... loading ...
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے اپوزیشن کے شدید احتجاج اور شور شرابے میں 18کھرب 87ارب روپے سے زائد کا سالانہ بجٹ 2024-25 پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ گریڈ ایک سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اضافے ،سرکاری ملازمین کی پنشن میں 15 فیصد اضافے کی تجویزہے ،کم از کم تنخواہ 36 ہزار روپے مقرر، دفاعی اخراجات کیلئے 21 سو 22 ارب روپے مختص، موبائل فونز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے ،آئندہ سال بجٹ خسارہ 8 ہزار 500 ارب روپے ہوگا،صوبائی سرپلس 1 ہزار 217 ارب روپے رکھنے کا ہدف ہے ، رواں مالی سال صوبائی سرپلس 600 ارب سے کم کر کے 539 ارب روپے رہنے کا امکان ہے ،صوبوں کو گرانٹس کی صورت میں 1 ہزار 777 ارب روپے منتقل ہوں گے ،وفاقی حکومت کا ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 12 ہزار 970 ارب روپے مقرر کیا ہے ، فائلرز اور نان فائلرز پر ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز ہے ،سولر پینل کیلئے خام مال اور پرزہ جات کی درآمد پر رعایت دینے کی تجویز ہے ،سکوک بانڈ، پی آئی بی اور ٹی بلز سے 5ہزار142ارب روپے کا ہدف مقرر، سود کی ادائیگیوں کیلئے 9 ہزار 775ارب روپے ،سبسڈی کی مد میں ایک ہزار 363 ارب روپے ،ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے 313 ارب روپے ،وفاقی ترقیاتی بجٹ کیلئے 1400ارب روپے مختص کر نے کی تجویز دی گئی ،آزاد کشمیر کو بجلی کی مد میں 108ارب روپے سبسڈی دی جائیگی،انجن کپیسٹی کے بجائے گاڑی کی قیمت کی بنیاد پر ٹیکس لینے کی تجویز ہے ،موبائل فونز پر یکساں ٹیکس عائد کرنے تجویز،ہائبرڈ اور لگژری الیکٹرک گاڑیوں کی درآمد پر دی جانے والی رعایت ختم کر دی گئی ،پنشن اخراجات میں کمی کیلئے اسکیم متعارف کرانے کی تجویز ہے ۔ بدھ کو اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی زیر صدارت ایوان زیریں کے بجٹ اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد قومی ترانے کی دھن بجائی گئی۔وزیراعظم شہباز شریف بھی بجٹ پیش کیے جانے سے قبل ایوان میں پہنچے اور اسی دوران اسپیکر قومی اسمبلی نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کو بجٹ پیش کرنے کی دعوت دی۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اس معزز ایوان کے سامنے مالی سال 25-2024 کا بجٹ پیش کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے ، فروری 2024 کے انتخاب کے بعد مخلوط حکومت کا یہ پہلا بجٹ ہے اور میں وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت میں شامل سیاسی جماعتوں کی قیادت خصوصا محمد نواز شریف، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، چوہدری شجاعت حسین، عبدالعلیم خان اور خالد حسین مگسی کی رہنمائی کے لیے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔انہوںنے کہاکہ سیاسی اور معاشی چیلنجز کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران اقتصادی محاذ پر ہماری پیشرفت متاثر کن رہی ہے ، ہم سب نے معاشی استحکام اور عوام کی بہتری کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے کی بازگشت کئی بار سنی ہے ، آج قدرت نے پاکستان کو معاشی ترقی کی راہ پر چلنے کا ایک اور موقع فراہم کیا ہے ، ہم اس موقع کو زائل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے اسٹینڈ بائی معاہدہ کرنے پر اس کی تعریف کرنا ہوگی،اسٹینڈ بائی معاہدے سے معاشی استحکام کی راہ ہموار ہوئی،اسٹینڈ بائی معاہدے سے غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا،مہنگائی مئی میں کم ہو کر 12 فیصد تک آگئی ہے ۔انہوںنے کہاکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود کم کیا جانا مہنگائی پر قابو پانے کا ثبوت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اشیا خورد و نوش عوام کی پہنچ میں ہیں، آنے والے دنوں میں مہنگائی میں مزید کمی کا امکان ہے ۔وزیر خزانہ نے کہاکہ ہماری مالیاتی استحکام کی کوششیں ثمر آور ہو رہی ہیں، سرمایہ کار متعدد شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ نواز شریف نے 1990 کی دہائی معاشی اصلاحات کی بنیاد رکھی، شہبازشریف نے نواز شریف کے ریفارم ایجنڈے کو آگے بڑھایا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ پچھلے سال جون میں آئی ایم ایف پروگرام اختیام کو پہنچا،نئے آئی ایم ایف پروگرام کا حصول مشکل نظر آرہا تھا، شہباز شریف نے گزشتہ سال آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹینڈ بائی معاہدہ کیا۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود کم کیا جانا مہنگائی پر قابو پانے کا ثبوت ہے ۔انہوںنے کہاکہ معیشت کی بحالی کے لیے انتھک محنت پر شہباز شریف اور اتحادی حکومت مبارکباد کی مستحق ہے ۔محمد اورنگزیب نے بتایا کہ زیادہ اخراجات سے مہنگائی بڑھی، پیداواری صلاحیت اور آمدن کم ہوئی۔انہوںنے کہاکہ عالمی معاشی نظام کے ساتھ چلتے ہوئے برآمدات کو فروغ دینا ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے سال بجٹ خسارہ 8 ہزار 500 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے ۔ انہوںنے کہاکہ رواں مالی سال بجٹ خسارہ 8 ہزار 388 ارب روپے کا تخمینہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ صوبائی سرپلس 1 ہزار 217 ارب روپے رکھنے کا ہدف ہے ، رواں مالی سال صوبائی سرپلس 600 ارب سے کم کر کے 539 ارب روپے رہنے کا امکان ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجموعی طور پر بجٹ خسارہ 7 ہزار 283 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ رواں مالی سال مجموعی مالیاتی خسارہ 6 ہزار 900 ارب سے بڑھ کر 7 ہزار 839 ارب روپے رہنے کا امکان ہے ۔ انہوںنے کہاکہ رواں سال مجموعی مالی خسارہ جی ڈی پی کا منفی 6.5 فیصد سے بڑھ کر منفی 7.4 فیصد رہنے کا امکان ہے جبکہ اگلے مالی سال کیلئے مالی خسارہ منفی 5.9 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے ۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ اگلے مالی سال پرائمری خسارہ 2 ہزار 292 ارب روپے رہنے کا تخمینہ ہے جبکہ رواں سال پرائمری خسارہ 397 ارب روپے سے بڑھ 402 ارب رہنے کا امکان ہے ، اگلے مالی سال کے لیے پرائمری خسارہ دو فیصد رہنے کا تخمینہ ہے ، رواں مالی سال پرائمری خسارہ جی ڈی پی کا صفر اعشاریہ 4 فیصد رہنے کا امکان ہے ۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ وفاقی حکومت کا ٹیکس ریونیو کا ٹارگٹ 12 ہزار 970 ارب روپے مقرر کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 4 ہزار 845 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے ، گراس ریونیو کا ہدف 17 ہزار 815 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ سکوک بانڈ، پی آئی بی اور ٹی بلز سے 5 ہزار 142 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ، نجکاری سے 30 ارب روپے حاصل ہونے کا ہدف ہے ۔انہوں نے کہا کہ جاری اخراجات کا ہدف 17 ہزار 203 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ سود کی ادائیگی پر 9 ہزار 775 ارب روپے کے اخراجات ہوں گے ۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کیلئے جی ڈی پی کا حجم 1 لاکھ 24 ہزار 150 ارب روپے رہنے کا ہدف ہے ، رواں سال جی ڈی پی کا حجم 1 لاکھ 6 ہزار 45ارب روپے رہنے کا امکان ہے ۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ رواں سال ایف بی آر کا ٹیکس وصولیوں کا ہدف پورا نہیں ہوسکے گا، حکومت نے رواں سال کیلئے ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں کمی کردی۔