وجود

... loading ...

وجود

یوم تکبیر، کریڈٹ کی مصنوعی موت

بدھ 28 مئی 2025 یوم تکبیر، کریڈٹ کی مصنوعی موت

ب نقاب /ایم آر ملک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ حقیقت ہے کہ تاریخ کی تختی سے کریڈٹ کو مصنوعی موت سے نہیں مٹایا جاسکتا ۔
بھٹو اسلامی تاریخ کا روشن استعارہ تھا اور رہے گا عرصہ پہلے میاں برادران کے ایک حواری نے کہا تھا کہ ایٹمی پروگرام کا ارتقاء یحیٰ خان کا مرہونِ منت ہے، وہی یحیٰ خان جس نے حب ا لوطنی ہندو بنیئے کے ہاتھوں بیچ کر وطن عزیز کو دو لخت کیا ،معرکہ حق و باطل کے دوران جو شراب و کباب کی محفل میں طائوس و رباب اول کا پرچار کرتا رہا ۔اسد درانی جس کی کتاب کی تقریب رونمائی انڈیا میں ہوئی اپنی کتاب میں لکھا کہ ”ایٹمی پاکستان کا کریڈٹ نواز شریف کو جاتا ہے ”۔جرنیلوں نے ہمیشہ ایسے فرد کے گن گائے جس نے کرپشن کے ریکارڈ توڑ کر ان کی ہمنوائی کی۔
عدالت سے نااہل ہونے والے ایک شخص کا یہ بیانیہ بھی تسلسل کے ساتھ گونجتارہا کہ مجھے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھنے کی سزا ملی لیکن بھٹو کی پارٹی پر قابض زرداری اور اس کے حواری جن کانعرہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ”ہماری سماعتوں سے ٹکراتا ہے۔ بھٹو کے تاریخی کارنامے کا دفاع کرنے کیلئے ان کی زبانیں گنگ ر ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ محب وطن قوتیں وطن عزیز میں ایٹمی دھماکے 18مئی1998کو انڈیا کے دھماکوں سے پہلے کرنے کی خواہاں تھیں مگر نواز شریف نے انکار کردیا ۔بالکل ایسے جیسے انڈیا کے حملے پر اس کی زبان خاموش ہے، نواز شریف نے اپنے وزیروں تک سے کہہ دیا کہ اگر ہم دھماکے نہ کریں تو اتنی دولت ہاتھ آسکتی ہے کہ ہماری نسلیں سنور جائیں گی ۔نوازشریف کی ہٹ دھرمی نے محب وطن حلقوں کو تشویش میں ڈال دیا، کلنٹن کو نواز شریف نے فون کیا کہ میں نے دھماکے نہ کئے تو میری حکومت گر جائے گی۔ یہ سب فوج کے ہاتھ میں ہے۔ جب مشرف کے ہاتھوں میاں نواز شریف جیل گئے تو حسین نواز نے انڈیا جاکر امبانی بزنس گروپ کے چیئرمین نیرو امبانی کے پائوں پکڑ لئے کہ میرے والد کو بچایا جائے ۔امبانی گروپ کے چیئرمین جس کے فنڈ سے را چلتی ہے نے کلنٹن کو فون کیا کہ نواز شریف کو ہر حال میں بچایا جائے۔ کلنٹن نے سعودی حکمرانوں سے مشرف حکومت پر دبائو ڈلوایا۔ لیکن اس جان خلاصی کے بدلے نواز شریف کو انڈیا کو یقین دہانی کرانا پڑی کہ آئندہ اقتدار میں آکر وہ انڈیا اور راء کے مفادات کا تحفظ کرے گا اور یہی کچھ پوری قوم نے دیکھا ۔کلبھوشن سے لیکر رمضان شوگر ملز میں راء کے ایجنٹوں کی بھرتی تک ایک داستان ہمارے سامنے آئی یہی نہیں ممبئی بم دھماکوں اور پٹھانکوٹ واقعہ کی گوجرانوالہ میں ایف آئی آر کا اندراج راء اور انڈیا کے مفادات کا تحفظ نہیں تو اور کیا ہے ؟
اور بھٹو !
