... loading ...
معصوم مرادآبادی
لال قلعہ کی فصیل سے وزیراعظم نریندر مودی نے آرایس ایس کی تعریف میں جو کچھ کہا ہے اس پر اپوزیشن جماعتوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یوم آزادی کے موقع پر آرایس ایس کی تعریف کرکے ان مجاہدین آزادی کی توہین کی گئی ہے جنھوں نے اس ملک کی آزادی اور خودمختاری کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔یہ نہ صرف مجاہدین آزادی کی توہین ہے بلکہ تحریک آزادی کی روح کے بھی خلاف ہے ۔اس سلسلہ میں کانگریس، آرجے ڈی، سماجوادی پارٹی، سی پی ایم اور مجلس اتحاد المسلمین جیسی جماعتوں نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم نے یوم آزادی کے موقع کو اپنے تنگ نظر سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال کیا اور یہ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ ایک ایسی تنظیم کا گن گان کیا گیا ہے جو تحریک آزادی میں دوسرے کنارے پر تھی۔
مغل بادشاہ شاہجہاں کاتعمیر کردہ لال قلعہ یوں بھی اس ملک میں آزادی کی تحریک کی ایک علامت کے طورپر جاناجاتا ہے ۔1857میں آزادی کی پہلی جنگ اسی لال قلعہ سے شروع ہوئی تھی جس کی قیادت آخری مغل بادشاہ بہادرشاہ ظفر نے کی تھی۔ لال قلعہ 1857سے 1947 سے جنگ آزادی کا ایک اہم مرکز رہا ہے ۔ یہاں آزادی کے متوالوں کو قید کیا جاتا تھا اور کال کوٹھیریوں میں رکھا جاتا تھا۔ ایسے میں یہاں کی فصیل سے ایک ایسی تنظیم کی تعریف وتوصیف کرنا جس کا آزادی کی تحریک میں کوئی کردار ہی نہ ہو یقینامجاہدین آزادی کی توہین کے مترادف ہے ۔ یوں بھی لال قلعہ مغلیہ عہد کی ان عمارتوں میں شامل ہے جنھیں آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں غلامی کی علامت تصور کے نیست ونابود کردینا چاہتی ہیں۔
بیرسٹر اسد الدین اویسی نے درست ہی کہا ہے کہ لال قلعہ سے آرایس ایس کی تعریف جدوجہد آزادی کی توہین ہے ۔آرایس ایس اوراس کے نظریاتی اتحادیوں نے جدوجہد آزادی کے دور میں برطانوی سپاہیوں کے ہراول دستہ کے طورپر کام کیا تھا۔ وہ کبھی بھی آزادی کی لڑائی میں شامل نہیں رہے ۔ انھوں نے انگریزوں کی مخالفت سے زیادہ گاندھی جی سے نفرت کی۔بیرسٹر اویسی نے کہا کہ اس قسم کے بیانات سے وزیراعظم نے ہمیں ایک بار پھر یاددلایا کہ حقیقی تاریخ کو سیکھنا اور حقیقی ہیروز کی عزت کرنا کیوں ضروری ہے ۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب بزدلی ہمیں بہادری کی اعلیٰ ترین شکل کے طورپر فروخت کردی جائے گی۔ آرایس ایس جامع قوم پرستی کے ان اقدار کو مسترد کرتی ہے جنھوں نے ہمارے آزادی پسندوں کو تحریک دی تھی۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ آرایس ایس پر ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور اقلیتوں کے خلاف بیانیہ تشکیل دینے میں کلیدی ہاتھ ہے ۔آرایس ایس کا قیام 1925میں عمل میں آیا تھا اور اس حساب سے وہ اپنے قیام کے سوسال مکمل کررہی ہے ۔ سبھی جانتے ہیں کہ اس تنظیم کا قیام ملک میں ہندوراشٹر قائم کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا اور اس عرصے میں اس نے اپنے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہرقسم کے غیرجمہوری اور غیردستوری راستے اختیار کئے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد اس پر پابندی لگی تھی اور پابندی عائد کرنے والے اس وقت کے وزیرداخلہ سردار پٹیل تھے جو آج بی جے پی کا سب سے بڑا آئیڈیل ہیں۔سوسال کے اس عرصے میں آرایس ایس نے ملک کی اقلیتوں اور خاص طورپر مسلمانوں کو بدی کی قوت قرار دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔وہ مسلمانوں کے خلاف مسلسل جھوٹا پروپیگنڈہ کرتی رہی ہے اور انھیں نرم چارے کے طورپر استعمال کرتی رہی ہے ۔
وزیراعظم نریندرمودی نے اپنی سومنٹ سے زیادہ کی تقریرمیں لال قلعہ کی فصیل سے یوں تو کئی باتیں کہی ہیں، لیکن ان کی تقریر کے دوپہلو یقینا خطرناک تھے ۔ پہلا آرایس ایس کی جم کر تعریف کرنا اور دوسرا ملک میں گھس پیٹھیوں کے قلع قمع کی بات کرنا۔ وزیراعظم نے گھس پیٹھیوں کا مسئلہ ایک ایسے موقع پر کھڑا کیا ہے جب ملک گیر سطح پر محنت مزدوری کرنے والے مغربی بنگال کے باشندوں پر شب خون مارا جارہا ہے اورانھیں بنگلہ دیشی قراردے کر ملک بدر کیا جارہا ہے ۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر مغربی بنگال کے رہنے والے مسلمان مزدور ہیں۔بنگالی زبان بولنے والے مغربی بنگال کے مسلمان باشندوں کو جگہ جگہ بنگلہ دیشی قرار دے کر پریشان کیا جارہا ہے۔
آئیے پہلے یہ جانتے ہیں کہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں آرایس ایس کے بارے میں کیا کہا ہے ۔ انھوں نے آرایس ایس کی صدی سالگرہ پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم سوسال پہلے لاکھوں لوگوں کی کوششوں سے پیدا ہوئی تھی۔ اس کی سوسالہ قومی خدمت شاندار ہے ۔ ملک کی تعمیر کے عزم کے ساتھ مادرہند کی فلاح وبہبود کے مقصد سے تنظیم کے لوگوں نے اپنی زندگیوں کو وقف کردیا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ خدمت،لگن اور نظم ضبط آرایس ایس کے رضاکاروں کی پہچان رہی ہے ۔یہ تنظیم دنیا کی سب سے بڑی این جی اوہے ۔ اس کی سوسال کی تاریخ ہے ۔ ہم اسے احترام کے ساتھ یاد کرتے ہیں، ملک کو اس سفر پر فخر ہے ۔ یہ تنظیم افرادسازی کے ذریعہ ملک کی تعمیر کے لیے وقف ہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ وزیراعظم آرایس ایس کے سویم سیوک ہیں اور اسی بنیادپر انھیں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کیا گیا ہے ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کے وزیراعظم بننے کے بعد زندگی کے ہر شعبے اور ہرسرکاری دفتر میں آرایس ایس کی سرگرم موجودگی ہے ۔ اس موجودگی کا سب سے منفی اثر ملک کی تاریخ اور تہذیب پر پڑا ہے ۔ نصابی کتابوں سے ملک کی حقیقی تاریخ کو مٹاکر آرایس ایس کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھائی جارہی ہے ۔تعلیم وثقافت کے وہ شعبے جو ملک میں ایک سیکولر جمہوری نظام کی پرورش کررہے تھے اب پوری طرح آرایس ایس کے رنگ میں رنگ گئے ہیں اور ان کے کلیدی عہدوں پر آرایس ایس کے سویم سیوکوں کی تقرریاں کردی گئی ہیں۔ ان کا سب سے بڑانشانہ ملک سے مسلم دور کی تاریخ وثقافت کو مٹانا اور ملیا میٹ کرنا ہے ۔
وزیراعظم کی طرف سے لال قلعہ کی تقریر میں آرایس ایس کی شان میں پڑھے گئے قصیدے سے تمام ہی اپوزیشن پارٹیوں نے اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے ۔کانگریس جنرل سیکریٹری جے رام رمیش نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر کا سب سے تشویش ناک پہلو لال قلعہ کی فصیل سے
آرایس ایس کا نام لینا تھا، جو آئین اور سیکولر جمہوریہ کی روح کے خلاف ہے ۔ انھوں نے کہا کہ یہ قدم آرایس ایس کو خوش کرنے کی ایک بے صبرانہ کوشش ہے ، خاص طورپر اس لیے کہ جب وزیراعظم اگلے ماہ اپنی 75 ویں سالگرہ سے قبل اس تنظیم کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ 2024کے انتخابات کے بعد مودی کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے اور اب وہ اپنی مدت میں توسیع کے لیے پوری طرح موہن بھاگوت کی مرضی پر منحصر ہیں۔ جے رام رمیش نے کہا کہ یوم آزادی کے موقع کو ذاتی اور تنظیمی مفاد کے لیے استعمال کرنا جمہوری اقدار کو نقصان پہنچانا ہے ۔
٭٭٭