... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب 37 برس بیتتے ہیں۔ وہی ماہ وسال، مگر ایک جیسی تاریکی! جنرل ضیاء کا طیارہ تخریب کا ری کا شکار ہوا، قیام پاکستان سے باہم پیوست حالات میں کڑی در کڑی ایک سوال چلا آتا ہے۔ کیا ہم دن کی روشنی دیکھ سکیں گے؟
لیاقت علی خان کا 16 اکتوبر 1951 کا قتل اسرار کی تہوں میں لپٹا ہے۔ وہی تہیں بہاولپور آتے آتے تاریخ کے کتنے ہی موڑ لپیٹ لیتی ہیں، کتنی ہی صبحیں سمیٹ لیتی ہیں۔ اے صبح کے خالق! ہماری شام غریباں کی خیر!!کیا ہم اصحابِ کہف کے غاروں میں جاپڑیں اور اپنی صبح کا انتظارصبح قیامت تک ٹالا کریں!
یہ 17 اگست 1988کی دوپہر ہے وقت 3 بج کر 51 منٹ ۔پاک ون طیارہ (سی۔ 130) بہاولپور سے کچھ میل کے فاصلے پر گر کر تباہ ہوجاتا ہے۔ طیارے میں کل 29افراد سوار تھے ۔ جن میں اس وقت کے صدر اور تب کے آرمی چیف جنرل ضیاء الحق موجود تھے۔ دیگر سواروں میںچیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن، چیف آف جنرل اسٹاف محمد افضال، پاکستان میں تعینات امریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور امریکا کے سینئر ملٹری اتاشی جنرل ہربرٹ ایم واسوم بھی شامل تھے ۔ ہر گزرتے دن یہ شک تقویت پاتا گیا کہ یہ سبوتاژ کی کارروائی تھی، جس کی بُنت میں انتہائی پُرکاری کا مظاہرہ کیا گیا۔
جنرل ضیاء ہماری تاریخ کا ایک مشکوک کر دار ہے جنہیں پوری طرح کھنگالا نہیں گیا۔ طیارے کی تخریب کا ری کی طرح ہی اُن کی شخصیت بھی پراسرار مفروضوں، نظریاتی تقسیم کے خانوں اور عجیب و غریب کہانیوں سے اَٹی ہے۔ جنرل ضیاء کی شخصیت کا جائزہ لنے کے لیے ایک بڑا تناظرکافی گنجلک اور طویل ہے جو سیاسی ، نظریاتی اور معاشرتی پہلوؤں پر محیط ہے۔ یہ تناظر دائیں اور بائیں کی تقسیم میں اپنے اپنے ہیروز طے کرنے کے بھیانک رجحان سے آلودہ ہے جس میں دونوں طرف حق اور باطل کا اپنے میرٹ پر تعین کرنے کا کوئی لحاظ نہیں پایا جاتا۔ دائیں بازو نے جو بڑے دھوکے اپنے لیے تخلیق کیے، اُن میں جنرل ضیاء کا فریب سب سے بڑھ کر تھا۔اسی دور میں مذہب کے استعمال نے علماء کی وہ حالت کی کہ اب یہ آتے آتے مفتی عبدالرحیم کی شکل میں اپنی آخری صورت پر بھی شاید اکتفا نہ کر سکے۔ یہ ایک الگ اور طویل موضوع ہے ، ایک کالم میں جس کا نپٹار اور نتھار ممکن نہیں۔ اسے یہاں موقوف کرتے ہیں۔
جنرل ضیاء کے حوالے سے دوسرا بڑا تناظر تخریب کاری کا فضیتا ہے، جس کے مختلف پہلو بھی صرف تکنیکی نہیں رہتے، بلکہ یہ طاقت کے مراکز کی کشاکش سے لے کر سیاسی فریب کاریوں اورزعم طاقت کے الم ناک انجام کی تہہ داریوں میں پنہاں عبرتوں کو نمایاں کرتے ہیں۔
جنرل ضیاء کے طیارے کے فضاء میں پھٹنے کے بعدریاست کا رویہ ہماری مہلک تاریخ کی سب سے گندی تہہ سے اُبھرا ۔ ریاست کا پراسرار رویہ اس نوع کے ہر واقعے کو ایک ٹریجڈی بنا دیتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان کے سب سے منظم ادارے کا دعویٰ رکھنے والے عسکری ادارے نے اپنے سربراہ سمیت اہم افسران کے قتل کا تماشا ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا۔طیارہ بہاولپور آمد کے بعد اور روانگی سے قبل 14 تکنیکی ماہرین کی جانب سے پڑتال کیا گیا تھا۔ مگر جس طرح مشرف انتظامیہ بے نظیر بھٹو کے قتل (27 دسمبر2007ء )کے بعد اس کے محرکات میں حیلہ جوئیوں سے کام لیتی رہی، ٹھیک اس طرح پہلے مرحلے میں خود ہرکولیس سی 130 طیارے کو ہی موردِ الزام ٹہرانے کی کوشش کی جاتی رہی، جبکہ یہ ایک مضبوط اور قابلِ اعتماد طیارہ تھا۔
جنرل ضیاء کے دورے کا مقصد ہی بہت زیادہ غیر واضح تھا۔وہ ایک امریکی ساختہ ایم آئی ٹینک کا عملی مظاہرہ دیکھنے کے لیے ٹامیوالی علاقے کا مختصر دورہ کرنے گئے، یہ کوئی ایسا موقع یا مقصد نہیں تھا کہ جس میں آرمی چیف جنرل ضیاء الحق اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل اختر عبدالرحمن کی شرکت ضروری ہوتی۔ بعد میں واضح ہوا کہ دونوں صاحبان کو غیر ضروری طور پر ایک منظم منصوبے سے تقریب میںشرکت کے لیے آمادہ کیا گیا۔دونوں جنرلز کے خاندانوں نے بعد میں یہ انکشاف کیا کہ جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن اس تقریب میں نہیں جانا چاہتے تھے۔جنرل ضیاء الحق کومیجر جنرل محمود درانی نے بصد اِصرار تقریب میں شرکت پر آمادہ کیا۔ کسی اور نے نہیں خود اعجاز الحق نے ایک موقع پر یہ بات ریکارڈ کا حصہ بنائی کہ میجر جنرل محمود درانی کے جنرل ضیاء کے اے ڈی سی کو باربار فون کر نے پر جنرل ضیاء نے اُنہیں گالی (واضح رہے کہ دائیں بازو کے رہنما جنرل ضیاء گالیاں بھی خوب دیتے تھے) دیتے ہوئے یہ کہا تھا کہ یہ مجھے وہاں لے جانے کے لیے اتنا بے چین کیوں ہے؟جہاں تک جنرل اختر عبدالرحمن کا تعلق ہے تو وہ سرے سے آرمرڈ کور سے تعلق ہی نہیں رکھتے تھے ، لہٰذا ٹینکوں کی کسی نمائش میںاُن کی دلچسپی کا کوئی محرک بھی موجود نہیں تھا۔ جنرل اختر عبدالرحمان کے پسماندگان کا بعد میں یہ موقف سامنے آیا کہ وہ آپریشن مڈ نائٹ جیکال کے ایک سازشی کردار بریگیڈیئر امتیاز باللہ کے قائل کرنے پر اُن کے ساتھ بہاولپور گئے۔ بریگیڈئیر امتیاز باللہ نے جنرل اختر عبدالرحمان کو اس امر پر آمادہ کیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق فوجی قیادت میں جن تبدیلیوںکا منصوبہ بنا رہے ہیں، اُس پر بات چیت کا یہاں اُنہیںموقع میسر رہے گا۔ واضح رہے کہ جنرل ضیاء الحق کے طیارے کا حادثہ جن دنوں پیش آیا،یہ باتیں عسکری حلقوں میں عام تھیں کہ جنرل ضیاء فوجی قیادت میں کافی تبدیلیوں کا منصوبہ بنا چکے ہیں۔ اور تو اور خود جنرل ضیاء کے فوری بعد آرمی چیف کا منصب سنبھالنے والے جنرل اسلم بیگ بھی جنرل ضیاء کی تبدیلیوں کے ریڈار پر تھے۔ جنرل ضیاء الحق، جنرل مرزا اسلم بیگ کے بطور وائس چیف فوج کے آپریشنل پہلوؤں پر اپنا کنٹرول بڑھانے کی مسلسل کوششوں کو ٹیڑھی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ تبدیلیوں کے ہدف میںلیفٹننٹ جنرل محمد افضال بھی شامل تھے ۔یہ موقف کمزور نہیں تھا کیونکہ جنرل ضیاء الحق کے لیے جو تقریب سجائی گئی تھی ، وہ کوئی بہت زیادہ تیاریوں کے ساتھ بھی نہیں تھی۔ ڈھائی گھنٹے پر محیط یہ تقریب مکمل ناکام رہی کیونکہ نمائش میں ٹینک کسی بھی مقام پر صحیح نشانہ نہیں لگا سکا تھا۔جس سے واضح ہو رہا تھا کہ تقریب سے زیادہ جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمان کو یہاں لانے پر تیاریاں ہوئی ہیں۔
جنرل ضیاء کے طیارے کی تباہی کے اسباب جاننے کی تمام کوششیں نہایت لغوطریقے سے منظر عام پر آئیں۔ ایئر کموڈور عباس ایچ مرزا کی سربراہی میںقائم بورڈ آف انکوائری نے365صفحات پر مشتمل ایک تکنیکی رپورٹ تیار کی تھی، جس کی ”سرخ جلد” صدر غلام اسحاق خان کے سامنے 16اکتوبر کوپیش کی گئی تھی۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا تھا کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد میں ملبے کا کیمیائی تجزیہ کیا گیاجس سے اندازا ہو ا کہ طیارے میں اجنبی کیمیکلز غیر معمولی مقدار میں موجود تھے۔ جن میںپی ای ٹی این (پینٹائریتھیریٹول ٹیٹرا نائٹریٹ )کی کچھ مقدار بھی تھی۔ یہ ایک دھماکا خیز مواد ہے جو متعدد دہشت گرد حملوں میں استعمال ہو چکا ہے۔
اس رپورٹ کے صرف تیس صفحات ہی منظر عام پر آسکے، باقی صفحات مصلحت کی قبر میں اُتار دیے گئے۔
طیارہ تباہی کی تحقیقات کے حوالے سے تحقیقات کا ایک ڈول نواز شریف نے بھی ڈالا تھا، جنہوں نے جنرل ضیاء کے پنگھوڑے میں ہی آنکھ کھولی تھی۔ یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق نے ایک موقع پر نواز شریف کو اپنی عمر لگنے کی بھی دعا کی تھی۔ کچھ ستم ظریف اس پر یہ فقرہ چسپاں کر تے ہیں کہ اندازا کیجیے اگر یہ دعا قبول نہ ہوتی تو جنرل ضیاء نے اور کتنا لمبا سفر طے کرنا تھا۔ نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت میں شفیق الرحمان کمیشن قائم کیا تھا، مگر اس کی رپورٹ بھی ”خفیہ” رہی۔نواز شریف نے یہ کمیشن طیارہ تباہی کے اسباب جاننے سے زیادہ جنرل اسلم بیگ پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ طیارہ تباہی پر خود امریکا نے بھی زیادہ دلچسپی نہیں لی، جس میںامریکی سفیر آرنلڈ رافیل اور امریکا کے سینئر ملٹری اتاشی جنرل ہربرٹ ایم واسوم بھی ہلاک ہو ئے تھے۔ ایف بی آئی کی ٹیم کو وقوعے کی جانچ کے لیے پاکستان آنے میں ایک سال لگا، پاکستان آکر امریکی ٹیم نے تحقیقات کے بجائے محض چند قانونی تقاضے پورے کرنے میں ہی دلچسپی دکھائی۔ اس ضمن میں تحقیقات کی تمام کوششیں سبوتاژ ہوتی رہیں۔ اور یہ صرف پاکستان میں بعض حلقوں کی جانب سے نہیں ہوا بلکہ خود امریکی انٹیلی جنس برادری بھی تحقیقات کے کسی بھی جوش کو ٹھنڈا کرتی رہی۔ یہاں تک کہ جنرل ضیاء اور جنرل اختر عبدالرحمن کے خاندانوں کی جانب سے ہرکولیس سی۔ 130کے تیار کنندہ کمپنی پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کرنے کی کوشش کی گئی تو اُنہیں امریکی حلقوں سے اس نوع کے اقدام سے منع کر دیا گیا۔ امریکا طیاروں کی تباہی کی ہی نہیں حکومتوں کی تبدیلی کی تحقیقات سے بھی خائف رہتا ہے۔ اِدھر طاقت اپنے بیٹوں کو بھی کھا جاتی ہے ، اس کی کشش اپنوں کو بھی پرایا کر دیتی ہے۔ جیسا کہ جنرل ضیاء الحق کر دیے گئے۔ جنہیںاپنی موت کے بعد درست تحقیقات تک نہ مل سکیں۔ مگر اُفتادگانِ خاک کا دکھ ایک ہی ہے۔ قیام پاکستان سے باہم پیوست حالات میں کڑی در کڑی ایک سوال چلا آتا ہے۔ کیا ہم دن کی روشنی دیکھ سکیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