انہوںنے کہاکہ رواں سال کیلئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9 ہزار 415 ارب سے کم کر کے 9 ہزار 252 ارب کردیا ہے ، نظرثانی شدہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 163 ارب روپے کی کمی کردی گئی۔بجٹ دستاویز کے مطابق نظرثانی شدہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں 163 ارب روپے کی کمی کردی گئی ہے ،اگلے سال کیلئے براہ راست ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 512 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے ، اگلے سال انکم ٹیکس کی مد میں 5 ہزار 454 ارب 6 کروڑ روپے کا ہدف مقرر ہے ۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر کے دوران بتایا کہ دفاع کیلئے 2 ہزار 122 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک بحرانی صورتحال سے نکل چکا ہے ، دیرپا ترقی کے سفر کا آغاز ہوچکا ہے ،ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچیں گے ،اصلاحاتی منصوبے پر تمام اداروں اور عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ، اصلاحات کے ایجنڈے کو جاری رکھے ہوئے ہیں، پاکستان جلد ہی پائیدار ترقی کی جانب لوٹ آئے گا۔انہوںنے کہاکہ نجی شعبے کو معیشت کو مرکزی اہمیت دینے کا وقت ہے ۔ ماضی میں ریاست پر غیرضروری ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا گیا۔ ماضی میں حکومتی اخراجات ناقابل برداشت ہوگئے ۔انہوںنے کہاکہ زراعت ہماری معیشت کا اہم ستون ہے ، اس کا جی ڈی میں حصہ 24فیصد ہے ۔ روزگار کے مواقع پید کروانے میں شعبہ زراعت کا حصہ 37.4 فیصد ہے ، ملک کی فوڈ سیکیورٹی اور صنعتی شعبے کی پیداواری صلاحیت اسی شعبے پر منحصر ہے ۔ انہوںنے کہاکہ زراعت، لائیو اسٹاک اور ماہی پروری قیمتی زر مبادلہ کمانے کے بڑے ذرائع ہیں۔ انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم نے 2022 میں کسان پیکیج کے تحت مارک اپ اینڈ رسک شیئرنگ اسکیم کا اعلان کیا تھا جبکہ اگلے سال اس اسکیم کیلئے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وفاقی بجٹ 2024 میں آئندہ مالی سال کیلئے فائلرز اور نان فائلرز کے ٹیکس کی شرح میں اضافے کی تجویز ہے ، آئندہ مالی سال پراپرٹی پر کیپٹل گین پر ٹیکس میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے ۔بجٹ دستاویز کے مطابق فائلرز کی شرح میں 15 فیصد جبکہ نان فائلرز کے لیے 45 فیصد ٹیکس کی تجویز ہے ۔بجٹ دستاویز کے مطابق سیمنٹ پر ایف اے ڈی 2 روپے فی کلو سے بڑھا کر 3 روپے کرنے کی تجویز ہے جبکہ نئے پلاٹوں، کمرشل و رہائشی پراپرٹی پر 5 فیصد ایف آئی ڈی کی تجویز ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ صوبوں کو گرانٹس کی صورت میں 1 ہزار 777 ارب روپے منتقل ہوں گے ۔انہوں نے بتایا کہ سبسڈی کی مد میں 1 ہزار 363 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ سول حکومت کیلئے 839 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں،ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے 313 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی ترقیاتی بجٹ کیلئے 1400 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، وفاقی ترقیاتی بجٹ میں 274ارب روپے قرض ہوگا۔وزیر خزانہ نے کہاکہ کم از کم ماہانہ تنخواہ 32 ہزار سے بڑھا کر 36 ہزار کرنے کی تجویز ہے ۔وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں سازگار ماحول کیلئے سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتی ہے ، اسلام آباد کے 167 سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سہولیات بہتر بنانے کیلئے رقم رکھنے کی تجویز ہے ۔ انہوںنے کہاکہ طلبا و طالبات کی جسمانی و ذہنی نشوونما کیلئے اسکول مِیل پروگرام متعارف کروا رہے ہیں،اسلام آباد کے 200 پرائمری اسکولوں میں طلبا کو متوازن کھانا فراہم کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پڑھائی اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دینے کیلئے ای لائبریریاں بنائی جائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ اسلام آباد کے 16 ڈگری کالجز کو اعلیٰ نتائج کے حامل تربیتی اداروں میں بدلا جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ 100 اسکولوں میں اعلیٰ چائلڈ ہڈ ایجوکیشن مراکز قائم کیے جائیں گے ۔ انہوںنے کہاکہ دانش اسکول پروگرام اسلام آباد، بلوچستان، آزاد کشمیر اور جی بی تک پھیلایا جا رہا ہے ۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے سال موبائل فون پر ڈیوٹی کی مد میں 24 ارب 81 کروڑ روپے کا ہدف مقرر گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ جائیدادوں پر انکم ٹیکس سے 477ارب 11کروڑ روپے حاصل ہونے کا ہدف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ فور جی کے لائسنس کی فروخت سے 32 ارب 61 کروڑ روپے حاصل ہونے کا ہدف ہے ۔ انہوںنے کہاکہ صوبوں سے سود کی مد میں 96 ارب روپے 35 کروڑ روپے حاصل ہونے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ بجٹ دستاویز کے مطابق اگلے مالی سال کیپٹیل ویلیو ٹیکس 5 ارب روپے اضافے سے 15 ارب 66 کروڑ روپے مقرر کیا گیا ہے ،اسی طرح ورکرز ویلفیئر فنڈ 16 ارب 63 کروڑ 70 لاکھ روپے مقرر کیا گیا ہے ، ان ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 7 ہزار 458 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے اگلے سال کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 1 ہزار 591 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ انہوںنے کہاکہ سیلز ٹیکس کی مد میں 4ہزار 919 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے ۔ انہوںنے بتایاکہ آئندہ مالی سال 2024-25 کے بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 25 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے جبکہ گریڈ 17 سے 22 تک کے ملازمین کے لیے 22 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے ۔اس کے علاوہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 22 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہر کوئی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ راستہ بھت کٹھن ہے اور ہمارے پاس آپشنز محدود ہیں مگر یہ اصلاحات کا وقت ہے ، یہی وقت ہے کہ ہم اپنی معیشت میں نجی شعبے کو مرکزی اہمیت دیں اور چند افراد کے بجائے پاکستان کو اپنی ترجیح بنائیں، ہم معاشی عدم توازن کے گرداب میں پھنسے ہیں، اس کی وجہ وہ اسٹرکچرل فیکٹرز ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری، معاشی پیداوار اور برا مدات دبا ئوکا شکار ہیں، ماضی میں ریاست پر غیر ضروری بوجھ ڈالا گیا جس کی وجہ سے حکومتی اخراجات ناقاب برداشت ہوگئے ، اس کا خمیازہ مہنگائی، کم پیداواری صلاحیت اور کم آمدن والی ملازمتوں کی سورت مین عوام کو بھگتناپڑا۔