... loading ...
۔
آفتاب احمد خانزادہ
امریکہ کے فلسفی جان ڈیوی نے کہا تھا ” ہم صرف اس وقت سوچتے ہیں جب مشکلات کا سامنا کرتے ہیں ”۔ ڈیوی فطرت پسند چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء سے بہت متاثر تھا جس کی کتاب ” انواع کی ابتداء ” 1859 میں شائع ہوئی تھی۔ ڈارون نے انسانوں کو ایسی زندہ مخلوق قرار دیا تھا جو فطرت کی دنیا کاایک حصہ ہے اور دوسرے حیوانوں کی طرح انسان اپنے بدلتے ہوئے ماحول کے تقاضوں کے مطابق ارتقا حاصل کرتا آیا ہے۔ ڈیوی ، ڈراون سے یہ تصور بھی لیتا ہے کہ ہم مجموعی طور پر ایک ایسا نظام ہیں جو مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل آغاز سے آج تک مسلسل کام کررہاہے ٹی ۔ایس ۔ ایلیٹ اپنے مضمون ” شاعری کا سماجی منصب ” میں کہتا ہے ” ہمارا شعور و ادراک جیسے جیسے ہمارے گرد و پیش کی دنیا بدلتی ہے خود بھی بدلتا رہتاہے مثلاً اب ہمارا شعور و ادراک وہ نہیں ہے جو چینیوں کا ،ہندئوں کا تھا بلکہ وہ اب ویسا بھی نہیں ہے جیسا کئی سوسال قبل ہمارے آبائو اجداد کا تھا ۔ یہ ویسا بھی نہیں ہے جیسا ہمارے ا پنے باپ دادا کا تھا ہم خود بھی وہ شخص نہیں ہیں جو ایک سال پہلے تھے ”۔ اگر آج ایلیٹ زندہ ہوتے اور وہ پاکستان کی سیاست پرگہری نظریں گاڑے ہوئے ہوتے تو انہیں اپنی کہی گئی بات کی خود ہی تردید کر نا پڑجاتی۔ اس لیے کہ پوری دنیا بدل گئی لوگ بدل گئے اور مسلسل بدل رہے ہیں لیکن ماشاء اللہ ، الحمد اللہ ہمارے کرتا دھرتا نہ تو بدلیں ہیں اور نہ ہی ان کا بدلنے کاکوئی ارادہ ہے۔ وہ سالوں پہلے بھی ایسے ہی تھے اور سالوں بعد بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ سالوںسے خود سے اور زمانے سے الجھتے ہی آرہے ہیں انہوں نے کبھی بھی نا سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ عجیب و غریب قسم کی نفسیات رکھنے والے کرتا دھرتائوںسے ہمیں پالا پڑا ہواہے۔ مزے کی بات یہ ہے وہ سارا وقت اس بات پر بضد رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ساتھ کبھی بھی دوسرے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہ ہوں اور سماج اسی طرح سے مکمل جامدا ور منجمد رہے، جیسا کہ ہے وہ یہ سو چنا تک گوارہ نہیں کرتے ہیں کہ ہم سب ایک تبدیل شدہ دنیا میں سانس لے رہے ہیں ۔ ایسی تبدیلی شدہ دنیا جو کر پشن اور لوٹ مار کو نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جو بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کوکسی صورت برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جو آج شفا فیت ، کرپشن سے پاک سماجوں کی عزت کرتی ہے جو سماجوں میں انصاف برداشت ، رواداری اور قانون کی حکمرانی پسند کرتی ہے جو عقل و شعور و فکر اور سوچ کی حاکمیت چاہتی ہے جو مسائل اور الجھنوں سے پاک سماجوں کے لیے دن رات کام کررہی ہے۔ ایسے سماجوں کے لیے جہاں انسانوں کو دیوتائوں کا درجہ حاصل ہویا درکھیں میرے کرتادھرتائوں تمہارے خوفزدہ خیالات، کرپٹ تصورات ، ناجائز اختیارات اور بدنیتوں کی موت یقینی ہے۔ اس لیے کہ سماج کی شکلیں ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں ۔تم لاکھ سما ج کے تمام در و دروازے بند کردو۔ لاکھ سو چوں پر پہرے بٹھالوں، ذہنوں کو لاکھ تالے لگا دو، تم پھر بھی تازہ ہوائوں ، تازہ سو چوں اور فکروں کو آنے سے نہیں روک سکو گے۔ کر پشن و لوٹ مار سے پاک ہمارے سماج کو بننے سے اب کوئی نہیں روک پائے گا ۔