بخدا وہ وطن عزیز کی بقاء اور دفاع کی خاطر قانون کی کمزور ترین دفعہ 109کے تحت تختہ دار پر چڑھ کر ہمیشہ کیلئے امر ہوا ہالینڈ میں مقیم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فخر ِ ایشیا کی درخواست پر مستقل طور پر پاکستان رہ کر نیو کلیئر پروگرام شروع کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کیا ۔18مئی 1974بھارت نے پہلا ایٹمی دھماکہ کیا اور چند گھنٹے بعد اعلیٰ افسران کے ہنگامی اجلاس میں اُس نے یہ تاریخی الفاظ کہے ”ہندو نے بم بنا لیا ہے اب ہمیں بھی بم بنانا ہو گا خواہ ہمیں گھاس پر ہی کیوں نہ گزارہ کرنا پڑے ” اور اُسے جب اپنے عزم کی تکمیل کی جھلک نظر آئی تو فطری خوشی اور جذبات سے مغلوب قائد عوام نے میز پر مکہ مارا اور یہ تاریخی الفاظ اُس کی زبان سے نکلے
”I will see Hindu Basterds now”
یہودیت ہمیشہ مسلمانوں کی ترقی سے خائف رہی یہودیت کے پروردہ ہنری کسنجر نے اپنا زہر اُگلا۔ ”بھٹو تم نے جس پروگرام کی ابتدا کی اِ س کی سزا بڑی کڑی ہے ” شہید وطن نے اسمبلی فلور پر یہ باور کرایا کہ سفید ہاتھی میری جان کے در پے ہے ڈاکٹر اے کیو خان نے تعمیر وطن کیلئے اپنا کام تیزی سے شروع کر دیا بھٹو کا یہ کارنامہ جو دفاع ِ وطن کیلئے تھا اور اُس قوم پرست کے ذہن میں یہ خناس سمایا ہوا تھا کہ میری قوم احساس کمتری سے نکلے یہودی لابی کی نظروں میں کھٹکتا رہا اور بالآ خر اس لابی نے اپنے پلان کو عملی جامہ پہناتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کے ذریعے اُس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا استعماری طاقت کے ایک آلہ کار نام نہاد ” مرد ِ مومن مردِ حق ”نے تیسری دنیا کے لیڈر کیلئے ایک متنازعہ مقدمہ میں متنازعہ سزائے موت تجویز کی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے استعماری طاقتوں کے آلہ کار کو لکھا ”یقینا بھٹو صاحب سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں گی لیکن پاکستان کی سلامتی کیلئے اُن کی بے پناہ خدمات کو سامنے رکھا جائے اور اُنہیں سزائے موت نہ دی جائے ” مگر جب کوئی دشمن وطن کے اشارہ و ابرو کا پابند ہو اُس کا ایجنٹ بن کر کام کر رہا ہو تو اُسے اپنے مفادات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، ضیا نے یہی کچھ کیا کہ ایٹمی پروگرام کے معمار کو پھانسی دیدی بھٹو نے دوران ِ حراست اپنی بائیو گرافی میں لکھا ”اگر مجھے قتل کیا گیا تو دنیا کی تاریخ بدل جائیگی اور یہی ہوا پوری دنیا میں مسلمان زیر عتاب آگئے نائن الیون کے خود ساختہ واقعے کے بعد مسلمان دہشت گرد ٹھہرے ۔اُس نے ایک موقع پر کہا تھا کہ عربوں کی معدنی دولت ،تیل کا پیسہ ورلڈ بنک میں پڑا ہے اور یہی پیسہ غریب اور ترقی پذیر مسلمان ممالک کو سود پر دیکر استعماری طاقتیں ان غریب اور ترقی پذیر ممالک کو معاشی طور پر دیوالیہ کر کے اُن کی غلامی کی راہ ہموار کرتی ہیں۔
بھٹو پاکستان ہی نہیں مسلم اُمہ کا درد رکھتا تھا پاسبان ِ حرم فیصل شہید اور ذوالفقار علی بھٹو کسی مسلم دھرتی پر ورلڈ بنک کے خواہاں تھے مذکورہ جرائم کی سزائیں بڑی کڑی تھیں ایک کو گولی لگی اور دوسرا دار پر چڑھا
میاں نواز شریف نے اپنے دورِ اقتدار میں مسلم سربراہوں کا ناکام اجلاس طلب کیا تو کرنل معمر قذافی شہید کو بھی دعوت نامہ بھیجا ،بھٹو کے ساتھی نے جواب میں لکھا ”مجھے 1974میں ایسی ہی ایک مسلم سربراہوں کی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ ملا تھا اور میں نے لاہور میںہونے والی اس کانفرنس میں واقعی اسلامی قوتوں کو اکٹھے ہوتے دیکھا تھا لیکن بعد میں ایک ڈکٹیٹر نے اُس شخص کو جس نے ساری مسلمان قوم کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تھی پھانسی پر لٹکا دیا میں آج تک اِس سانحہ کے غم سے باہر نہیں آسکا اِس لیئے میرے واسطے اس اجلاس میں شرکت کرنا مشکل ہے ”