وزیر نے کہا کہ اس کم ترقی کی سائیکل سے باہر آنے کے لیے اسٹرکچرل ریفارمز کو آگے بڑھانا ہے اور معیشت میں مراعات کو صحیح کرنا پڑے گا جیسا کہ ہمیں ایک حکومت کی جانب سے معاشی تعین کرنے کے بجائے مارکیٹ پر مبنی معیشت کی طرف جانا ہے ، ہمارے معاشی نظام کو عالمی معیشت کے ساتھ چلتے ہوئے برآمدات کو فروغ دینا ہوگا، ہماری معاشی ترقی کو کھپت کی بنیاد کے بجائے سیونگز اور سرمایہ پر مبنی ہونا چاہیے ۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ معاشی نظام میں یہ تبدیلیاں لاتے ہوئے ہمیں مساوات اور شمولیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ، ہمیں درجہ ذیل پہلوں کا جائزہ لیتے ہوئے جرات مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے ۔انہوںنے کہاکہ تمام جدید معیشتوں کی طرح ہمیں بھی وسیع پیمانے پر نجکاری اور ریگولیٹری اصلاحات کرتے ہوئے ریاست کے فٹ پرنٹ کو صرف اہم پبلک سروسز تک محدود رکھنا ہوگا، پیداواری صلاحیت میں بہتری لانے کے لیے اندرون ملک اور بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور ریگولیٹری اور انویسٹمنٹ کلائمیٹ امپروومنٹس کرنی ہوں گی، بروڈ بیس فیئر ٹیکسیشن ریجیم کا قیام بھی انتہائی ضروری ہے جو سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے برآمد مخالف تحریف کو ختم کرے ، توانائی کی قیمت کو کم کرنے کے لیے توانائی کے شعبے میں مارکیٹ پر مبنی اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے ۔، جدید معیشت کے لیے صحت، تعلیم اور اسکل ڈیولپمنٹ کے نظام کی تشکیل انتہائی ضروری ہے ۔انہوںنے کہاکہ بجٹ خسارے کو کم کرنا ہمارا اہم مقصد ہو گا اور اس سلسلے میں ایک منصفانہ ٹیکس پالیسی کی بدولت اپنی آمدن کو بہتر بڑھائیں گے اور غیرضروری اخراجات کو کم کریں گے لیکن یہ کمی کرتے ہوئے ہمیں انسانی ترقی، سماجی تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کو ترجیح دینا ہو گی اور ان میں کمی نہیں لائی جائے گی۔انہوں نے توانائی کے شعبے کو موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پیداواری لاگت کو کم، ایس ای او کی تنظیم نو اور نجکاری کرنی ہے اور اچھی گورننس اور سب کو یکساں مواقع فراہم کر کے نجی شعبے کو فروغ دینا ہے جہاں اس سب کا مقصد آمدن سے زائد اخراجات کے دائمی مسئلے کو حل کرنا ہے ۔فنانس بل میں پیٹرولیم منصوعات پر فی لیٹر لیوی 20 روپے تک بڑھانے کی تجویز دیتے ہوئے لیوی کی حد 60 روپے سے بڑھا کر 80روپے کرنے کی تجویز دی گئی ہے ۔وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین کا ایوان میں شور شرابہ جاری رہا،سنی اتحاد کونسل کے ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور نعرے بازی کی۔ اپوزیشن اراکین نے بجٹ دستاویزات پھاڑ کر کاغذ ہوا میں بکھیر دیے۔
ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ پر حملہ ہیں، عدلیہ کو انتظامیہ کے ماتحت کرنے کی کوشش ناقابل قبول ہے، سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کر دیے گئے ہیں،شخصی بنیاد پر ترامیم کی گئیں،اپوزیشن جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ کے استعفے پر خراج تحسین، جمہوری مزاحمت جاری رہے ...
ہم نے تجارت پر افغان رہنماؤں کے بیانات دیکھے، تجارت کیسے اور کس سے کرنی ہے؟ یہ ملک کا انفرادی معاملہ ہے،ٹرانزٹ ٹریڈ دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کے مکمل خاتمے کے بعد ہی ممکن ہے، دفتر خارجہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے پاکستان کے دشمن ہیں مذاکرات نہیں کریں گے،دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنے وا...
گاؤں دیہاتوں میںعوام کو محکوم بنایا ہوا ہے، اب شہروں پر قبضہ کررہے ہیں،لوگوں کو جکڑاہواہے چوہدریوں،سرداروں اور خاندانوں نے قوم کو غلام ابن غلام بنارکھاہے،عوامی کنونشن سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی ایک خاندان اور چالیس وڈیروں کانا...
