... loading ...
ریاض احمدچودھری
امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں منعقدہونے والے ریفرنڈم میں سکھوں کی بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے۔ اس موقع پر خالصتان کے حامی سکھوں نے کہا کہ وہ بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ظالمانہ اقدامات کی شدید مذمت کی۔ انہوں نے یقین ظاہر کیاکہ انہیں خالصتان ریاست ضرور ملے گی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خالصتان تحریک کے ممتاز رہنما کو لکھے گئے خط کے ذریعے ریفرنڈم کرانے کی حمایت کی تھی۔ امریکی حکومت نے سکھ برادری کے جمہوری حقوق کا دفاع کرتے ہوئے انہیں ریفرنڈم کرانے کی اجازت دے دی۔ ریفرنڈم میں ووٹ ڈالنے کے لیے بھارت، انگلینڈ اور کینیڈا سے بھی سکھ امریکہ پہنچ گئے ہیں۔ کینیڈا، امریکہ اور آسٹریلیا نے بھارت کے خفیہ نیٹ ورک کو بے نقاب کرتے ہوئے سکھ کارکنوں کی حفاظت کو یقینی بنایا ہے۔ایک امریکی عدالت نے خالصتان تحریک سے تعلق رکھنے والے سکھ رہنما کو قتل کرنے کی سازش میں کردار ادا کرنے پر بھارت کے ایک ایجنٹ نکھل گپتا اور بھارتی خفیہ ایجنسی” را ”کے ایک افسر کو ملک بدر کر دیا ہے۔2021سے شروع ہونے والاخالصتان ریفرنڈم دنیا کے آٹھ ممالک میں منعقد ہو چکا ہے۔
بھارت میں سکھوں کی آزادی کی تحریک بالآخر ایک ایسی خونی مسلح بغاوت بن گئی تھی، جس نے 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس بغاوت کا گڑھ ملک کی سکھ اکثریتی شمالی ریاست پنجاب میں تھا۔ سکھ بھارت کی آبادی کا تقریباً 1.7 فیصد ہیں۔سکھوں کی یہ شورش ایک دہائی سے زیادہ جاری رہی اور اسے بھارتی حکومت کے کریک ڈاؤن کے ذریعے دبایا گیا، جس میں ہزاروں لوگ مارے گئے، جن میں بہت سے ممتاز سکھ رہنما بھی شامل تھے۔ پولیس کی کارروائیوں کے دوران سینکڑوں سکھ نوجوان بھی مارے گئے۔ انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق بہت سے سکھوں کو حراست میں بھی لیا گیا۔ تاہم بھارتی حکومت اور سکھوں کے درمیان کشیدگی کا عروج اس وقت دیکھنے میں آیا، جب 1984ء میں بھارتی فوج نے امرتسر میں سکھوں کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بول دیا تاکہ وہاں پناہ لینے والے علیحدگی پسندوں کو نکال باہر کیا جا سکے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس آپریشن میں تقریباً 400 افراد مارے گئے لیکن سکھ گروپوں کا کہنا ہے کہ اس کارروائی میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ہلاک ہونے والوں میں سکھ عسکریت پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ بھی شامل تھے، جن پر بھارتی حکومت نے مسلح بغاوت کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔ آپریشن بلیو اسٹار نامی اس کارروائی کی اجازت اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے دی تھی۔ اس وجہ سے 31 اکتوبر 1984ء کو اندرا گاندھی کو ان کی حفاظت پر معمور ان کے دو سکھ محافظوں نے قتل کر دیا تھا۔ان کی موت کے بعد سکھ مخالف فسادات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، جس میں ہندو بلوائیوں نے پورے شمالی بھارت خاص طور پر نئی دہلی میں گھر گھر جا کر سکھوں پر حملے کیے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالا اور بہت سوں کو زندہ جلا دیا۔آج بھارتی پنجاب میں کوئی فعال شورش نہیں ہے لیکن خالصتان تحریک کو اب بھی اس ریاست میں موجود کچھ افراد کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم سکھوں کے بڑے گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ بھارتی حکومت نے گزشتہ برسوں میں بارہا خبردار کیا ہے کہ سکھ علیحدگی پسند دوبارہ فعال ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ سمیت کئی بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھارت کے موقف کو مکمل طور پر تسلیم نہ کیے جانے پر بین الاقوامی سطح پر خالصتان تحریک کو کچلنے کی تمام بھارتی کوششیں ناکام ہوگئیں۔بھارت کی ناکام سفارتکاری کا بڑا ثبوت امریکی صدر ٹرمپ کا گرو پتونت سنگھ کو خط ہے اور یہ خط بھارت کی سفارتی حکمت عملی کی ناکامی اور خالصتان تحریک کی عالمی بازگشت کا ثبوت بن چکا ہے۔اب تک 27 بار پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا دعویٰ صدر ٹرمپ پہلے ہی کرچکے ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ نے خالصتان کی حامی تنظیم سکھ فار جسٹس کے رہنما گروپتونت سنگھ پنوں کو خط لکھ دیا، جس نے بین الاقوامی سطح پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔گروپتونت سنگھ پنن کو بھارتی حکومت 2020ء میں دہشتگرد قرار دے چکی ہے۔ تاہم، امریکی صدر کی جانب سے موصول خط کو خالصتان تحریک کے لیے خاص اہمیت اختیار کر گیا۔خط میں امریکی صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ ”میں اپنے شہریوں، اپنی قوم اور اپنی اقدار کو سب سے پہلے رکھتا ہوں۔ جب امریکا محفوظ ہوگا، تب ہی دنیا بھی محفوظ ہوگی، میں اپنے شہریوں کے حقوق اور سلامتی کے لیے لڑنا کبھی نہیں چھوڑوں گا۔”
صدر ٹرمپ کا خط ایسے وقت میں سامنے آیا جب 17 اگست کو واشنگٹن میں خالصتان تحریک کا ریفرنڈم ہونا تھا اور ریفرنڈم سے چند ہفتے قبل صدر کا یہ خط نہ صرف سیاسی بلکہ سفارتی حلقوں میں بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔صدر ٹرمپ کے خط میں تجارت، ٹیرف، دفاعی اخراجات اور امریکی اقدار پر مبنی پالیسیوں پر زور دیا گیا ہے۔ انہوں نے خط میں مزید لکھا ہے کہ ”بطور صدر، وہ ان اقدار کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں جو ہمیں امریکی بناتی ہیں۔”خط کے مندرجات میں امریکا کی خارجہ پالیسی، فوجی تیاری اور عالمی امداد سے متعلق فیصلے بھی شامل ہیں۔بھارت سے علیحدگی کے لیے سرگرم خالصتان تحریک کی حامی تنظیم سکھ فار جسٹس کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ارسال کردہ خط اپنی ایکس پوسٹ میں شیئر کیا ہے۔