... loading ...
ب نقاب /ایم آر ملک
دیدہ ٔبیدار اور دلِ زندہ رکھنے والا حساس پاکستانی جہاں بھی جاتا ہے، ایک ہی صدائے کربناک اس کا تعاقب کرتی ہے کہ مملکتِ خداداد کو اس کے” اصلی اور نقلی حکمرانوں” کی کرم فرمائیوں اور نوازش ہائے بے جا نے”مملکتِ بر باد” بنا کر رکھ دیا ہے۔مملکتِ خدا داد کو مملکت برباد بنانے میں ہر کسی نے مقدور بھر حصہ لیا۔78برسوں کی تاریک تاریخ کے اکثر اوراق سیاہ ہیں۔
محسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی کاوشوں سے 28 مئی 1998 ء کا صرف اور صرف ایک دن ایسا ہے جسے یہ سیہ بخت قوم اپنی تاریک تاریخ کے ایک روشن اور اُجلے ورق کی حیثیت سے جانتی ہے۔ اندھیروں میں ڈوبے صحرا اورتاریکیوں میں غرق جنگل میں قندیل رہبانی اور چراغ درویش جو قدرو منزلت رکھتا ہے، ظلمت گزیدہ پاکستانیوں کی نگاہوں میں یہ روشن و رخشاں تابندہ ورق ان کی تاریک تاریخ میں اسی مقام و مرتبہ کا حامل ہے۔اگر محمد علی جناح تحریک قیامِ پاکستان کے قائد اعظم ہیں تو یہ بات پورے وثوق اور تیقن کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسلوں کے نزدیک تحریک تحفظ پاکستان کے قائد اعظم ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔
”اصلی اور نقلی حکمرانوں” حکمران بغیر سانس لیے پاکستان کو مسائلستان بنانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ کرسیوں کے ان دیمکوں نے پورے ملک کو کھوکھلا کرکے رکھ دیاہے۔ان حکمرانوں کی کارستانیوں کی داستاں جو بھی سنتاہے،جگر تھام کے بیٹھ جاتاہے۔ جب بھی کسی سچے اور درد مند پاکستانی سے گفتگو ہوتی ہے، وہ ان حکمرانوں کا”منثور” اور”منظوم” ہجو نامہ پڑھنا شروع کر دیتاہے۔ مسائل گزیدہ اور مصائب رسیدہ ان دکھیوں سے پوچھئے تو سہی کہ تمہاری آرزئو ں اور تمنائو ں کی اس شاد آباد جنت کو آلام کا جہنم زار کس نے بنایا؟ یقین کیجئے! یہ زخم خوردہ کھٹ سے سابقہ و موجودہ صدور اور وزرائے عُظّام کو اس تباہ کن صورت ِحال کا ذمہ دار ٹھہراتے دکھائی دیںگے۔کیک اور بیکری کو سالم اور سموچا ہڑپ کرجا نے والے سیاستدانوں،بیورو کریٹوں اور مراعات یافتہ طبقوں کی بدعنوانیوں کی داستان، جرنیلی سڑک اور جرنیلی آمریت سے بھی طویل تر ہے۔یہ داستاں، داستانِ طلسمِ ہوش رُبا اور فسانۂ آزاد سے بھی لحیم و شحیم اور ضخیم ہے۔ ان بد عنوانوں کی فہرست اتنی طویل ہے کہ شیطان کی لمبی آنت بھی اسے دیکھ کر جھینپ جھینپ جاتی ہے۔لوٹ مار کر نے والے ان ”معزز لٹیروں” اور ”قابل احترام ڈکیتوں” کی مجرمانہ وارداتوں کی کہانیاں سن سن کر یقیناآپ کی سماعت بارہا مجروح ہوئی ہوگی۔