خالی گاؤں گدار میں خوارج کی بڑی تعداد میں موجودگی کی مصدقہ اطلاع پر کارروائی قبائلی عمائدین اور مقامی لوگوں کے تعاون سے گاؤں پہلے ہی خالی کرایا گیا تھا، ذرائع سیکیورٹی فورسز نے کامیاب باجوڑ آپریشن کے دوران 22 خوارج کو ہلاک کر دیا۔ ذرائع کے مطابق یہ کارروائی انتہائی خفیہ مع...
میرا ضمیر صاف اور دل میں پچھتاوا نہیں ،27 ویں ترمیم کے ذریعہ سپریم کورٹ پر کاری ضرب لگائی گئی ، میں ایسی عدالت میں حلف کی پاسداری نہیں کر سکتا، جس کا آئینی کردار چھین لیا گیا ہو،جسٹس منصور حلف کی پاسداری مجھے اپنے باضابطہ استعفے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ وہ آئین جسے میں نے تحفظ ...
جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی جگہ کمانڈر آف نیشنل اسٹریٹجک کمانڈ کا عہدہ شامل،ایٔرفورس اور نیوی میں ترامیم منظور، آرمی چیف کی مدت دوبارہ سے شروع ہوگی،وزیر اعظم تعیناتی کریں گے، بل کا متن چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کا عہدہ 27 نومبر سے ختم تصور ہوگا،قومی اسمبلی نے پاکستا...
اسے مسترد کرتے ہیں، پیپلز پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی اے پلس ٹیم ہے،میٹ دی پریس سے خطاب جماعت اسلامی کا اجتماع عام نظام کی تبدیلی کیلئے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوگا، صحافی برادری شرکت کرے امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کراچی پریس کلب کی دعوت پر جمعرات کو پریس کلب میں ”میٹ دی...
ترمیمی بل کو اضافی ترامیم کیساتھ پیش کیا گیا،منظوری کیلئے سینیٹ بھجوایا جائے گا،چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے بعد سپریم کورٹ اور آئینی عدالت میں جو سینئر جج ہوگا وہ چیف جسٹس ہو گا،اعظم نذیر تارڑ قومی اسمبلی نے 27ویں آئینی ترمیمی بل کی اضافی ترامیم کے ساتھ دو تہائی اکثریت سے منظو...
اپوزیشن کا کام یہ نہیں وہ اپنے لیڈر کا رونا روئے،بلاول بھٹو کی قومی اسمبلی میں تقریرکے دوران اپوزیشن اراکین نے ترمیم کی کاپیاں پھاڑ کر اڑانا شروع کردیں اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول بھٹو کی تقریر کے دوران اپوزیش...
اسرائیلی فوج کی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا جاری، تازہ کارروائی میں مزید 3 فلسطینی شہید علاقے میں اب بھی درجنوں افراد لاپتا ہیں( شہری دفاع)حماس کی اسرائیلی جارحیت کی؎ مذمت اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ کارروائی میں غزہ میں مزید 3 فلسطینیوں ...
مبینہ بمبار کا سر سڑک پر پڑا ہوا مل گیا، سخت سیکیورٹی کی وجہ سے حملہ آور کچہری میں داخل نہیں ہوسکے، موقع ملنے پر بمبار نے پولیس کی گاڑی کے قریب خود کو اُڑا دیا،وکلا بھی زخمی ،عمارت خالی کرا لی گئی دھماکے سے قبل افغانستان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کمنگ سون اسلام آبادکی ٹوئٹس،دھ...
آپ کی سوچ اور ڈر کو سلام ، ترمیم کرکے سمجھتے ہو آپ کی سرکار کو ٹکاؤ مل جائیگا، وہ مردِ آہن جب آئیگا وہ جو لفظ کہے گا وہی آئین ہوگا، آزما کر دیکھنا ہے تو کسی اتوار بازار یا جمعے میں جا کر دیکھو،بیرسٹر گوہرکاقومی اسمبلی میں اظہارخیال ایم کیو ایم تجاویز پر مشتمل ...