معمار پاکستان کا نام ایٹمی پاکستان کے کریڈٹ کی تختی سے مٹا کر تاریخ کو مسخ کرنے والے آج یہ بھول رہے ہیں کہ تاریخ ہمیشہ سچ اور جھوٹ کے درمیان ایک امتیاز کا نام ہے۔ فخرِ ایشیا کی بیٹی نے ایک موقع پر کہا تھا ”سچائی ،اصولوں اور عوام کی خاطر لڑنے والوں کے مقدر کا فیصلہ عدالتیں نہیں بلکہ عوام اور تاریخ کیا کرتے ہیں تاریخ نے حسین کو شہید اکبر اور اُنہیں باغی قرار دینے والوں کو ملعون ِ اکبر قرار دیا، تاریخ نے سرور شہید اور منصور ابن ِ حلاج کو کافر قرار دیکر شہید کرانے والے فتویٰ فروش قاضیوں کو اُن کے غلط فیصلوں سمیت حرف ِ غلط کی طرح مٹا دیا مگر سرور شہید اور منصور شہید کے نام مسیحائی ،حق پرستی ، اور صبرو استقامت کے تاریخی حوالے بن کر تا قیامت زندہ رہیں گے شاہ عنایت شہید کو مظلوم ہاریوں کی بات کرنے کے جرم میں دار پر چڑھانے والے حکمرانوں پر سندھ کے عوام آج بھی تھو تھو کرتے ہیں جبکہ عنایت شہید دار پر چڑھ کر امر ہوگئے ۔کیا شریف خاندان کی کسی قربانی کا تذکرہ تاریخ کے کسی باب میں ملے گا ،بھٹو خاندان کی قر بانیوں کی طویل داستان ہے ، بھٹو قوم پرستی کے جرم کا شکار ہوا ،شاہنواز پراسرار موت سے دو چار ہوا ،مرتضیٰ بھٹو بھی عالمی سازش کی بھینٹ چڑھا اور محترمہ بے نظیر کی موت بھی عالمی سازش کا نتیجہ ہے مگر ان ساری اموات کا پس منظر پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے ،شریف خاندان ہمیشہ جرنیلوں کی پالکی میں بیٹھ کر اقتدار میں آیا ،یہ دھماکے نواز شریف نے نہیں پاک فوج نے کئے ، کئی روز کی سوچ و بچار کے بعد جب ڈاکٹر قدیر نے اپنی قربانی کا ضیا ہو تے دیکھا تو نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے ادارہ سے رجوع کیا
میاں صاحب !
کریڈٹ کبھی مصنوعی موت نہیں مرتا اور نہ ہی اسے مصنوعی موت مارا جاسکتا ہے اس کا اعتراف سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد مر حوم نے ایک بار یوم تحفظ پاکستان کی ایک ریلی سے دوران خطاب کراچی میںاِن الفاظ میں کیا تھا ”ایٹمی پروگرام کا کریڈٹ بھٹو کو جاتا ہے ”۔ آپ نے تو اس کو کوئی انعام نہیں دیا جس نے یوم ِ تکبیر کا نام تجویز کیا ،آج آپ جتنے جشن منائیں تاریخ اپنا فیصلہ لکھ چکی کہ ” کریڈٹ کو مصنوعی موت نہیں مارا جاسکتا ”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جی سیون اجلاس، بھارت کو مدعو نہیں کیا گیا وجود جمعه 06 جون 2025
جی سیون اجلاس، بھارت کو مدعو نہیں کیا گیا

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند وجود جمعرات 05 جون 2025
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا وجود جمعرات 05 جون 2025
تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا

مودی کی ناکام پالیسیاں وجود جمعرات 05 جون 2025
مودی کی ناکام پالیسیاں

سیاست کے طلسماتی کردار وجود جمعرات 05 جون 2025
سیاست کے طلسماتی کردار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر