وجود

... loading ...

وجود

غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں سسکتے فلسطینی

جمعه 09 مئی 2025 غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں سسکتے فلسطینی

جاوید محمود

غزہ کی پٹی روئے زمین پر سب سے گنجان آباد اورغربت زدہ علاقوں میں سے ایک ہے ۔غزہ کی تاریخ ایسی متعدہ مسلح تنازعات سے بھری ہوئی ہے جنہوں نے اس خطے کی حالیہ تاریخ تک پہنچنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس چھوٹی سی پٹی کی اپنی تاریخ کیا ہے جسے انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور خود فلسطینی بھی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل قرار دیتے ہیں۔ ستمبر 1992 میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق راین نے ایک امریکی وفد سے ملاقات میں کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ غزہ سمندر میں غرق ہو جائے لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ناممکن ہے چنانچہ ہمیں کوئی حل نکالنا ہوگا ۔اسحاق رابن کو 1995 میں ایک اسرائیلی شدت پسند نے قتل کر دیا تھا ۔ان کے اس بیان کے 32سال گزر جانے کے باوجود اس معاملے کا حل نظر نہیں آرہا ۔41کلومیٹر طویل اور 10کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی اسرائیل مصر آور بحیرۂ روم کے بیچ موجود ہے جہاں 23 لاکھ لوگ بستے ہیں ۔اسی لیے اسے دنیا کے گنجان ترین علاقوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ غزہ کی تاریخ تقریبا ًچار ہزار سال پرانی ہے اور اس کی کہانی بیرونی حملوں اور قبضوں سے بھری ہوئی ہے۔ مختلف زمانوں میں مختلف سلطنتوں نے اس پر حکومت بھی کی اور اسے تاراج بھی کیا، جن میں قدیم مصر سے لے کر سلطنت عثمانیہ تک دنیا کی طاقتورحکومتیں شامل رہیں۔ غزہ کو سکندر اعظم رومیو اور پھر مسلمانوں نے عمر ابن العاص کی سربراہی میں فتح کیا اور یوں ترقی اور تباہی کے اس سفر میں غزہ میں آباد ہونے والوں اور ان کی مذہبی شناخت بھی وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی۔ 1917تک غزہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا جس کی پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد یہ علاقہ برطانیہ کے زیر اثر آیا۔ 1919کی پیرس امن کانفرنس میں فاتح ہو رہی طاقتوں نے ایک متحدہ عرب سلطنت کے قیام کو روکنے کے لیے پورے خطے کو تقسیم کر دیا ۔غزہ برٹش مینڈیٹ کا حصہ بنا جو 1920 سے 1948 تک وجود میں رہا۔ تاہم دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانیہ نے فلسطین کے مقدر کا فیصلہ نئی نویلی اقوام متحدہ کی جھولی میں ڈال دیا ۔1947میں اقوام متحدہ نے ایک قرارداد کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو تین حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ 55فیصد علاقے پر یہودی اپنی ریاست بنا لیں۔ بیت المقدس کو عالمی مینڈیٹ کے زیر اثر رکھا جائے اور باقی ماندہ حصہ بشمول غزہ مقامی عرب باشندوں کے حصے میں چلا جائے۔ مئی 1948 کو جب اس قرارداد نے فلسطین سے برطانوی راج کا خاتمہ کیا تو اسی دن اسرائیل کی آزاد ریاست قائم کر لی گئی اور یوں پہلی عرب اسرائیل جنگ کا بھی آغاز ہوا جس میں لاکھوں مقامی فلسطینی بے گھر ہوئے اور غزہ کی پٹی میں بس گئے ۔پہلی عرب اسرائیل جنگ کا خاتمہ ہوا تو غزہ کی پٹی پر مصر کا قبضہ ہو چکا تھا ،جو 1967تک برقرار رہا۔ 1967کی چھ روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے مصر اور شام پر مشتمل متحدہ عرب ریپبلک ان سمیت اردن آور عراق کو شکست دی اور غرب اردن اور مشرقی بیت المقدس سمیت غزہ پر بھی قبضہ کر لیا۔ اسرائیل کی فتح نے پرتشدد واقعات کے ایک ایسے تسلسل کو جنم دیا جو آج تک رک نہیں سکا۔ اسرائیل کے خلاف پہلی فلسطینی انتفادہ تحریک کا آغاز 1987میں غزہ سے ہی ہوا۔ اسی سال حماس وجود میں آئی تھی ۔1993میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امریکی ثالثی میں اوسلو معاہدہ ہوا ۔تو فلسطین نیشنل اتھارٹی کا قیام ہوا جسے غزہ کی پٹی اورغرب اردن کے چند علاقوں میں محدود خود مختاری دی گئی۔ اسرائیل نے 2005میں دوسری اور پہلے سے زیادہ پرتشدد انتفادہ تحریک کے بعد غزہ کی پٹی سے فوج اور 7000یہودی اہلکاروں کا انخلا کیا۔ ایک ہی سال بعد حماس نے انتخابات میں فلسطینیوں کی دوسری تنظیم فتح کوشکست دی اور یوں دونوں کے درمیان طاقت کی جنگ کا آغاز ہو گیا جس میں ایک جانب فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی فتح جماعت تھی تو دوسری جانب حماس تاہم حماس تین جنگوں اور 16سال کے اسرائیلی محاصرے کے باوجود اب تک غزہ میں برسر اقتدار ہی۔ اس محاصرے کے خلاف حماس نے زیر زمین سرنگوں کا جال بچھا رکھا ہے، جن کے ذریعے سامان اور اسلحہ غزہ کے اندر لے جایا جاتا ہے۔ اسرائیل ان سرنگوں کو ایک خطرہ سمجھتا ہے اور اکثر فضائی حملوں میں ان کو تباہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ اسرائیل کے 16 سالہ محاصرے نے غزہ کی پٹی میں معیشت کو تباہ کر دیا ہے۔ عالمی بینک کے مطابق اس علاقے میں بے روزگاری کا تناسب 40فیصد سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہاں کی 65فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 63 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ غزہ کی نصف آبادی 19 سال سے کم عمر ہے لیکن ان کے پاس معاشی ترقی کا کوئی راستہ ہے اور نہ ہی بیرونی دنیا تک رسائی کا کوئی ذریعہ ۔اقوام متحدہ کے مطابق مسلسل تشدد کا سامنا کرنے کی وجہ سے یہاں بچوں کی ایک پوری نسل آباد ہے، جسے طویل المدتی نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے لیکن انہیں کسی قسم کی مدد حاصل نہیں ۔یہاں کی آبادی خصوصا نوجوانوں میں اقوام متحدہ ہی کی رپورٹ کے مطابق ذہنی صحت سے جڑے مسائل بشمول ڈپریشن بڑھ رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے 2021کی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ غزہ کی بندش کی وجہ سے ہنرمند اور تعلیم یافتہ لوگ ایسے مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو دنیا میں کہیں اور بسنے والے لوگوں کو عام میسر ہوتے ہیں ۔
اسرائیل کی ہی ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق 23 لاکھ لوگوں کی یہ آبادی دنیا میں سب سے زیادہ گنجان آباد لاکھوں میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسی علاقے میں قائم آٹھ کیمپوں میں تقریبا 6 لاکھ پناہ گزین بھی رہائش پذیر ہیں۔ واضح رہے کہ لندن جیسے شہر میں فی اسکوائر کلومیٹر علاقے میں 5700لوگ رہتے ہیں لیکن غزہ میں اتنے ہی علاقے میں یہ اعداد و شمار9000تک پہنچ جاتے ہیں۔ 2014 میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی کی سرحد پر ایک دفاعی زون بنایا تھا جس کے بعد مکانات یا کاشتکاری کے لیے دستیاب زمین اور بھی کم ہو گئی ۔یہاں بجلی کی دستیابی بھی ہر وقت نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ کے مطابق زیادہ تر گھروں میں دن میں صرف تین گھنٹے بجلی میسر ہوتی ہے جو اسرائیل فراہم کرتا ہے۔ غزہ میں صرف ایک بجلی کا پلانٹ ہے جبکہ کچھ مقدار میں بجلی مصر سے ملتی ہے ۔زیادہ تر رہائشیوں کو پانی کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کے مطابق غزہ کے بیشتر اسپتال اور طبی مراکز ماضی کی لڑائیوں میں تباہ ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے یہاں 22 طبی مراکز چلانے میں مدد دی جاتی ہے۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے حالیہ بمباری کے بعد یہاں کی آبادی کے حالات مزید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ غزہ میں آباد فلسطینی بنیادی چیزوں سے محروم سسک سسک کر زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ ایک ایسی جیل میں جو گنجان بھی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی جیل بھی اور ان کی نظریں انسانی حقوق کے اداروں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی جانب لگی ہیں ہے کوئی جو، ان کی مدد کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں سسکتے فلسطینی وجود جمعه 09 مئی 2025
غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں سسکتے فلسطینی

بھارت کوبھرپور جواب دیاجائیگا وجود جمعه 09 مئی 2025
بھارت کوبھرپور جواب دیاجائیگا

درد کارشتہ وجود جمعه 09 مئی 2025
درد کارشتہ

بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب وجود جمعرات 08 مئی 2025
بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب

جنگی ماحول میں اور ریاستی ادارے وجود جمعرات 08 مئی 2025
جنگی ماحول میں اور ریاستی ادارے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر