاہرین پر گولی کس نے اور کیوں چلائی ؟ اس پینل سے یہ توقع بھی تھی کہ وہ قاتلوں کے خلاف شواہد جمع کرکے ان کی شناخت کرتا اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کی سفارش کرتا لیکن افسوس کہ سنبھل کی شاہی جامع مسجد کے سروے کے دوران تشدد کی تحقیقات کیلئے عدالت کے حکم تشکیل شدہ پینل میں شامل ریٹائرڈ جسٹس دیویندر کمار اروڑا کی قیادت میں اروند کمار جین اور امت موہن پرساد نے اپنی 400 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں سنبھل میں ان بنیادی سوالات کا جواب دینے کے بجائے آبادیاتی تبدیلی کا کھڑاگ تیار کرکے ہندو آبادی میں کمی کو فسادات، فرقہ وارانہ کشیدگی اور خوشامدانہ سیاست سے جوڑنے کی مذموم کوشش کردی جبکہ یہ کام تو اس کوتفویض ہی نہیں کیا گیاتھا۔
مذکورہ بالا پینل نے اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی کے لیے یہ غیر ضروری انکشاف کیا کہ 1936ء اور 2019ء کے درمیان علاقے میں ہوئے کم از کم 15 فسادات، جن کے نتیجے میں 200سے زائد ہلاکتیں ہوئیں۔ اس پینل کا اہم ترین ہدف چونکہ پولیس کے اوپر لگنے والے گولی باری کے الزامات کو مسترد کرنا تھا اس لیے اس نے یہ بتایا کہ سنبھل میں نہ صرف ہندوـمسلم جھڑپیں ہوئی ہیں بلکہ غیر ملکی مسلمانوں (ترکوں) اور تبدیل شدہ ہندوؤں (پٹھانوں) کے درمیان بھی تنازعات ہوئے ہیں۔ صدیوں سے ہندوستان کی سرزمین پر رہنے بسنے والے ترک غیر ملکی کیونکر ہوگئے اور نام نہاد ہندووں میں تبدیل شدہ ہ پٹھان سے بی جے پی کو کیوں پیار آگیا؟ یہ بات سمجھ سے باہر ہے ۔ افغانستان کے پٹھانوں سے اپنائیت اور ترکستان کے ترکیوں کو غیرٹھہرانے کی منطق مضحکہ خیز ہے ۔ ہندووں کو آپس میں لڑانے کے لیے تو مکٹ منی کتھا واچک(داستان گو) کا یادو ہونا کافی ہے اور اس کا بدترین مظاہرہ ابھی حال میں خود اتر پردیش کے اٹاوہ میں ہوچکا ہے جہاں ایک نچلی ذات کے شخص کو اس جرم کی سزا کے طور پر میزبان خاتون کے پیشاب سے پاک کیا گیا اور اس کا روپیہ پیسہ بھی چھین لیا گیا مگر ایسے تفریق و امتیاز کا اسلام میں کوئی تصور بھی نہیں ہے ۔ اس لیے یہ حربہ کامیاب نہیں ہوگا ۔ سارے مسلمان متحد ہوکر اپنی مسجد کا تحفظ کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی ظالموں سے نبرد آزما رہیں گے ۔
مذکورہ بالا جھوٹ دراصل گزشتہ سال (16-12-2024) کو یوگی ادیتیہ ناتھ کی تقریر سے ماخوذ ہے ۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ کسی تحقیق کے بغیر اتر پردیش اسمبلی کے سرمائی اجلاس کے پہلے دن جو جھوٹ بولا گیا تھا وہ پینل کے رپورٹ کا حصہ بن گیا۔ یوگی نے بھی سنبھل میں فسادات کی تاریخیں بتاتے ہوئے 1947 ، 1948، 1958، 1962، 1978 کا ذکر کیا تھا۔ 1978 کے فسادات میں 184 ہندوؤں کو زندہ جلا نے کا ذکر کرکے سب کو چونکا دیا کیونکہ ملیانہ کے قتل عام سے تو سب واقف ہیں لیکن سنبھل کی یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ اس وقت سنگھ پریوار تو موجود تھا کوئی اور نہیں تو وہی اس کی نقاب کشائی کردیتا لیکن یہ سب خیالی باتیں ہیں۔ یوگی کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد 1980 ، 1986، 1990، 1992، 1996 میں دوبارہ فسادات ہوئے لیکن اس دوران کلیان سنگھ اور راجناتھ سنگھ وغیرہ نے خود اور بی جے پی نے مایا وتی کی مدد سے بھی حکومت کی تو کیا وہ بھی فسادات کرواتی رہی؟ اس سوال کا جواب وزیر اعلیٰ کے پاس نہیں ہے ۔ وہ تو صرف یہ کہہ کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے رہے کہ این سی آر بی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2017 سے اب تک یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات میں 95 فیصد کمی آئی ہے اور یہ دعویٰ بھی کردیتے ہیں کہ یوپی میں 2017 کے بعد سے کوئی فساد نہیں ہوا ۔ سوال یہ ہے کہ این آر سی بی جن ٥ فیصد فسادات کو تسلیم کرتا ہے وہ یوگی کو کیوں نظر نہیں آتے ؟
یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی اپنی پولیس کو بچانے کے لیے ترک و پٹھان کی لڑائی کا شوشا چھوڑا تھا جسے پینل نے من و عن درج کرلیا ۔ انہوں نے مقامی رکن پارلیمان ضیاء الرحمٰن برق کی ایک تقریر کا حوالہ دیا تھا جس میں برق نے کہا تھا کہ ‘وہ ملک کے مالک ہیں نوکر نہیں’ اس سے یہ مطلب نکالا کہ وہ خود کو آقا اور پٹھانوں کو غلام کہہ رہے ہیں۔ یہ تو ایسا ہے کہ اگر یوگی براہمنوں کو مخالطب کرکے کہیں کہ ‘وہ انسان ہیں جانور نہیں ‘ تو اس کا مطلب ہوگا کہ وہ براہمنوں کو جانور کہہ رہے ہیں۔ یہ پاگل پن نہیں تو کیا ہے اور ضیاء الرحمٰن برق کے مخاطب مسلمان نہیں ہندوتواز تھے جو خود کو آقا اورمسلمانوں کو غلام سمجھنے کی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ اس رپورٹ کا سب سے اہم جھوٹ یہ ہے کہ ” آزادی کے وقت سنبھل میں ہندو آبادی 45 فیصد تھی، جو اب گھٹ کر صرف 15 سے 20 فیصد رہ گئی ہے ”۔اس کی بنیادی وجہ نقل مکانی اور ثانوی سبب تبدیلیٔ مذہب ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ترک اور پٹھان یعنی مسلمان اگر آپس میں لڑ رہے ہیں تو وہاں سے ہندووں کو فرار ہونے کی کیا ضرورت؟ یوگی اور مودی کی ڈبل انجن سرکار کے باوجود اگر ہندو اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا تو یہ کس کی ناکامی ہے ؟ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر اپنی ہی قوم کو احمق اور بزدل بنا کر پیش کرنے سے قبل یوگی ادیتیہ ناتھ اگر ٹھنڈے دماغ سے غور کرلیتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور اس کا کیا مطلب ہوتا ہے تو اچھا تھا ۔
اس رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سنبھل میں مسلسل ہندو وں کے اقلیت میں تبدیل ہو نے کے پیچھے غیر قانونی تبدیلی مذہب بھی کار فرما ہے ۔ یہ تبدیلیٔ مذہب قانونی اور غیر قانونی صرف ہندوستان میں ہوتا ہے کہانی یہ ہے کہ ہندوتوا نوازوں کے نزدیک غیر ہندووں کا ہندو بن جانا تو گھر واپسی ہونے کے سبب نہایت پسندیدہ عمل کہلاتا ہے جبکہ کا اپنا مذہب قانو چھوڑنا گناہِ عظیم بن جاتا ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ آخراس غیر اعلانیہ ہندو راشٹر میں ہندو قانونی یا غیر قانونی طور پر اپنا مذہب کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ اس رپورٹ کو اعداد شمار کو رکن پارلیمنٹ جاوید علی نے مرد شماری کے ریکارڈ کی روشنی میں رپورٹ کے دعوؤں کی تردید کردی ۔ ان کے مطابق1951 کی مردم شماری کے مطابق سنبھل کے شہری علاقے کی آبادی 61568 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 43667 یا تقریباً 71٪ اور ہندوؤں کی تعداد 17901 یا تقریباً 29٪ تھی۔2011 کی مردم شماری کے مطابق سنبھل شہری علاقے کی آبادی 220813 تھی جس میں مسلمانوں کی تعداد 171514 یا تقریباً 78٪ اور ہندوؤں کی تعداد 48581 یا تقریباً 22٪ تھی۔1951 سے 2011 تک مسلمانوں کی آبادی میں 7% کا اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ روزگار اور بہتر تعلیم کی خواہش نے آس پاس کے دیہی علاقوں سے مسلمانوں کو سنبھل شہر کی طرف آنے پر مجبور کیا۔ اس کے علاوہ 1986 میں میونسپل علاقے کی حد بندی ہوئی تو اس کے تحت شہر کے آس پاس کے کچھ گاؤں میونسپل ایریا میں شامل کیے گئے ۔ اس کا مطلب ہے کہ تناسب بدلا ہی نہیں ۔ جاوید علی نے تویوگی کے جھوٹ کی اس طرح ہوا نکال دی اب وہ اپنے پنکچر بلڈوزر سے اگلا الیکشن نہیں جیت سکیں گے اور سائیکل اس کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جائے گی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل وجود منگل 09 ستمبر 2025
سنبھل فساد کے دلدل میں یوگی کا انتخابی دنگل

بھارت میں لو جہاد کانیا قانون وجود منگل 09 ستمبر 2025
بھارت میں لو جہاد کانیا قانون

ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے وجود منگل 09 ستمبر 2025
ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے

جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کے کارنامے وجود پیر 08 ستمبر 2025
جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کے کارنامے

حضرت محمدۖ ، محسن انسانیت وجود هفته 06 ستمبر 2025
حضرت محمدۖ ، محسن انسانیت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر