... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
ہندوستان کے سیاسی بحران پر فی الحال یہ ضرب المثل صادق آتی ہے :”باڑ لگائی کھیت کو باڑ کھیت کو کھائے ، راجہ ہو چوری کرے تو نیاؤ کون چکائے ”۔ ١١ سال قبل مودی جی نے اپنی دعویداری پیش کرتے ہوئے خود کو چوکیدار کے طور پر پیش کیا تھا لیکن جب رافیل کے سودے میں دلالی کا الزام لگا تو ‘چوکیدار چور ہے ‘کا نعرہ مشہور ہوگیا ۔ یہ تشویشناک بات تھی کیونکہ اگرملک کا چوکیدار خود چوری کرنے لگے تو بھلا قوم کی حفاظت کون کرے ؟ خیر سیاستدانوں کے بارے میں عوام کی رائے ویسے ہی خراب ہے لیکن آئینی عہدے پر فائز الیکشن کمیشن کا معاملہ قدرے مختلف تھا ۔ ٹی این سیشن جیسے لوگوں کی بے خوفی اور غیر جانبداری نے عوام کا چیف الیکشن کمشنرکے عہدے پر اعتماد بہت بڑھا دیا تھا ۔ بی جے پی کو پریشانی ہے کہ راہل گاندھی الیکشن کمشنرپر حملہ کرکے ان کا وقار خاک میں ملا رہے ہیں مگر اس کی ابتداء تو خود ان کے رکن پارلیمان نشی کانت دوبے نے کی تھی۔ انہوں نے امسال اپریل میں ٹی این سیشن کی روایت کو آگے بڑھانے والے ایس وائی قریشی کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے بے بنیاد الزامات لگائے تھے ۔
نشی کانت دوبے نے ایکس پر ایس وائی قریشی کی وقف سے متعلق ایکس پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے کہا تھاکہ آپ الیکشن کمشنر نہیں تھے بلکہ ‘مسلم کمشنر’ تھے ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی مسلم کا الیکشن کمشنر ہونا جرم تھا؟ اور 2014کی انتخابی مہم کے دوران خود نریندر مودی نے ہندو الیکشن کمشنر کے خلاف الزامات کیوں لگائے تھے ؟ بلکہ ایف آئی آر کرنے کا چیلنج کیوں کر دیا تھا؟نشی کانت نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ قریشی کے دور میں جھارکھنڈ کے سانتھال پرگنہ علاقے میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کو ووٹر بنایا گیا تھا۔اس طرح تو راجیو کمار اور گیانیش کمار کے دور میں جو بے شمار گھپلے بازی ہوئی اس کے لیے ان دونوں کو جیل میں ہونا چاہیے ۔ ویسے وقف معاملے میں نشی کانت دوبے نے توسپریم کورٹ اور سی جے آئی کو بھی نہیں بخشا تھا۔ جسٹس سنجیو کھنہ پر خانہ جنگی بھڑکانے والے نشی کانت دوبے تو یہ بھی لکھ سکتے تھے کہ وہ چیف جسٹس نہیں ہندو جسٹس ہیں اس لیے انہیں مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت نہیں کرنی چاہیے لیکن وہ اس حد تک نہیں گئے ۔ بی جے پی اگر اس وقت ان پر لگام کستی تو اسے راہل گاندھی پر تنقید کا حق ہوتا مگر ایسے بدزبان رکن پارلیمان کو آپریشن سیندور کے بہانے سرکاری خرچ پر پکنک منانے کے لیے غیر ملکی دورے پر روانہ کیا گیا۔
نشی کانت دوبے تو خیر بھارتیہ جنتا پارٹی کا ایک معمولی مہرہ ہیں اس کے سربراہ وزیر اعظم نریندر مودی نے تو آئینی طور پراپنے سے اونچے عہدے پر فائز نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر سے زبردستی استعفیٰ لے کرانہیں نظر بند کررکھا ہے ۔ ایسے میں یہ کس منہ سے آئینی عہدوں کے تقدس کی بات کرسکتے ہیں۔ جہاں تک حزب اختلاف کے رہنما کو حلف نامہ یا معافی مانگنے کا حکم دینے والے گیانیش کمار کا سوال ہے تو انہوں نے خود سرکاری پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے ۔ وہ بھول گئے کہ ان کے اپنے عہدے کی طرح حزب اختلاف کا عہدہ بھی آئینی ہے ۔ ہندوستان کے اندر جس ویسٹ منسٹر سسٹم کی نقالی کرتے ہوئے پارلیمانی نظام اپنایا گیا ہے وہاں حزب اختلاف کے رہنما کو انگریزی میں شیڈو پرائم منسٹر یعنی وزیر اعظم کا سایہ کہا جاتا ہے ۔ کیا گیانیشور کمار خواب و خیال میں بھی وزیر اعظم کو ایسی دھمکی دینے کی جرأت کرسکتے ہیں؟ نہیں کرسکتے اس لیے کہ ان کا تقرر وزیر اعظم کے مرہونِ منت ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پسند کاوفادار اور اطاعت گزار الیکشن کمشنر ملک پر تھوپنے کی خاطر تقرراتی کمیٹی سے چیف جسٹس کو نکال باہر کیا۔ اس کے علاوہ سبکدوشی کے بعد سرکاری سہولیات اور عہدوں کا لالچ بھی ان کی زبان پر قفل لگاتا ہوگالیکن انہیں نہیں بھولنا چاہیے کہ مودی یا بی جے پی ہمیشہ نہیں رہے گی۔ اقتدار پر فائز جماعت اور افراد جب بدلیں گے تو کیا ہوگا؟
مذکورہ بالا سوال کا جواب راہل گاندھی ‘ووٹ کے حق کا تحفظ مہم ‘کے دوران دے رہے ہیں ۔ انہوں نے ببانگ دہل ‘ووٹر ادھیکار یاترا’ کے دوسرے دن گیا میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے تینوں الیکشن کمشنروں کو اپنے نشانے پر لیا۔ انھوں نے بلا خوف و خطر کہا کہ ”تینوں الیکشن کمشنر سن لیں۔ ابھی نریندر مودی کی حکومت ہے اور آپ ان کے لیے کام کر رہے ہیں۔ لیکن ایک دن آئے گا، جب ملک اور بہار میں انڈیا بلاک کی حکومت ہوگی، پھر ہم آپ تینوں کو دیکھیں گے ”۔ وہ فیصلہ کن انداز میں یہ بھی کہتے نظر آئے کہ ”آپ کے خلاف کارروائی ہوگی”۔ راہل گاندھی کو ایسا سخت لب و لہجہ اختیار کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ خود انہیں کے الفاظ میں ”ووٹ چوری… آئین پر حملہ ہے ۔ ہندوستان کی روح پر حملہ ہے ۔ ووٹ چوری مادر وطن پر حملہ ہے ۔ ہم نہ تو الیکشن کمیشن اور نہ ہی مودی کو ہمارے مادر وطن اور آئین پر حملہ کرنے دیں گے ”۔راہل گاندھی کی تقریر کے دوران بارش شروع ہوگئی اس کے باوجود نہ صرف وہ ڈٹے رہے بلکہ عوام بھی بھیگ بھیگ کر خطاب سنتی رہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی تو بارش کے خدشے سے اپنا دورہ منسوخ کردیتے ہیں اورسامعین کا یہ حال ہے کہ وہ ان کے خطاب سے قبل اپنی دیہاڑی لے کر نکل جاتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے ذریعہ حلف نامہ طلب کیے جانے سے جب راہل گاندھی نہیں ڈرے اور اپنا حملہ تیز کردیا تو خودوہ ڈرکر تمیز سے مخاطب ہونے لگا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ گیانیشور کمار کو اپنی دھمکی آمیز لہجے کا راہل کی جانب سے یہ جواب ملا کہ ”الیکشن کمیشن کی چوری پکڑی گئی تو الیکشن کمیشن مجھ سے حلف نامہ مانگتا ہے ۔ میں الیکشن کمیشن سے کہتا ہوں تھوڑا وقت دو، پورا ملک آپ سے حلف نامہ مانگے گا”۔ اپنے ارادوں کا اظہار کرتے ہوئے وہ بولے کہ ”ہم پورے ملک میں آپ کی چوری پکڑ کر لوگوں کو دکھانے جا رہے ہیں”۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بظاہر نرم خو نظر آنے والے راہل گاندھی کو کس چیز نے الیکشن کمیشن کے خلاف اتنا خونخوار بنا دیا ۔ اس کا جواب خود ان کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”کئی سال سے لگ رہا تھا کہ انتخاب میں کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہے ۔ ہریانہ اور مہاراشٹر کا انتخاب بی جے پی اور الیکشن کمیشن نے مل کر چوری کیا ہے ۔ مہاراشٹر انتخاب کے بعد ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ بی جے پی نے کرناٹک میں بھی ووٹ چوری کی۔ہم نے کرناٹک میں ایک اسمبلی سیٹ کی ووٹر لسٹ چیک کی تو پتہ چلا کہ وہاں ایک لاکھ سے زیادہ فرضی ووٹر ہیں”۔ ان واضح شواہد کے باوجود اگرالیکشن کمیشن تفتیش کر کے اصلاح کرنے کے بجائے سرکار کی چاپلوسی میں دھمکی دینے لگے تو اس کا علاج ضروری ہوجاتا ہے ۔
گیانیش کمار جیسے چوری اور سینہ زوری کرنے والے چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار کا علاج انہیں عہدہ سے نکال باہر کرناہے ۔ اس مقصد
کے حصول کی خاطرحزب اختلاف پارلیمنٹ میں تحریک مواخذہ پیش کرنے کی تیاری کررہا ہے ۔ اس اقدام پر اپوزیشن اتحاد (انڈیا) کے تمام رہنماوں کا اتفاق ہے اور قانونی باریکیوں کا جائزہ لیا جا رہاہے کیونکہ الیکشن کمشنروں کو ہٹانے کا وہی طریقہ ہے جو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے لیے ہے ۔اس کی خاطران کے خلاف پارلیمنٹ میں جو تحریک مواخذہ پیش کرنی پڑتی ہے اس کے لیے راجیہ سبھا کے 50 یالوک سبھا کے 100 اراکین کی حمایت لازمی ہوتی ہے ۔ اس شرط کے ساتھ تو اسے مباحثے کے لیے قبول کیا جاتاہے مگرتحریک کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ ایوان میں موجود اراکین کی دوتہائی تعداد تائید میں ووٹ دیں۔ حزب اختلاف اپنے پچاس ارکان کی دستخط سے ایوان بالا میں جسٹس یشونت سنہا کے خلاف تحریک مواخذہ داخل کرچکا ہے مگر چونکہ سرکار بھی یشونت سنہا کے خلاف ہے اس لیے ان کو ہٹایا جاسکتا ہے مگر گیانیش کمار کو بچانے کی خاطر تو مودی حکومت اپنی ساکھ کو بھی داوں پر لگانے سے نہیں چوکے گی کیونکہ وہ تو انہیں کے پروردہ ہیں۔
مذکورہ بالا مشکلات کے باوجود انڈیا محاذ میں شامل کانگریس، ٹی ایم سی، سماجوادی پارٹی، آر جے ڈی، عآپ، سی پی ایم اور شیوسینا (اُدھو) نے پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کے ترجمان کی طرح برتاؤ کررہاہے ۔حزب اختلاف کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر میں بی جے پی ترجمان کی روح’ داخل ہوگئی ہے کیونکہ سی ای سی نے نہ توراہل گاندھی کے ذریعہ مہادیو پورہ میں ووٹر لسٹ کے اندر ہیرا پھیری اور نہ فرضی ووٹرز کے تعلق سے اٹھائے گئے ایک بھی سوال کا جواب دیا ۔ الیکشن کمیشن نے ووٹر فراڈ کی انکوائری یا تفتیش پر بھی مطمئن نہیں کیا۔ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف کارروائی کے تعلق سے کانگریس رہنما گورو گوگوئی نے کہا کہ ”اس معاملے پر بڑی حد تک غوروخوض کرلیا گیاہے اور اتفاق رائے بھی قائم ہوگئی ہے ۔ ہم صحیح وقت پرصحیح کارروائی کریں گے ”۔ آر جے ڈی کے منوج جھا نے بولے ”ہمارے سامنے تمام قانونی اور آئینی متبادل کھلے ہیں اور ہم انہیں استعمال کریں گے” ۔ اس طرح سرکار کے ذریعہ حزب اختلاف کا سر کاٹنے والی تلوار کے سر پہ اب ایک تلوار لٹکنے لگی ہے دیکھنا یہ ہے کہ کون کس کو کاٹتا ہے ؟