... loading ...
رفیق پٹیل
۔۔۔۔۔
آج کل
کسی بھی ملک کو ترقی یافتہ بنانے کا طریقہ کارتمام جزویات کے ساتھ دنیا بھر کے اعلٰی تعلیم یافتہ ماہرین کی تحقیق کے ساتھ انٹر نیٹ پر موجود ہے لیکن افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہمارے مبصّرین اس کو موضوع بحث بنانے کے بجائے بعض ستائش باہمی اور چاپلوسی پر مشتمل ایسی تحریروں پر گفتگو اور بحث کو ترجیح دیتے ہیں جس میں ملک کے طاقتور ترین شخصیت سے گفتگو کو موضوع بنایا جاتا ہے۔ ایسا محصوص ہوتا ہے جیسے ہمارے بعض تبصرہ کرنے والے صحافی حضرات علم اور تحقیق کو نظر انداز کرکے سطحی معاملات اور روز مرّہ کے واقعات میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ برسر اقتدار گروہ سے متعلق اشرافیہ اپنے مخصوص مفادات اور اقتدار کو طوالت دینے کی خواہش کی وجہ سے ایسے کسی تحقیق کے رہنما اصولوں کو اپنانے کے لیے تیار نہیں ہیں جس سے ان کے معمولی مفادات کو خطرہ لاحق ہو ۔یہ وہ کوتاہ بینی ہے جس کی وجہ پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار ہے اور مسلسل زوال کا شکار ہوہا ہے۔ پاکستان کے تحفظ، استحکام ،دفاع، ترقی اور خوشحالی کے لیے لازم ہے کہ عام لوگوں کو امن اور تحفظ حاصل ہو عوام کو مہنگائی سے پیدا ہونے والی والی پریشانیوں سے نجات مل سکے۔ ایسا معاشی نظام قائم ہو جس کے ذریعے کاروبار اور صنعت کو فروغ کو تیز تیز کیا جائے۔ عام لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہو تاکہ وہ ٹیکسوں کو بوجھ تصور نہ کریںاور حکومت پر اعتبار کریں۔ بد قسمتی سے گزشتہ سال فروری کے انتخابات کے بعد سے حکومت پر عوام کی بھاری اکثریت کا اعتماد نہیں رہا اور اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ملک کی مقبول ترین جماعت تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے ووٹرز کی تعداد تین لاکھ ماہانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے ۔اس کے کارکنوںمیں پندرہ ہزار ماہانہ اضافہ ہورہا ہے۔ حکومت اس کے سدباب کی اہلیت سے محروم ہے اور خوفناک نتائج کی پرواہ کیے بغیر اپنی بقا کے لیے اقتدار کو دوام دینا چاہتی ہے۔ اس کے لیے آئین اور عدلیہ کا ڈھانچہ تبدیل کردیا گیا ہے۔
اب تسلسل کے نام پر طویل مدت تک موجودہ حکومتوں،اسمبلیوںاور حکومتوں کو برقرار رکھنے کا نیا منصوبہ تیار ہورہا ہے، جسے آئین کی 27 ویں ترمیم کے ذریعے قابل عمل بنایا جاسکتا ہے ۔یہ ایک اور نیا سیاسی دھماکہ ہوگا جس سے مزید عدم استحکام اور تباہ کن اثرات کا خدشہ ہے ۔اٹھارویں ترمیم کے خاتمے اور ملک میں مزید نئے صوبوں کا قیام اس ترمیم میں شامل ہو سکتے ہیں ۔پاکستان میں پہلی مرتبہ اسمبلیوں کی مدّت میں توسیع کی گفتگو مولانا فضل الرحمان نے کی تھی۔ آج کل مختلف سیاسی مبصرین بھی اس کا ذکر کر رہے ہیں۔ حکمراں جماعتوں کے بعض حلقے حکومت کی طویل مدّت توسیع چاہتے ہیں تاکہ انتخابی عمل سے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے۔ تحریک انصاف کے اراکین کو نااہل قرار دے کرنشستیںمسلم لیگ، پی پی ،ایم کیوایم اور جے یو آئی کو دے دی جائیں۔ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ابتدائی طور پر اسمبلیوں کی پانچ سالہ توسیع کردی جائے اور ہر پانچ سال بعد مزید توسیع کردی جائے اور ہر رکن اسمبلی کو اپنا جانشین رکن اسمبلی مقرر کرنے کا اختیا ر بھی دے دیا جا ئے۔ اس منصوبے یااس تصور کی حمایت میں یہ دلیل دی جارہی ہے کہ موجودہ نظام کا تسلسل ضروری ہوگیا ہے ۔ اراکین اسمبلی کے لیے اس سے بہتر مراعات کیا ہوسکتی ہے اس طرح وہ تا حیات رکن اسمبلی بن سکتے ہیں ۔انہیں یہ یقین ہے کہ منصفانہ انتخابات میں ان کے لیے کامیابی کا راستہ محدود ہوتا جارہا ہے ۔دنیا بھر کا میڈیا پہلے ہی فروری کے عام انتخابات کو فراڈ اور دھاندلی پر مشتمل قرار دے چکا ہے ۔حکومت پاکستان نے ان عالمی رپورٹوں کو چیلنج بھی نہیں کیا۔پانچ سالہ مدّت میں اضافے سے موجودہ حکومت2034 تک قائم رہے گی۔ مزید پانچ سال کے اضافے سے یہ مدّت 2039تک اور مزید پانچ سال کے اضافے سے یہ مدّت 2044 تک جا سکتی ہے۔ یعنی آنے والے مزید 19سال تک یہی نظام چلتا رہے گا۔ موجودہ حکمراں اتحاد اس بات پر آمادہ ہوسکتاہے سب سے بڑا مسئلہ حکومت میں شامل جماعتوں پر عوام کا مسلسل بڑھتا ہو عدم اعتماد ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ مہنگائی کے علاوہ ملک کی سب سے مقبول سیاسی جماعت کے خلاف جاری کارروائیاں ہیں۔ حکومت کی تسلسل اور توسیع کی خواہش کی تکمیل آئین میں ترمیم کے ذریعے طاقت اور دھاندلی سے حاصل کردہ اکثریت سے ممکن ہے۔ اس سے استحکام کی توقع رکھنا خام خیالی ہے۔ اگر ملک کے طاقتور حلقوں میں یہ احساس بڑھتا چلاگیا کہ موجودہ نظام سے ان کی ساکھ خراب ہورہی ہے اور بہتری کے امکان معدوم ہورہے ہیں تووہ کوئی اور راستہ تلاش کرکے موجودہ سیاسی ڈھانچے میں شامل تمام عہدیداروں کو گھر بھیج سکتے ہیں ۔تاکہ موجودہ پارلیمنٹ ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اگر تسلسل کے منصوبے کانیا تجربہ کرنے پر حکمراں جماعتوں میں اتفاق ہوگیااور آئینی ترمیم منظور کر لی گئی اس صورت میں کیا پاکستان ایسے کسی منصوبے سے ترقی کر سکتا ہے۔ پاکستان کے عوام کی خوشحالی کے کیا امکانات ہوں گے ۔اس بات پر عمومی اتفاق پا یا جاتا ہے کہ معاشی ترقی کے لیے قانون کی حکمرانی اور سیاسی استحکا م ضروری ہے ۔جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ،جہاں دنیابھر کی تحقیق موجود ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ اچھی اور معیاری حکمرانی ہی ترقی اور استحکام کی اصل بنیاد ہے۔ ترقی کے لیے امن وامان کے ساتھ معاشی اور سیاسی استحکام پہلی شرط ہے دیگر شرائظ میںاداروں میں بدعنوانی کا خاتمہ اور شفّافیت شامل ہے۔ اس کے بعد کے اہم مراحل میں زرعی اورصنعتی پیداوار میں اضافہ ،ٹیکنالوجی اور اعلیٰ معیاری تعلیم کا فروغ،بجلی ، گیس اورپٹرول کی قیمتوں کا توازن شامل ہے ۔بجلی ، گیس اور پٹرول کی قیمت میں اضافے سے صنعتی اور زرعی پیداوار کی لاگت کے بڑھنے سے معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہو جاتی ہے۔ صنعتکا ر ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں بجلی،گیس کی قیمت کم ہوتی ہے اور پیداواری لاگت کم ہوتی ہے۔ پاکستان سے سرمایہ دار بنگلہ دیش اور ملیشیا میںجا کر صنعتیں لگا چکے ہیں۔ بنگلہ دیش میں گزشتہ سال جولائی میں وزیر اعظم حسینہ واجد کے خلاف عوام کے احتجاج اور پرتشدد واقعات کے بعد حسینہ واجد کے بھارت فرار ہونے کے بعد بنگلہ دیش کی صورت حال تبدیل ہوگئی ہے اور امن وامان کے لیے طلب کی گئی مسلح افواج اب بھی امن و امان کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ اس وقت فوج اور عبوری حکومت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے عدم استحکام ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ بنگلہ دیش جمہوریت کے راستے کو اپنا کر اس بحران سے نکل جائے گا۔پاکستان میں شمالی کوریا جیسے نظام کو اپنانے یا شخصی حکمرانی کے لیے سیاست پر پابندی جیسے ناپسندیدہ اور پر خطر عمل سے گزرنا ہوگا۔ اس صورت میں عوامی مزاحمت کو روکنے کے لیے طاقت کا استعمال بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا باعث ہو سکتا ہے ۔واحد راستہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین کی تحقیق کے اچھی اور معیاری حکمرانی کے اصولوں کو اپنانا ہوگا ۔لیکن موجودہ حکمراں طبقہ قربانی کے لیے تیارنہیں۔ اسی وجہ سے پاکستان سیاسی اور معاشی عدم استحکام کے ایسے گرداب میں پھنساہوا ہے جس سے نکلنے کی راہ مسدود ہورہی ہے ۔
٭٭٭