... loading ...
آواز
۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی
کئی دہائیاں پہلے ابراہیمی معاہدے کی بازگشت سنائی دی تھی۔ آج بھی اس کا تذکرہ سننے میں آرہاہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے کے تناظرمیں امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش اور خواہش ہے کہ ابراہم معاہدے کو وسعت دی جائے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب اسلام ، یہودیت اور عیسائی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ برسر ِ پیکار رہے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان تینوں مذاہب کے لئے بڑے محترم وبرگذیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔اسی بنیادپر دنیا میں امن کے قیام کیلئے ابراہیم معاہدے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا محرک امریکہ ہے جو پوری دنیا کو کسی نہ کسی انداز میں اپنا دست ِ نگر بنانا چاہتاہے وہ اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ شنید ہے کہ ابراہم معاہدے دراصل معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس نے اسرائیل اور کئی عرب ممالک، بنیادی طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان ابراہم معاہدوں میں امریکہ ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے ۔ ان معاہدوں کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کو فروغ دینا ہے۔
یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت میں 2020ء میں اسرائیل اور کئی خلیجی ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے طے پایا تھا، اب دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، خاص طور پر ایران کے حوالے سے مشترکہ خدشات کو دور کرنے کے لئے ا مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کہ ابراہم معاہدے درحقیقت مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی جدید شکل ہے جس کے جواب میں مصرنے عرب دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرلیا تھا جس کا خمیازہ انہوں نے اپنی جان دے کر ادا کیا ۔اب سوال یہ جنم لیتاہے کہ ابراہیمی معاہدے کا مقصد کیا ہے؟ تاریخ میں اس کا جواب پوشیدہ ہے لیکن اس کے پس ِ پردہ کیا محرکات ہیں یا کیا ہو سکتے ہیں ،فی الحال اس بارے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔کہایہ جاتاہے کہ ا براہام ایکارڈز معاہدوں کا ایک مجموعہ ہے جس نے اسرائیل اور متعدد عرب ریاستوں کے درمیان سفارتی معمول پر لا نے میں اہم کردار اداکیا جس کی شروعات متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوئی ۔اس کا باضابطہ ا ظہار اگست اور ستمبر 2020 میں کیا گیا اور 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کردیے گئے، ان معاہدوں کی ثالثی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی گئی تھی۔
اسی پس منظر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین 1994 میں اردن کے بعد اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والے پہلے عرب ممالک بن گئے۔ اس کے بعد کے مہینوں میں، سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کرلیا۔ حالانکہ سوڈان کا معاہدہ 2024 تک غیر توثیق شدہ ہے۔ کہاجاتاہے یہ معاہدے 2010 کی دہائی کے دوران اسرائیل اور سنی عرب ریاستوں کے درمیان بڑھتے ہوئے غیر سرکاری تعاون کے پس منظر میں سامنے آئے، جو کہ ایران کے بارے میں مشترکہ خدشات کی وجہ سے ہے۔ اسرائیلی حکام کے خلیجی ریاستوں کے دوروں اور محدود فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کے آغاز کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں 2018 تک تیزی سے عام ہو گئی تھیں۔ 2020 کے وسط میں، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک معمول پر لانے کا معاہدہ ہوا جس کے بدلے میں مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو الحاق کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو معطل کیا گیا، جیسا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں تجویز کیا گیا تھا۔ معاہدوں نے اقتصادی، سفارتی اور سیکورٹی تعاون کو باقاعدہ بنایا۔ مراکش کے معاملے میں، مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو امریکی تسلیم کرنے کے ساتھ معمول پر آیا۔ سوڈان کے لئے، اس میں دہشت گردی کے ریاستی سرپرستوں کی امریکی فہرست سے ہٹانا اور بین الاقوامی مالی امداد تک رسائی شامل تھی۔ ان معاہدوں کو وسیع تقاریب میں پیش کیا گیا اور ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر اسے بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔
ابراہم معاہدوں کا عرب دنیا میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ لیکن یہ رد ِ عمل شدید قسم کا نہیں تھا ۔مشرق ِ وسطیٰ میں کئی حکومتوں نے اس کی حمایت کا اظہار کیا جبکہ بہت سے ممالک میں رائے عامہ کی مخالفت رہی، خاص طور پر اسرائیل فلسطینی تنازع کو حل کرنے میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ التواء میں چلاگیا ۔ اس کے باوجود، معاہدوں سے تجارت، دفاع، توانائی، ٹیکنالوجی اور ثقافتی تبادلے میں نئے اقدامات شروع ہوئے۔ “ابراہیم ایکارڈز” نام کا انتخاب ابراہیمی مذاہب۔یہودیت اور اسلام کے مشترکہ ورثے کی عکاسی کے لئے کیا گیا تھا ۔ اس طرح پس منظر جانے بغیر ان معاہدوں پر عرب دنیا کی اکثریت خاموش رہی لیکن 1993 اور 1995 میں اوسلو معاہدے کے ساتھ اسرائیل،فلسطینی امن عمل کو آگے بڑھایا گیا تھا لیکن بعد میں دوسری انتفادہ کے آغاز اور بل کلنٹن کی امریکی صدر کی مدت کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اس دوران ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل نے مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر میں اضافہ کرلیا اور ایک منصوبے کے تحت 2005 میں غزہ سے دستبرداری اختیار کر لی۔ 2006 کے انتخابات میں غزہ میں حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل نے 2008 کے بعد مصر کی مدد سے غزہ کی ناکہ بندی کو سخت کر کے آمدو رفت پر پابندی لگادی ۔ اسرائیل اور سنی عرب ریاستوں کے درمیان 2010 کی دہائی میں شیعہ ایران اور اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں مشترکہ خوف کی وجہ سے معاہدہ ہوا ۔ کہاجاتاہے کہ 2017 تک، سعودی عرب کے ساتھ غیر سرکاری تعاون کم از کم 5 سال سے جاری تھا، جس میں دونوں ممالک کی انٹیلی جنس سروسز ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں اور حکام باقاعدگی سے انٹیلی جنس شیئر کرتے تھے۔ 2016 تک، اعلیٰ سطحی اسرائیلی،فلسطینی اور اسرائیلی۔ عرب سیاست دانوں کے درمیان سربراہی اجلاس اور کانفرنسیں اور ان کی سیکورٹی اور انٹیلی جنس سروسز کے درمیان براہ راست رابطے نہ صرف معمول بن چکے تھے بلکہ بڑے عرب میڈیا میں کھل کر بحث کی جاتی تھی۔ 2018 میں، عمانی وزیر خارجہ نے یروشلم کا دورہ کیا،اور نیتن یاہو نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر اور موساد کے سربراہ کے ہمراہ اکتوبر میں عمان کا دورہ کیا تاکہ” مشرق وسطیٰ میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے حصول کے حوالے سے مشترکہ دلچسپی کے متعدد امور” کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اکتوبر 2018 میں بھی، اسرائیلی وزیر کھیل نے 2018 جوڈو گرینڈ سلیم ابوظہبی میں شرکت کی۔ دو اسرائیلی جوڈوکا نے سونے کے تمغے جیتے، اور ایوارڈ کی تقریبات کے دوران اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا گیا، یہ پہلا خلیجی ریاست کے کھیلوں کے مقابلوں میں تھا۔ اگست 2019 میں، اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان امارات کے ساتھ فوجی تعاون کا اعلان کیا فروری 2019 وارسا کانفرنس کی تجویز امریکہ نے ایران کے خلاف اتحاد بنانے کے ارادے سے کی تھی۔ مغربی یورپی ریاستوں کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں دوبارہ شروع کرنے کی مخالفت کی وجہ سے، میزبان پولینڈ نے دو روزہ کانفرنس کے ایران مخالف پہلوؤں کو ٹھکرا دیا، اور پولینڈ امریکہ کے اختتامی بیان میں ایران کا ذکر نہیں کیا گیا۔ حاضری میں موجود 70 ممالک کے نمائندوں میں کئی عرب حکام بھی شامل تھے، جس نے 1991 میں میڈرڈ امن کانفرنس کے بعد پہلی صورت حال پیدا کی جہاں مشرق وسطیٰ پر مرکوز ایک ہی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک اسرائیلی رہنما اور اعلیٰ عرب حکام شریک تھے۔ اس وقت میڈرڈ کانفرنس نے اوسلو معاہدے کے لیے اسٹیج تیار کیا۔ جن لوگوں سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ملاقات کی ان میں عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی بن عبداللہ بھی شامل تھے ۔ جس ملک کا انہوں نے اکتوبر 2018 میں دورہ کیا تھا۔ اس وقت نیتن یاہو کے دورے کے دو دن بعد، بن علوی نے بحرین میں ایک کانفرنس کے دوران مشورہ دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مشرق کی دیگر ریاستوں جیسا سلوک کیا جائے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ باہمی افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن کو برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، ساتھ ہی مذہبی آزادی سمیت انسانی وقار اور آزادی کے احترام کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اب ایک بارپھر ابراہم معاہدوںکی بازگشت سنائی دے رہی ہے ، ٹرمپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔وٹکوف نے یہ بھی کہا ہے کہ اْمید ہے جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے جن کے بارے میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا، یہ عمل مشرق وسطیٰ میں توازن لائے گا کیونکہ امریکا کی جانب سے سفارتی اقدامات کے ذریعے 2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تعلقات معمول پر لانے کے لیے ‘ابراہم معاہدہ’ ہوا تھا۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ابراہم معاہدے میں مزید ممالک شامل ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس سعودی عرب کو ایک ممکنہ امیدوار کے طور پر سامنے لایا ہے۔ لیکن سعودی عرب کے حکمران کو غزہ کی جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