سنا ہے کہ ہم بد قسمت پاکستانی 14 اگست 1947 ء سے قبل گورے انگریزوں کی رعایا تھے۔14اگست 1947 ء کے بعد سے تا دمِ تحریر ہم بد نصیب پاکستانی اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھ رہے ہیںکہ ہم بدستور”اصلی اور نقلی’ ‘کالے انگریزوں کی رعایا ہیں۔ ہم بد نصیب عہدِ غلامی میں بھی رعایا تھے اور ہم سیہ بخت آزادی کے بعد بھی ایک آزاد مملکت میں شہری کا درجہ حاصل نہ کر سکے۔78برسوں میں جو بد قسمت قوم رعایا سے شہری نہ بن سکے، وہ آزادی کے پھل کاذائقہ کیا بتائے۔اس سادہ لوح اور ‘بھولے بادشاہ’ قسم کی قوم کو کون یہ بتلائے کہ جن لوگوں کو وہ آج تک اپنا حکمران سمجھتی رہی ہے، درحقیقت وہ ان کے حکمران نہیں تھے بلکہ عالمی طاقتوں کی کٹھ پتلیاں تھے اور ہیں۔ ان کٹھ پتلیوں کی ایک ایک حرکت اور جنبش، برطانوی سامراج کی آخری یادگار”کالے لاٹ صاحبان” اور”دیسی صاحب بہادران” کی نگاہ کرم کی محتاج تھی۔ یہ ”کالے لاٹ صاحب” اور”دیسی صاحب بہادر” ہی دراصل اس ملک کے ”اصلی تے وڈے” حکمران ہیں۔ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، ایم این ایز اور ایم پی ایز کی آڑ میں ڈی سی او صاحب بہادر، سیکریٹری صاحب بہادران اور چیف سیکریٹری صاحب بہادر حکومت کرتے ہیں۔ ”کٹھ پتلیاں” تو ان کے اشاروں پر ”راج نرتکی” طرح کبھی مور پنکھی ناچ کا نقش جماتی ہیں اور کبھی تگنی کاناچ ناچتی ہیں۔
اس ملک میں جہاں 70 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، جہاں70 لاکھ پڑھے لکھے اورہنر مند نوجوان بے روزگار ہیں،جہاں60 فیصدرعایا کو ہر روز دو وقت کی آبرو مندانہ روٹی نہیں ملتی، جہاں ایک گھر میں اوسطاً 7افراد زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں، جہاں14کروڑ آبادی ایک کمرے کے مکان میں رہتی ہے، جہاں77 فیصد آبادی نکاسیِ آب کی سہولت کی فراہمی کا مطالبہ کر رہی ہے، جہاں 45فیصد گھر بجلی ایسی بنیادی ضرورت کو ترس رہے ہیں، جہاں ہزار میں 89 بچے ایک سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے مر جاتے ہیں، جہاں 5 سال سے کم عمر4 کروڑ 20 لاکھ بچوں کو ناکافی غذا ملتی ہے، جہاں اسکول جانے کے قابل4 کروڑ بچے تعلیمی سہولیات سے آشنا ہی نہیں،جہاں11کروڑ افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ اس ملک میں جہاں راوی، سندھ، جہلم اور چناب بہتاہے، ایک فیصد اپر کلاس ”برطانوی بیورو کریسی کے چربوں”سے ساز باز کر کے گزشتہ پچہتّر برسوں سے عوام کا استحصال کر رہی ہے۔
بیورو کریسی کا سیاسی حکمرانوں پر تسلط اورغلبہ و استیلا اس حد تک ہے کہ ایک تقریب جہاں ایوارڈ تقسیم کیے جا رہے تھے، ”رائل آئرن فیملی” کے ہیوی مینڈیٹ رکھنے والے ایک وزیراعلیٰ مہمان خصوصی کے طور پر مدعوتھے، جاوید قریشی نامی چیف سیکریٹری دیر سے آئے اور چار و ناچار پچھلی نشستوں پر تشریف فرما ہو گئے۔ وزیراعلیٰ جب اسٹیج پر تشریف لائے تو آدھے ایوارڈ اپنے دست مبارک سے تقسیم فرما چکنے کے بعد انہوں نے پچھلی نشستوں پر موجود چیف سیکریٹری کو دعوت دی کہ وہ تشریف لائیں اور بقیہ ایوارڈ اپنے غالب و کار آفریں، کار کشا و کار ساز ہاتھوںسے بانٹیں۔بھاری مینڈیٹ کاحامل وزیراعلیٰ جب ایک بیورو کریٹ کی اس خوشامدانہ پیرائے میں پزیرائی کرے گا تو عوام کب جرأت کریں گے کہ وہ ان خداوندان حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکیں۔ جب تک سیاسی حکمران طبقہ ان اکڑی گردنوں اوربے تاثر چہروں والے روبوٹوں کے اشاروں پر ”معمول” کے مطابق سرتسلیم خم کر کے ہر حکم بجا لانے پر آمادگی ظاہر کرتا رہے گا۔ یہ ملک ”مسائلستان” بنا رہے گا، دکھی عوام کے مسائل نہ تو ”کھلی” کچہری میں حل ہوں گے اور نہ ہی ”بند” اونچی کچہریوں میں۔
جب بھی کوئی سیاستدان انتخابی مہم کے دوران بڑے دھوم دھڑکے اور طمطراق کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ”اگر عوام اسے مزید ایک بار
نازنین اقتدار کی خم بہ خم زلفوں اور کاکل پیچاں کے حلقوں سے کھیلنے کا موقع فراہم کر دیں تو حصول انصاف کے لیے انہیں دردر کے دھکے نہیں کھانا پڑیں گے تو بھولے بھالے اور سادہ لوح عوام اس کے دھوکے میں آ جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ڈیڑھ صدی ہونے کو آئی ہے، انصاف نامی گوہرشب چراغ کو ان کے کاخ و کو سے بالجبر اغوا کر لیا گیا تھا۔ آزادی کے78 سال گزرنے کے بعد بھی آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں ملا کہ اس ”معصوم” کو زمیں نے نگل لیا یا آسماں نے اچک لیا،آخری خبریں آنے تک کسی گوشے سے آج تک اس کے بارے کوئی مصدقہ اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ جب کوئی ساحر سیاستدان اپنی کرشماتی شخصیت کے بل بوتے پر عوام کو یہ باور کراتاہے کہ اب ماضی کی ستم رانیوں کاازالہ ہو گا تو یہ اس کے دامِ ہم رنگِ زمیں کا شکار بن جاتے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ اب اچانک ان کی متاع ِگم گشتہ کی بازیافت اوربازیابی کامژدۂ جاں فزا ملے گا اور انصاف جنسِ پیش پااُفتادہ کی طرح ان کے بے در جھونپڑے کی خستہ و شکستہ دہلیز پر پڑا ہوگا۔
کھلی کچہریاں ریحانہ، لاڑکانہ، سندھڑی، لاہور، رائے ونڈ، ملتان، نواب شاہ، کہیں بھی لگیں،یہ اس بات کامنہ بولتا ثبوت ہیں کہ حکومت خلق ِخدا کو انصاف مہیا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حصول انصاف کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بیورو کریسی ہے۔ پاکستان کی بے بس رعایا اعتدال پسندی کے ڈھولچیوں اور روشن خیالی کے طبلچیوں کے دور میںکم از کم یہ جاننے کا حق تو رکھتی ہے کہ ایک جامع حکمت عملی اورگرینڈ انقلابی آپریشن کے ذریعے فرعون صفت افسر شاہی کی ”تہذیب” اور”تطہیر” کب کی جائے گی۔
ارباب دانش ارباب اقتدار سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ کے عہد کی اس نک چڑھی بیورو کریسی کی رعونت کا گراف کب نیچے آئے گا اور کب یہ ”حاکم”خود کو عوام کا خادم تسلیم کرتے ہوئے عوامی خدمت کے لیے آمادہ ہوں گے؟ عوام کے ان خادموں کے ذہنوں پر چھایا ہوا حاکمیت کانشہ ہرن کرنے کیلئے کب قانون سازی کی جائے گی؟ یہ بیورو کریسی جو آج بھی نوآبادیاتی دور میں زندہ ہے اور اسی دور کی مکروہ اور منحوس باقیات کی حیثیت رکھتی ہے، اس کو کون باور کروائے گا کہ ملکہ وکٹوریہ اور جارج پنجم کا دور لد چکا اور برصغیر کے شمال مغربی علاقوں کے غلام مسلمان آزاد ہو چکے ہیں۔
٭٭٭