... loading ...
معصوم مرادآبادی
گزشتہ جمعرات کو پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آخری دن جب وزیراعظم ایوان میں داخل ہوئے تو انھیں کچھ ایسے دلخراش نعروں کا
سامنا کرنا پڑا جو اس سے پہلے انھوں نے کبھی نہیں سنے تھے ۔ اپوزیشن کے تمام اراکین اپنی نشستوں سے اٹھ کروزیراعظم کے خلاف زوردار
نعرہ لگارہے تھے ۔ بعد کو جب وزیراعظم لوک سبھا اسپیکر کے ساتھ اجلاس کے اختتام پر ہونے والی روایتی میٹنگ میں شریک ہوئے تو ان کا
چہرہ اترا ہوا تھا اور مایوسی صاف نظر آرہی تھی۔اپوزیشن نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کیا تھا۔گیارہ سالہ اقتدار میں یہ پہلا موقع ہے کہ
وزیراعظم کا منہ لٹک گیا ہے اور وہ معاملے کو دوسرا رخ دینے کے لیے ‘گھس پیٹھیوں’کا موضوع اچھال رہے ہیں۔
سچ پوچھئے توووٹ چوری کے معاملے میں مودی سرکار بری طرح پھنس گئی ہے ۔بہار میں راہل گاندھی کی ووٹ ادھیکار یاترا کو جو
زبردست عوامی حمایت حاصل ہورہی ہے ، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب ملک کے عوام دھوکہ اور فریب کی سیاست سے اوب چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے بی جے پی سے مل کر ووٹوں میں جو ہیرا پھیری کی ہے ، وہ پوری طرح بے نقاب ہوچکی ہے ۔الیکشن کمیشن اپنی پوزیشن
صاف کرنے کے لیے جو کچھ کررہا ہے ، اس کا الٹا ہی اثر ہورہا ہے ۔ ظاہرہے جب کسی کا دامن داغدار ہوجاتا ہے تو اسے خود کو بے داغ
ثابت کرنے کے لیے ہزارجتن کرنے پڑتے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے جو کچھ کررہا ہے ، اس سے اس کی
پوزیشن مزید خراب ہورہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ اتوار کو چیف الیکشن کمشنر نے جو پریس کانفرنس کی، اس پر اپوزیشن ہی نہیں خود غیر
جانبدار میڈیا نے بھی سخت تنقید کی اور الیکشن کمشنر کی وضاحتوں کویہ کہتے ہوئے مسترد کردیاکہ یہ ‘عذرگناہ بدتر ازگناہ’کے مترادف ہے ۔المیہ
یہ ہے کہ الیکشن کمیشن سنگین سوالوں کے اطمینان بخش جوابات دینے کی بجائے ان لوگوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کررہا ہے جو اس سے اس کی
شفافیت اور غیرجانبداری برقرار رکھنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ایسے لاتعداد سوالات تھے جن کا الیکشن کمشنر کوئی جواب ہی نہیں دیا۔وہ یہ بتانے
سے بھی قاصر رہا کہ آخر عین الیکشن سے قبل بہار میں ایس آئی آر کی کیا ضرورت آن پڑی تھی۔
ایک زمانہ تھا کہ الیکشن کمیشن ہمارے ملک کے سب سے مضبوط، ایماندار اور شفاف جمہوری اداروں میں شمار ہوتا تھا۔ ٹی این سیشن جیسے سخت گیر اور اصول پسند الیکشن کمشنر کے زمانے میں تو بے ایمان سیاست داں ان کا نام سن کر کانپنے لگتے تھے ، لیکن اب حال یہ ہے کہ الیکشن
کمیشن پوری طرح حکمراں جماعت کے ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو جس طرح الیکشن کمیشن راہل گاندھی سے حلف نامہ
مانگ رہا ہے ، اسی طرح کا حلف نامہ مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر سے بھی مانگتا جنھوں نے کھلم کھلا یہ الزام لگایا کہ راہل گاندھی، اکھلیش اور
ڈمپل یادو، ابھیشیک بنرجی اور ایم کے اسٹالن جیسے سرکردہ اپوزیشن لیڈروں کے حلقوں کے چناؤ میں دھاندلیاں ہوئی ہیں، جس کے لیے
انھیں مستعفی ہوجانا چاہئے ۔لیکن الیکشن کمیشن نے انوراگ ٹھاکر سے یہ نہیں کہا کہ وہ اپنے الزامات کے حق میں حلف نامہ داخل کریں بلکہ
اس قسم کا حلف نامہ صرف راہل گاندھی سے طلب کیا جارہا ہے جنھوں نے دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر سوال
اٹھائے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانبداری کا سب سے بڑا ثبوت یہی ہے کہ وہ راہل گاندھی کی طرف سے لگائے گئے ووٹ چوری کے
الزامات کا جواب دینے کی بجائے الٹے راہل گاندھی کو ہی دھمکیاں دے رہا ہے اور ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کررہا ہے ۔شاید اسے ہی
کہتے ہیں ‘الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے ‘۔
یہ معاملہ دراصل راہل گاندھی کے ان الزامات سے شروع ہوا ہے جن میں انھوں نے دستاویزی ثبوتوں کے ذریعہ الیکشن کمیشن پر لاکھوں
ووٹوں کی چوری کا الزام لگایا تھا۔ راہل کے الزامات محض زبانی جمع خرچ نہیں تھے بلکہ انھوں نے اپنے الزامات کے حق میں ناقابل تردید
ثبوت پیش کئے تھے ۔ اگر الیکشن کمیشن کی لگام حکمراں جماعت کے ہاتھوں میں نہ ہوتی تو وہ یقینا راہل گاندھی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تمام
الزامات کی جانچ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتا، لیکن ایسا نہ کرکے الیکشن کمیشن سیاست دانوں کی طرح جوابی الزامات کا سہارا
لے رہا ہے ، جو کسی بھی طوردرست نہیں ہے ۔
الیکشن کمیشن نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی اپنے اوپر چھائے ہوئے شکوک وشبہات کے بادلوں کودورکرنے کی بجائے مطلع ابر آلود
کردیا جس کے نتیجے میں اس کی شکل وصورت مزید دھندلی ہوگئی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے اپنی تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی پریس
کانفرنس میں کہا کہاگر راہل گاندھی نے سات دن کے اندر حلف نامہ داخل نہیں کیا تو تمام الزامات بے بنیاد تصور کئے جائیں گے ۔ اتنا ہی
نہیں الیکشن کمشنر نے اپنے خلاف استعمال کی جارہی زبان پر اعتراض درج کرایا اور کہا کہ ووٹ چور’ جیسے الفاظ ملک کے دستور کی توہین نہیں
تو اور کیا ہیں؟راہل گاندھی کی طرف سے پولنگ کے سی سی فوٹیج مانگنے پر الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہکیا کسی کی ماں، بہن، بیٹی اور بہو کی ووٹنگ کی
سی سی ٹی وی فوٹیج کمیشن کو شیئر کرنا چاہئے ؟
الیکشن کمیشن کا سب سے مضحکہ خیز بیان وہ تھا جس میں اس نے کہا کہ”کمیشن کی نگاہ میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں کوئی فرق
نہیں ہے ۔کمیشن کے کندھے پر بندوق رکھ کر سیاست ہورہی ہے ۔ سورج مشرق سے نکلتا ہے اور وہ کسی کے کہنے سے اپنی سمت تبدیل نہیں
کرسکتا۔چیف الیکشن کمشنر کے اس بیان کو ہم نے مضحکہ خیز اس لیے لکھا ہے کہ وہ کھلے عام حاکمان وقت کی طرفداری کرنے کے باوجود یہ کہہ
رہے ہیں کہ ان کے نزدیک حکومت اور اپوزیشن میں کوئی فرق نہیں ہے ۔اس بات کی متعدد مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جہاں الیکشن کمیشن
نے اپوزیشن لیڈروں کی کسی بات پر کان نہیں دھرا اور بی جے پی کے سڑک چھاپ کارکنوں کی درخواستوں پر کارروائیاں انجام دیں۔
سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو کا کہنا ہے کہ انھوں نے اترپردیش میں کئی مواقع پرحلف ناموں کے ساتھ الیکشن کمیشن کوہیرا پھیری کی
شکایتیں درج کرائیں مگر اس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اپوزیشن کو قطعی نظرانداز کرنے کی پالیسی
پر گامزن ہے ۔بہار میں اسمبلی انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن نے ایس آئی آرکی کارروائی کرکے 65لاکھ سے زائد ووٹروں کوفہرست
رائے دہندگان سے باہر کردیا۔ جب اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چنوتی دی گئی تو پہلے الیکشن کمیشن نے ان ووٹروں کی فہرست جاری
کرنے میں آنا کانی کی، لیکن سپریم کورٹ کے اصرار پر اسے یہ فہرست جاری کرنی ہی پڑی۔ اس میں کئی زندہ ووٹروں کو مردہ دکھایاگیا ہے ۔
راہل گاندھی نے اس کی پول یوں کھولی کہ ایک روز شام کو اپنی رہائش گاہ پر مردہ قرار دئیے گئے ووٹروں کے ساتھ چائے پی اور الیکشن کمیشن کو
یہ باور کرایا کہ اس کی فہرست میں جن ووٹروں کی موت ہوچکی ہے ، وہ ان کے ساتھ چائے پی کر اپنی زندگی کا ثبوت دے رہے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس روز الیکشن کمیشن نے دہلی میں پریس کانفرنس کرکے اپنی گندگی دوسروں پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی تو اسی روز
راہل گاندھی نے بہار کے سہسرام سے اپنی 1300کلومیٹر کی ‘ووٹر ادھیکار یاترا’ شروع کی۔ یاترا شروع کرنے سے پہلے راہل نے کہا
کہ ”الیکشن کمیشن بی جے پی کے ساتھ مل کر چناؤ چوری کررہا ہے ۔اسمبلی اور پارلیمنٹ کے چناؤ چرائے جارہے ہیں۔ غریب کی طاقت
ووٹ ہے ، یہی اس کی آواز اور اس کی پہچان ہے ۔ وہی طاقت چھینی جارہی ہے ۔ ہم ہر قیمت پر ووٹ چوری روکیں گے ۔ راہل کی اس یاترا
میں عوام کا جم غفیر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملے میں عوام ان کے ساتھ ہیں،جبکہ الیکشن کمیشن کے ساتھ بی جے پی ہے ۔اس دوران
اپوزیشن چیف الیکشن کمشنر کے خلاف مواخذے کی کارروائی پر غور کررہا ہے ۔ اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ ملک میں کسی چیف الیکشن کمشنر کے خلاف پہلی کارروائی ہوگی۔ چیف الیکشن کمشنر کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی گنجائش دستور کی دفعہ 324(5)میں موجود ہے ۔اس میں جو اسباب بیان کئے گئے ہیں ان میں عہدے کی ساکھ یا غیرجانبداری کو نقصان پہنچانا، بدعنوانی میں ملوث ہونایا جانبداری برتنا شامل ہیں اور یہ تمام ‘اوصاف’ موجودہ چیف الیکشن کمشنر میں بدرجہ اتم موجود نظر آتے ہیں۔
٭٭٭