... loading ...
ایم سرور صدیقی
ایران اسرائیل جنگ کے بارے میں دنیا کے تمام اندازے غلط ثابت ہوگئے جس دن اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا اس دن لگتا تھا کہ یہ سب گھنٹوںکا کھیل ہے کیونکہ پہلے ہی حملہ میں ایران کا آرمی چیف، ایک درجن جوہری سائنسدان اور درجنون شہری شہید ہوگئے تھے جس کے باعث عالم ِ اسلام میں خوف و ہراس پھیلنا یقینی تھا لیکن اس کے بعد ایران نے جو کچھ اسرائیل کے ساتھ کیا اس کا کسی کو اندازہ بھی نہ تھا ۔اب جنگ دوسرے ہفتہ میں داخل ہونے والی ہے اور اس کا منطقی انجام سوالیہ نشان ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل ایران کی جوہری صلاحیت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق نیو جرسی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی کے تناظر میں اپنے مؤقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ امن کے داعی رہے ہیں، لیکن بعض اوقات امن قائم رکھنے کیلئے سختی بھی ضروری ہوجاتی ہے ایران کے خلاف امریکی زمینی افواج بھیجنے کا امکان آخری آپشن ہوگا ”۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ میں شامل ہونے سے متعلق فیصلہ بارے ان کا کہنا تھا، ”میرا خیال ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو ہفتے لگیں گے، اس سے زیادہ نہیں”۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کے پاس ایران کے فردو (Fordow) میں واقع زیر زمین جوہری تنصیب کو تباہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔ انہوں نے واضح کیاکہ ”ان کے پاس اس کام کے لئے بہت محدود صلاحیت ہے۔ وہ شاید کسی چھوٹے سے حصے کو توڑ سکیں، لیکن وہ بہت گہرائی تک نہیں جا سکتے۔ ان کے پاس اس کی صلاحیت نہیں۔” ایرانی میڈیا کے مطابق اسرائیل کے تازہ ترین حملہ میں اصفہان میں نیوکلیئر سائٹ کونشانہ بنایا ہے، اصفہان کے نائب گورنر کا کہنا ہے کہ اصفہان پر اسرائیلی حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ فارس خبر رساں ایجنسی کے مطابق اہلکار نے بتایا کہ لنجان، مبارکہ، شہریزہ اور اصفہان کے شہروں کو نشانہ بنایا گیا۔ اصفہان میں جوہری مقام کو بھی نشانہ بنایا گیا، تاہم اہلکار کے مطابق ”خطرناک مواد کا کوئی اخراج نہیں ہوا” ۔تاہم خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ ایران پر حملوں میں قدس فورس کے سربراہ سعید یزد مارے گئے ہیں۔ دوسری جانب یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ جوہری مواد کی تباہی کو روکنے کیلئے اسے منتقل کیا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل کے حملوں کو ختم کرنے اور سفارت کاری کی طرف واپس آنے کیلیے مذاکرات کے نقطہ نظر کے ایک حصے کے طور پر ”چھپے ہوئے ایرانی جوہری مواد کی طویل اور چیلنجنگ تلاش” کا منظر پیش کررہا ہے۔ امریکا میں قائم دفاعی تھنک ٹینکس، انسٹی ٹیوٹ فار دی اسٹڈی آف وار (ISW) اور کریٹیکل تھریٹس پروجیکٹ (CTP) نے تنازع کے اپنے تازہ ترین مشترکہ جائزے میں کہا ہے کہ IRGC کے ایک سینئر کمانڈر نے کہا ہے کہ جوہری مواد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا تھا تاکہ اس کی تباہی کو روکا جاسکے۔ ISW/CTP نے کہا کہ ”مادے کو چھپا کر ایرانی جوہری مواد کی حفاظت کرنا”، ”امریکی یا اسرائیلی مواد کو تباہ کرنے کی کوشش کو مزید مشکل بنادے گا۔” جبکہ
اسلامی جمہوریہ ایران کی پاسداران انقلاب (IRGC) نے اسرائیل پر حالیہ میزائل اور ڈرون حملے کی تفصیلات جاری کردی ہیں۔ پاسداران انقلاب کے مطابق یہ اسرائیلی اہداف پر کیا گیا 18واں حملہ تھا، جس کا ہدف وسطی اسرائیل میں واقع فوجی تنصیبات اور آپریشنل معاونت کے مراکز تھے، جن میں بن گورین بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی شامل ہے۔ پاسداران انقلاب کے مطابق حملے میں ایران کے مقامی طور پر تیار کردہ شہیدـ136 ڈرونز نے حصہ لیا، جو مسلسل مقبوضہ علاقوں کی فضا میں کارروائیاں کرتے رہے جبکہ ٹھوس اور مائع ایندھن سے چلنے والے ایرانی میزائل بھی استعمال کئے گئے۔ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے جدید ترین دفاعی نظام بھی ان میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے میں ناکام رہے۔ ڈرون اور میزائلوں پر مشتمل مشترکہ کارروائیاں مسلسل اور مخصوص اہداف کے ساتھ جاری رہیں گی۔ رات گئے ایران کی جانب سے داغے گئے میزائل وسطی اسرائیل کے علاقے ڈین گش میں گرے، جہاں ایک رہائشی عمارت کو میزائل کے ٹکڑے لگنے سے آگ لگ گئی ۔اسرائیلی عوام میں بڑھتے خدشات اور دباؤ کے باعث امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ “کام مکمل کریں” یعنی ایران پر فیصلہ کن حملہ کریں تاکہ جنگ جلد ختم ہو۔
اسرائیلی فوج اور حکومت کی جانب سے اگرچہ مسلسل برتری کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، خاص طور پر فضائیہ کی جانب سے، جو ایرانی فضائی حدود میں باآسانی میزائل داغنے اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن عوامی سطح پر ایک اور قسم کی بحث جاری ہے۔ رپورٹ کے مطابق خدشہ یہ ہے کہ اگر امریکہ نے براہ راست ایران پر حملہ نہ کیا، تو یہ جنگ ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ میں تبدیل ہو سکتی ہے، جو نہ صرف مہنگی بلکہ ناقابل برداشت بھی ہو گی، اس خدشے کا اندازہ تل ابیب کی سڑکوں پر لگے ان بل بورڈز سے بھی ہوتا ہے، جن میں امریکی صدر سے صاف الفاظ میں مطالبہ کیا جا رہا ہے: ”Finish the Job ”– کام مکمل کرو۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی اس جنگ کے دورانیے پر کوئی واضح بات نہیں کی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگ کئی ہفتے یا مہینے تک بھی جاری رہ سکتی ہے، جو اسرائیل کے لئے سیاسی، عسکری اور معاشی طور پر شدید دباؤ کا باعث بنے گی ۔دفاعی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایران اسرائیل جنگ کے نتیجہ میں 10 ہزار سے زائد صیہونی بے گھرہوچکے ہیں جبکہ کھربوں ڈالر کا نقصان الگ ہوا ہے جو اسرائیل کی معیشت کی کمر توڑنے کے لئے کافی ہوگا۔ اسرائیل نے تمام عالمی قوانین کو نظر انداز کر کے ایران کی سلامتی و خود مختاری پر حملہ کیا جس کا اسے خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن نے کہا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو طویل عرصے سے ایران سے جنگ چاہتے تھے کیونکہ صرف اسی طریقے سے وہ ہمیشہ کے لئے اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ اب دنیا بھرکے عسکری مبصرین کا خیال ہے کہ اگر امریکہ اس جنگ میں نہ کودا تو اسرائیل کبھی ایران سے جنگ نہیں جیت سکتا ۔اس کاکچھ کچھ اندازہ جنگ مسلط کرنے والوںکوہوگیاہے ۔کیا وہ نہیں جانتے کہ امریکہ تو آج سپرپاور بناہے ایران صدیوںپہلے سپر پاور تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