ایک کہاوت ہے کہ ” جہاں بصیرت نہیں ہوتی وہاں لوگ تباہ حال ہوجاتے ہیں ”۔ اسی لیے سو چ کے پرانے طریقوں سے نجات پرانے نمونوں سے نجات یہ سب کچھ تاریخ کے بڑے بڑے معرکوں میں شامل ہے۔ جب ہنری کسنجر سیکریٹری آف اسٹیٹ تھا وہ اپنے ماتحت اسٹاف سے یہ کہتا تھا کہ وہ اسے اپنی بہترین سفارشات پیش کریں وہ سفارشات کواپنے ہمراہ لے جاتا اور 48 گھنٹے تک اپنے پاس رکھتا تھا اور اس سوال کے ساتھ ان کو واپس کردیتاتھا کہ ” کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو ”؟ اور اس کا اسٹاف جواب دیتا کہ ”نہیں ہم اس پر مزید سو چ بچار کر سکتے ہیں ہم اسے مزید بہتر شکل دے سکتے ہیں اور ہم دیگر نعم البدل پیش کرسکتے ہیں اور اس انجام کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں جس سے ہم ایسی صورتحال میں بالمقابل ہونگے جبکہ لوگ ہماری سفارشات کو قبول نہ کریں گے ”۔ کسنجر جواب میں کہتاتھا ”ٹھیک ہے آپ اس پر اپناکا م جاری رکھیں ” ۔ اب وہ دوسری مرتبہ ان سفارشات کو اس کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہی کچھ وقوع پذیر ہوتا تھا کسنجر دوبارہ ان سے دریافت کرتاتھا کہ ” کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو ” اب بہت سے لوگ اپنی پیشکش کی خامیوں سے واقف ہوچکے ہوتے تھے لیکن مکمل اسٹاف ورک کا اصول ان کو یہ ذمہ داری عطا کرتا تھا کہ و ہ اپنی خامیوں کی شناخت کریں اور ان کو درست کریں یا کم ازکم یہ کریں کہ اپنی خامیوں کی شناخت کریں اور ان خامیوں کے ساتھ نپٹنے کی تدابیر پیش کریں ۔ کسنجر کچھ چھوٹی موٹی خامیوں کی نشاندہی کرتا تھا کسنجر انہیں مشورہ دیتا تھا کہ واپس جائو او راس پر اپنا کام جاری رکھو، اسے بہتر بنائو ،اسے تقویت بہم پہنچائو اوروہ ایسا ہی کرتے تھے اور اب وہ تیسری مرتبہ ان سفارشات کوکسنجر کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہ تیسری مرتبہ یہ ہی کہتا تھا کہ ” کیا یہ بہترین ہے جو تم کرسکتے ہو؟ کیا یہ تمہاری حتمی سفارشات ہیں ؟ کیا ان میں مزید بہتری کا امکا ن ہے ؟ اور وہ کہتے تھے ” ہم ان کے بارے میں بہترمحسوس کرتے ہیں لیکن ممکن ہے کہ ہم ان کی زبان میں قدرے بہتری لاسکیں ۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہم انہیں قدرے بہتر طور پر پیش کرسکیں” ۔ وہ ان پر اپنا کام جاری رکھتے تھے اور ایک مرتبہ پھر کسنجر کو پیش کرتے تھے اس مرتبہ وہ یہ کہتے تھے کہ ” یہ بہترین ہے جو ہم کرسکتے ہیں ہم نے ان پر کافی زیادہ غورو خو ض سر انجام دیا ہے اور ہم نے واضح طورپر متبادل بھی شناخت کیے ہیں انجام بھی شناخت کیے ہیں ہم نے اس پر روبہ عمل ہونے کی تجاویز بھی پیش کی ہیں اور اب ہم نے انہیں حتمی شکل دے دی ہے اب ہمیں یقین ہے کہ آپ انہیں مکمل اعتماد کے ساتھ پیش کرسکتے ہیں”۔ اب کسنجر جواب دیتا کہ ” ٹھیک ہے اب میں اسے پڑھو ں گا ” پوری دنیا مکمل اسٹاف ورک پر کہ یہ ایک بہترین آئیڈیا ہے متفق ہوچکی ہے۔ اس کا اصول یہ ہے کہ لوگ مسئلے کے بارے میں سو چتے ہیں مسئلہ کا گہرائی میں تجزیہ سرانجام دیتے ہیں کئی ایک متبادل حل تلاش کرتے ہیں اور ان کے انجام / نتائج زیر غور لاتے ہیں اور بالآخر ایک متبادل حل کی سفارش کرتے ہیں ۔یہ مہارت ملکوں اور لوگوں کو خو شحال بنا نے کے قابل بناتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