وجود

... loading ...

وجود

غزہ میں بھوک کا راج ہے!

جمعه 01 اگست 2025 غزہ میں بھوک کا راج ہے!

جاوید محمود
۔۔۔۔۔۔
امریکہ سے

اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے سفید جھوٹ بولا کہ غزہ میں غذائی قلت کا کوئی مسئلہ نہیں جب کہ اس کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غزہ میں ٹی وی اسکرین پہ نظر آنے والے بھوک سے نڈھال بچے اداکاری نہیں کر رہے بلکہ غزہ میں غذائی بحران واضح نظر آرہا ہے۔ افسوس کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے حل کے بارے میں کوئی تجویز نہیں دی جبکہ غزہ میں خوراک کے حصول کی کوشش بمباری جیسی جان لیوا ہو گئی ہے، جہاں اقوام متحدہ کے عملے کی بھوک اور تھکن سے بے ہوش ہونے والی اطلاعات نے شہریوں کے بقا کے حوالے سے خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے انروا کے مطابق غزہ میں طبی عملے صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت سبھی بھوک اور تھکاوٹ سے نڈہال ہیں۔ خوراک کی تقسیم کے لیے غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے قائم کردہ مراکزگویا موت کا پھندہ بن گئے ہیں، جہاں نشانہ باز لوگوں پر اندھا دھند فائرنگ کرتے ہیں جیسے انہیں ہلاک کرنے کا لائسنس ملا ہو،ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مدد سے اسرائیل کا قائم کردہ یہ متبادل امدادی نظام دراصل بڑے پیمانے پر لوگوں کو شکار کرنے کا منصوبہ ہے، جس پر کسی سے باز پرس نہیں ہوتی ۔اس صورتحال کو نیا معمول بنانے نہیں دیا جا سکتا ۔امداد کی تقسیم کرائے کے فوجیوں کا کام نہیں ۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق او ایچ سی ایچ ار کے مطابق 21مئی کو غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر امدادی تقسیم شروع ہونے کے بعد وہاں اسرائیلی فوج کی فائرنگ کے نتیجے میں 1000زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے جبکہ 21جولائی تک خوراک کے حصول کی کوشش میں 1,054لوگوں کی ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ ان میں 766 غزہ امدادی فاؤنڈیشن کے مراکز پر ہلاک ہوئے جبکہ 288شہری اقوام متحدہ کے امدادی قافلوں سے خوراک اتارنے کی کوشش میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے اور دیگر واقعات میں مارے گئے۔ غزہ میں رہن سہن کے حالات بدترین صورت اختیار کر چکے ہیں، جہاں بنیادی ضرورت کی اشیاء 4000فیصد تک مہنگی ہو گئی ہیں۔ گھر بار کھونے اور کئی مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہونے والے لوگوں کے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ علاقے کی تقریبا تمام آبادی کا انحصار امدادی خوراک پر ہے جس کا حصول زندگی کا خطرہ مول لیے بغیر ممکن نہیں ۔عالمی پروگرام برائے خوراک ڈبلیو ایف پی کے مطابق غزہ کی ایک چوتھائی آبادی کوقحط جیسے حالات کا سامنا ہے، جہاں تقریبا ایک لاکھ خواتین اور بچے انتہائی شدید درجے کی غذائی قلت کا شکار ہیں جنہیں فوری علاج معالجے کی ضرورت ہے۔ بچوں کے ڈائپر کی قیمت تین ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ ان حالات میں بیشتر مائیں پولی تھین کے بیگ استعمال کرنے پر مجبور ہیں ۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں امدادی کارروائیاں مزید سکڑ گئی ہیں۔ ادارے کی عمارتوں پر تین حملے کیے گئے جبکہ وہاں پناہ لیے لوگوں سے بدسلوکی کی گئی اور ایک بڑے گودام کو تباہ کر دیا گیا۔ اسرائیل کی فوج ڈبلیو ایچ او کی عمارت میں بھی داخل ہو گئی ،جس سے عملے اور بچوں سمیت ان کے خاندانوں کو سنگین خطرے کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں ساحلی شہر المواسی کی جانب پیدل نقل مکانی پر مجبور کیا گیا ۔عملے کے ارکان کوبرہنہ کر کے اور آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ان کی تلاشی لی گئی اور ایک رکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر تاحال زیر حراست ہے۔ تصور کریں 21ماہ سے جاری جنگ میں تقریبا ڈیڑھ ہزار طبی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں اور 94فیصد طبی سہولیات کو نقصان پہنچا ہے جبکہ نصف ہسپتال غیر فعال ہو گئے ہیں۔ 18مارچ کے بعد اسرائیلی حکام کی جانب سے ہنگامی طبی مدد پہنچانے والی بیشتر ٹیموں کو غزہ میں آنے کے لیے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے جن لوگوں کے ویزے مسترد کیے گئے ان میں 58غیر ملکی معالجین شامل ہیں۔ انروا کے کمشنر جنرل فلپ لار ارینی کو مارچ 2024میں غزہ آنے سے روک دیا گیا تھا جس کے بعد انہیں نہ تو دوبارہ علاقے میں آنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی انہیں مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے لیے ویزا جاری کیا گیا۔ انہوں نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کو غزہ میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حقائق سے آگاہی کے لیے صحافیوں کو غزہ میں رسائی ملنی چاہیے تاکہ علاقے کی ہولناک صورتحال دنیا کے سامنے ا سکے۔ غزہ میں فری لانس فلسطینی صحافیوں کو زمینی حقائق رپورٹ کرنے میں انتہائی مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ کا میدان ہو یا اور کوئی طوفانی صورتحال صحافی اپنی جان پہ کھیل کر بے خبر لوگوں کو باخبر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ خبر دینے والے صحافی خود خبر بن گئے ہیں ۔اس وقت فلسطینی صحافیوں کو جن بحرانوں کا سامنا ہے، اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ رپورٹس کے مطابق ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ کس طرح اپنے خاندانوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اکثر ان کے دو یا اس سے بھی زیادہ دن بغیر کچھ کھائے گزر جاتے ہیں ۔اس پورے عرصے میں اپنے کیمرے بند نہیں کیے اور اہم فوٹیج بھیجتے رہے ،یہاں تک کہ ان دنوں میں بھی جب ان کے قریبی رشتہ دار مارے گئے۔ ان کے گھر بار ان سے چھین لیے گئے یا وہ اپنے خاندانوں سمیت اسرائیلی فوجی پیش قدمی کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ دربدر ہوتے رہے۔ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے یہ صحافی بری طرح زخمی بھی ہو چکے ہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ حالیہ وقت میں جو گزر رہا ہے وہ سب سے مشکل ہے ۔یہ مصائب اور محرومیوں کا بہت بڑا بحران ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مسلسل سوچتے رہتے ہیں کہ اپنے خاندان کے لیے خوراک کیسے حاصل کریں۔ وہ کھانا اور پانی مانگتے ہیں اور ہم اس کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمیں جو بھی پانی ملتا ہے وہ آلودہ ہوتا ہے۔ ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہ غزہ میں کام کرنے والے مقامی فری لانس صحافیوں کی خیریت کے بارے میں بہت زیادہ فکر مند ہیں ۔کئی مہینوں سے یہ آزاد صحافی غزہ میں زمین پر دنیا کی آنکھ اور کان بنے ہوئے ہیں ۔انہیں اب انہی سنگین حالات کا سامنا ہے جن کو وہ کور کر رہے ہیں۔ ان صحافیوں نے زمینی حقائق کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا اگرچہ جنگ کے دوران خوراک کی قلت ایک مستقل مسئلہ رہی ہے لیکن اس سے قبل جو لوگ باہر سے تنخواہیں وصول کرتے تھے، وہ مقامی مارکیٹوں سے بنیادی ضرورت کا سامان خرید سکتے تھے۔ اگرچہ وہ انہیں بہت زیادہ مہنگا ملتا تھا تاہم اب تو وہ بازار بھی کافی حد تک خالی نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی بھوک مٹانے کے لیے پانی میں تھوڑا سا نمک ملا کر پینا شروع کر دیا۔
برطانیہ سمیت 28 ممالک نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ غزہ میں جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔ انہوں نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کی تعمیل کرے اور امداد کی ڈرپ فیڈنگ بند کرے ۔100سے زیادہ امدادی ایجنسیوں اور انسانی حقوق کے گروپ نے کہا کہ اب سپلائی مکمل طور پر ختم ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی ہمدردی کی تنظیمیں اپنے ساتھیوں اورشراکت داروں کو اپنی آنکھوں کے سامنے ختم ہوتے دیکھ رہی ہیں۔ صحافی جنگی علاقوں میں بہت سی محرومیوں اور مشکلات کو برداشت کرتے ہیں۔ ہمیں شدید تشویش ہے کہ بھوک کا خطرہ بھی اب ان میں سے ایک ہے۔ انٹیگرینڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کی درجہ بندی آئی پی سی نے ایک انتباہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اس وقت قحط کی بدترین صورتحال چل رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ جائزے کے انتبا ہ میں کہا گیا ہے کہ بڑھتے ہوئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ بڑے پیمانے پر بھوک غذائیت کی کمی اور بیماریاں بھوک سے متعلق اموات میں اضافہ کر رہی ہیں۔ غزہ کی تقریبا 2.1ملین فلسطینیوں کی آبادی قحط کے سنگین خطرے سے دوچار ہے اور انہیں خوراک کے عدم تحفظ کی انتہائی سطح کا سامنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے واضح کہہ دیا ہے کہ غزہ میں بھوک کا راج ہے جو معصوم انسانی جانوں کو نگل رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس کے لیے بیانات جاری کیے جا رہے ہیں لیکن اقدامات نہیں کیے جا رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی طلباء امریکا میں تعلیم سے محروم وجود هفته 02 اگست 2025
بھارتی طلباء امریکا میں تعلیم سے محروم

غریب کا دشمن غریب وجود هفته 02 اگست 2025
غریب کا دشمن غریب

صلیبی جنگوںکا تسلسل وجود هفته 02 اگست 2025
صلیبی جنگوںکا تسلسل

آزاد کشمیر کا ناظم اطلاعات یا ہندوستان کا جاسوس؟ وجود هفته 02 اگست 2025
آزاد کشمیر کا ناظم اطلاعات یا ہندوستان کا جاسوس؟

حضورۖ کا خراجِ تحسین وجود جمعه 01 اگست 2025
حضورۖ کا خراجِ تحسین

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر