وجود

... loading ...

وجود

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

جمعرات 03 جولائی 2025 ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

آواز
۔۔۔۔۔۔
ایم سرور صدیقی

کئی دہائیاں پہلے ابراہیمی معاہدے کی بازگشت سنائی دی تھی۔ آج بھی اس کا تذکرہ سننے میں آرہاہے۔ موجودہ عالمی منظر نامے کے تناظرمیں امریکی صدر ٹرمپ کی کوشش اور خواہش ہے کہ ابراہم معاہدے کو وسعت دی جائے۔ دنیا کے تین بڑے مذاہب اسلام ، یہودیت اور عیسائی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ برسر ِ پیکار رہے ہیں۔ لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان تینوں مذاہب کے لئے بڑے محترم وبرگذیدہ سمجھے جاتے ہیں ۔اسی بنیادپر دنیا میں امن کے قیام کیلئے ابراہیم معاہدے کی ضرورت پیش آئی۔ اس کا محرک امریکہ ہے جو پوری دنیا کو کسی نہ کسی انداز میں اپنا دست ِ نگر بنانا چاہتاہے وہ اپنی اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہا ہے۔ شنید ہے کہ ابراہم معاہدے دراصل معاہدوں کا ایک سلسلہ ہے جس نے اسرائیل اور کئی عرب ممالک، بنیادی طور پر متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ ان ابراہم معاہدوں میں امریکہ ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے ۔ ان معاہدوں کا مقصد مشرق وسطیٰ میں امن اور استحکام کو فروغ دینا ہے۔
یہ معاہدہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پہلی صدارتی مدت میں 2020ء میں اسرائیل اور کئی خلیجی ممالک کے مابین تعلقات کو معمول پر لانے کے لئے طے پایا تھا، اب دوبارہ عالمی توجہ کا مرکز بن رہا ہے، خاص طور پر ایران کے حوالے سے مشترکہ خدشات کو دور کرنے کے لئے ا مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے انکشاف کیا ہے کہ جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کریں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ کہ ابراہم معاہدے درحقیقت مصر اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی جدید شکل ہے جس کے جواب میں مصرنے عرب دنیا میں سب سے پہلے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرلیا تھا جس کا خمیازہ انہوں نے اپنی جان دے کر ادا کیا ۔اب سوال یہ جنم لیتاہے کہ ابراہیمی معاہدے کا مقصد کیا ہے؟ تاریخ میں اس کا جواب پوشیدہ ہے لیکن اس کے پس ِ پردہ کیا محرکات ہیں یا کیا ہو سکتے ہیں ،فی الحال اس بارے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہاجاسکتا ۔کہایہ جاتاہے کہ ا براہام ایکارڈز معاہدوں کا ایک مجموعہ ہے جس نے اسرائیل اور متعدد عرب ریاستوں کے درمیان سفارتی معمول پر لا نے میں اہم کردار اداکیا جس کی شروعات متحدہ عرب امارات اور بحرین سے ہوئی ۔اس کا باضابطہ ا ظہار اگست اور ستمبر 2020 میں کیا گیا اور 15 ستمبر 2020 کو واشنگٹن ڈی سی میں دستخط کردیے گئے، ان معاہدوں کی ثالثی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کی گئی تھی۔
اسی پس منظر میں متحدہ عرب امارات اور بحرین 1994 میں اردن کے بعد اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والے پہلے عرب ممالک بن گئے۔ اس کے بعد کے مہینوں میں، سوڈان اور مراکش نے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر اتفاق کرلیا۔ حالانکہ سوڈان کا معاہدہ 2024 تک غیر توثیق شدہ ہے۔ کہاجاتاہے یہ معاہدے 2010 کی دہائی کے دوران اسرائیل اور سنی عرب ریاستوں کے درمیان بڑھتے ہوئے غیر سرکاری تعاون کے پس منظر میں سامنے آئے، جو کہ ایران کے بارے میں مشترکہ خدشات کی وجہ سے ہے۔ اسرائیلی حکام کے خلیجی ریاستوں کے دوروں اور محدود فوجی اور انٹیلی جنس تعاون کے آغاز کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی کوششیں 2018 تک تیزی سے عام ہو گئی تھیں۔ 2020 کے وسط میں، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ایک معمول پر لانے کا معاہدہ ہوا جس کے بدلے میں مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو الحاق کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو معطل کیا گیا، جیسا کہ ٹرمپ کے امن منصوبے میں تجویز کیا گیا تھا۔ معاہدوں نے اقتصادی، سفارتی اور سیکورٹی تعاون کو باقاعدہ بنایا۔ مراکش کے معاملے میں، مغربی صحارا پر مراکش کی خودمختاری کو امریکی تسلیم کرنے کے ساتھ معمول پر آیا۔ سوڈان کے لئے، اس میں دہشت گردی کے ریاستی سرپرستوں کی امریکی فہرست سے ہٹانا اور بین الاقوامی مالی امداد تک رسائی شامل تھی۔ ان معاہدوں کو وسیع تقاریب میں پیش کیا گیا اور ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بڑی سفارتی کامیابی کے طور پر اسے بڑے پیمانے پر فروغ دیا۔
ابراہم معاہدوں کا عرب دنیا میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ لیکن یہ رد ِ عمل شدید قسم کا نہیں تھا ۔مشرق ِ وسطیٰ میں کئی حکومتوں نے اس کی حمایت کا اظہار کیا جبکہ بہت سے ممالک میں رائے عامہ کی مخالفت رہی، خاص طور پر اسرائیل فلسطینی تنازع کو حل کرنے میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ منصوبہ التواء میں چلاگیا ۔ اس کے باوجود، معاہدوں سے تجارت، دفاع، توانائی، ٹیکنالوجی اور ثقافتی تبادلے میں نئے اقدامات شروع ہوئے۔ “ابراہیم ایکارڈز” نام کا انتخاب ابراہیمی مذاہب۔یہودیت اور اسلام کے مشترکہ ورثے کی عکاسی کے لئے کیا گیا تھا ۔ اس طرح پس منظر جانے بغیر ان معاہدوں پر عرب دنیا کی اکثریت خاموش رہی لیکن 1993 اور 1995 میں اوسلو معاہدے کے ساتھ اسرائیل،فلسطینی امن عمل کو آگے بڑھایا گیا تھا لیکن بعد میں دوسری انتفادہ کے آغاز اور بل کلنٹن کی امریکی صدر کی مدت کے اختتام کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اس دوران ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل نے مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر میں اضافہ کرلیا اور ایک منصوبے کے تحت 2005 میں غزہ سے دستبرداری اختیار کر لی۔ 2006 کے انتخابات میں غزہ میں حماس کے اقتدار میں آنے کے بعد اسرائیل نے 2008 کے بعد مصر کی مدد سے غزہ کی ناکہ بندی کو سخت کر کے آمدو رفت پر پابندی لگادی ۔ اسرائیل اور سنی عرب ریاستوں کے درمیان 2010 کی دہائی میں شیعہ ایران اور اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں مشترکہ خوف کی وجہ سے معاہدہ ہوا ۔ کہاجاتاہے کہ 2017 تک، سعودی عرب کے ساتھ غیر سرکاری تعاون کم از کم 5 سال سے جاری تھا، جس میں دونوں ممالک کی انٹیلی جنس سروسز ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں اور حکام باقاعدگی سے انٹیلی جنس شیئر کرتے تھے۔ 2016 تک، اعلیٰ سطحی اسرائیلی،فلسطینی اور اسرائیلی۔ عرب سیاست دانوں کے درمیان سربراہی اجلاس اور کانفرنسیں اور ان کی سیکورٹی اور انٹیلی جنس سروسز کے درمیان براہ راست رابطے نہ صرف معمول بن چکے تھے بلکہ بڑے عرب میڈیا میں کھل کر بحث کی جاتی تھی۔ 2018 میں، عمانی وزیر خارجہ نے یروشلم کا دورہ کیا،اور نیتن یاہو نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر اور موساد کے سربراہ کے ہمراہ اکتوبر میں عمان کا دورہ کیا تاکہ” مشرق وسطیٰ میں امن عمل کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ میں امن و استحکام کے حصول کے حوالے سے مشترکہ دلچسپی کے متعدد امور” کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اکتوبر 2018 میں بھی، اسرائیلی وزیر کھیل نے 2018 جوڈو گرینڈ سلیم ابوظہبی میں شرکت کی۔ دو اسرائیلی جوڈوکا نے سونے کے تمغے جیتے، اور ایوارڈ کی تقریبات کے دوران اسرائیل کا قومی ترانہ بجایا گیا، یہ پہلا خلیجی ریاست کے کھیلوں کے مقابلوں میں تھا۔ اگست 2019 میں، اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان امارات کے ساتھ فوجی تعاون کا اعلان کیا فروری 2019 وارسا کانفرنس کی تجویز امریکہ نے ایران کے خلاف اتحاد بنانے کے ارادے سے کی تھی۔ مغربی یورپی ریاستوں کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں دوبارہ شروع کرنے کی مخالفت کی وجہ سے، میزبان پولینڈ نے دو روزہ کانفرنس کے ایران مخالف پہلوؤں کو ٹھکرا دیا، اور پولینڈ امریکہ کے اختتامی بیان میں ایران کا ذکر نہیں کیا گیا۔ حاضری میں موجود 70 ممالک کے نمائندوں میں کئی عرب حکام بھی شامل تھے، جس نے 1991 میں میڈرڈ امن کانفرنس کے بعد پہلی صورت حال پیدا کی جہاں مشرق وسطیٰ پر مرکوز ایک ہی بین الاقوامی کانفرنس میں ایک اسرائیلی رہنما اور اعلیٰ عرب حکام شریک تھے۔ اس وقت میڈرڈ کانفرنس نے اوسلو معاہدے کے لیے اسٹیج تیار کیا۔ جن لوگوں سے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ملاقات کی ان میں عمان کے وزیر خارجہ یوسف بن علوی بن عبداللہ بھی شامل تھے ۔ جس ملک کا انہوں نے اکتوبر 2018 میں دورہ کیا تھا۔ اس وقت نیتن یاہو کے دورے کے دو دن بعد، بن علوی نے بحرین میں ایک کانفرنس کے دوران مشورہ دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مشرق کی دیگر ریاستوں جیسا سلوک کیا جائے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ باہمی افہام و تفہیم اور بقائے باہمی کی بنیاد پر مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں امن کو برقرار رکھنے اور اسے مضبوط بنانے کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں، ساتھ ہی مذہبی آزادی سمیت انسانی وقار اور آزادی کے احترام کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اب ایک بارپھر ابراہم معاہدوںکی بازگشت سنائی دے رہی ہے ، ٹرمپ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔وٹکوف نے یہ بھی کہا ہے کہ اْمید ہے جلد ایسے ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے جن کے بارے میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا، یہ عمل مشرق وسطیٰ میں توازن لائے گا کیونکہ امریکا کی جانب سے سفارتی اقدامات کے ذریعے 2020ء میں متحدہ عرب امارات، بحرین، سوڈان اور مراکش کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات تعلقات معمول پر لانے کے لیے ‘ابراہم معاہدہ’ ہوا تھا۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ ابراہم معاہدے میں مزید ممالک شامل ہوں گے۔ وائٹ ہاؤس سعودی عرب کو ایک ممکنہ امیدوار کے طور پر سامنے لایا ہے۔ لیکن سعودی عرب کے حکمران کو غزہ کی جنگ کی وجہ سے اسرائیل کے حوالے سے تحفظات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش وجود جمعرات 03 جولائی 2025
بلوچستان توڑنے کی ناپاک سازش

ابراہیمی معاہدے کی بازگشت وجود جمعرات 03 جولائی 2025
ابراہیمی معاہدے کی بازگشت

مقبوضہ وادی میں مسلم تشخص خطرے میں وجود بدھ 02 جولائی 2025
مقبوضہ وادی میں مسلم تشخص خطرے میں

سانحہ سوات بے حسی اور غفلت کی دردناک کہانی وجود بدھ 02 جولائی 2025
سانحہ سوات بے حسی اور غفلت کی دردناک کہانی

پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج وجود منگل 01 جولائی 2025
پی ٹی آئی کے لیے بڑا چیلنج

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر