وجود

... loading ...

وجود
وجود

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

منگل 16 اپریل 2024 5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

ریاض احمدچودھری

بھارت کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر کے اسے وفاق کے زیرِ انتظام علاقہ قرار دے دیا تھا۔پانچ اگست 2019 کے بعد جموں و کشمیر میں متعدد نئے قوانین متعارف کرائے گئے اور پہلے سے موجود کئی قوانین کو تبدیل کر دیا گیا یا ان میں ترمیمات لائی گئیں۔نئے اقامت قانون کے تحت علاقے میں سات سے پندرہ سال تک رہنے والے غیر کشمیریوں کو بھی غیر منقولہ جائیداد کی ملکیت، سرکاری نوکری اور دوسری مراعات حاصل کرنے کا اہل قرار دیا گیا۔ اس قانون میں ایک حالیہ ترمیم کے تحت جموں و کشمیر کے حقیقی باشندوں کے شوہروں یا بیویوں کو بھی اس کی شہریت کے حقوق دیے گئے ہیں۔ناقدین کا کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات کا مقصد جموں و کشمیر کے عوام کو بے اختیار بنانا اور اس مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کو تبدیل کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی سربراہ تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کا ایک دیرینہ منصوبہ ہے۔ لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات نے جموں و کشمیر کے عوام کی تقدیر کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ سابقہ ریاست میں امن و امان بحال ہوا ہے، عسکریت پسندی آخری سانسیں لے رہی ہے، انصاف کا بول بالا ہے اور اس کا ہر خطہ اور ہر طبقہ یکساں ترقی کی منزل پر رواں دواں ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کا ایک عام شہری اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہے۔ پانچ اگست 2019 کے بعد نافذ کردہ لاک ڈاؤن اور پھر کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال کے نتیجے میں عائد کردہ نئے پابندیوں نے جموں و کشمیر کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ تعلیمی نظام درہم برہم ہے اور اس ساری صورتِ حال سے تقریباً ہر کنبہ متاثر ہوا ہے۔
اس عرصے کے دوران کشمیر میں صحافیوں کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ وادی کشمیر میں شورش کے آغاز کے ساتھ ہی یہاں کے صحافیوں کے لیے ہر ایک دن جدوجہد سے بھرپور ہے لیکن پانچ اگست 2019 کے بعد ان کے لیے اپنے فرائض انجام دینا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے۔معلومات تک رسائی پر پابندی، تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کی معطلی اور دوسرے سخت گیر اقدامات کی وجہ سے صحافیوں کو مکمل طور پر ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ اگرچہ مواصلاتی سہولیات بعد میں مرحلہ وار بحال کی گئیں، صحافیوں کو ہراساں اور انہیں غیر جانبدار رپورٹنگ سے باز رکھنے کی کوششیں تیز کی گئی ہیں۔اب بھی خبر حاصل کرنے کے لیے جائے وقوعہ تک رسائی پر قدغنیں عائد ہیں اور نئی حکومتی میڈیا پالیسی کے تحت صحافیوں پر دباؤ بڑھا دیا گیا ہے۔ یہی نہیں صحافیوں کی سرِ راہ مار پیٹ کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔گزشتہ برس اپریل میں تین کشمیری صحافیوں کے خلاف پولیس نے ایف آئی آرز درج کرلی تھیں۔ ان میں سے دو پر جن میں ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ بھی شامل ہے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق سخت گیر قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اس ایکٹ کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
دو جون 2020 کو حکومت نے جس نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا تھا اس کے تحت حکومت کو ‘جعلی’، ‘غیر اخلاقی’ یا ‘ملک دشمن’ خبروں کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور یہ ایسے صحافی یا میڈیا ادارے کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز بھی کر سکتی ہے جو اس کی دانست میں اس قسم کی خبریں لکھنے، شائع یا نشر کرنے کا مرتکب پایا جاتا ہے۔متعلقہ عہدیداروں نے اس سخت گیر میڈیا پالیسی کا دفاع کیا ہے۔ پچاس صفحات پر مشتمل اس پالیسی دستاویز میں لکھا گیا ہے کہ “جموں و کشمیر میں امن و امان اور سلامتی کے مسائل درپیش ہیں، سرحد پار سے حمایت یافتہ در پردہ جنگ کا سامنا ہے اور ایسی صورتِ حال میں یہ انتہائی ضروری ہے کہ امن کو خراب کرنے کی سماج دشمن اور ملک دشمن عناصر کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔”
بھارتی حکومت اور اس کے مختلف اداروں بالخصوص پولیس اور دوسرے حفاظتی دستوں کی طرف سے اطلاعات کی فراہمی محدود ہے بلکہ بعض معاملات میں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بسا اوقات حکام صحافیوں کو آدھا سچ بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ روش آج کی نہیں بلکہ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے۔دوسری جانب حکومتی اداروں، پولیس اور حفاظتی دستوں نے پانچ اگست 2019 کے بعد ہم خیال صحافیوں اور رپورٹروں کے ایک الگ گروپ کا انتخاب کیا ہے جس کی ہمہ وقت حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اہم سرکاری تقریبات میں یہاں تک کہ پریس کانفرنسز کی کوریج کے لیے انہیں اہمیت دی جاتی ہے۔ آزاد صحافیوں کو اس طرح کی سرگرمیوں سے دور رکھنے بلکہ انہیں نظر انداز کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ ایسے صحافیوں سے سرکاری عہدیدار بھی انفرادی طور پر بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ الغرض پانچ اگست 2019 کے بعد حکومت اور اس کے مختلف اداروں اور عہدیداروں کی طرف سے آزاد اور غیر جانبدار صحافیوں کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ ہر لحاظ سے آزاد، خود مختار اور غیر جانبدار صحافیوں کے کام کو متاثر کر رہا ہے۔نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ انڈیا الائنس کا وجود آئین کے تحفظ کے لئے عمل میں آیا ہے۔ الائنس آئین کو دفن نہیں ہونے دے گا۔انڈیا الائنس کو آئین کے تحفظ کے لئے بنایا گیا مجھے ڈر ہے کہ آئین کہیں ختم نہ ہوجائے۔یہاں بھی روس اور چین کی طرح راج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن انڈیا الائنس ایسا نہیں ہونے دے گا۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ وہ امیبدکر جی کے آئین کی حفاظت کریں گے چاہئے اس کے لئے انہیں جان بھی کیوں نہ دینا پڑے۔انڈیا الائنس مضبوط ہے اور کوئی بھی اس کو توڑ نہیں سکتا ہے۔چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ‘چین کے ساتھ بات چیت کا کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا ہے، چین آگے بڑھ رہا ہے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا ہے۔ نیپال کے زیر قبضہ بھارتی زمین کے بارے میں کچھ نہیں کیا اور وزیر اعظم نریندر مودی پر ہندوستان کی زمین بنگلہ دیش کو دی ہے۔ چین نے لداخ میں ہماری زمین پر قبضہ کیا ہے اور کل انہوں نے اروناچل پردیش کے گاؤں کے نام بھی لئے ہیں اور بی جے پی اس بارے میں کچھ نہیں کہیں گے۔جب آپ کسی کی طرف انگلی اٹھائیں، یاد رکھیں کہ تین انگلیاں بھی آپ کی طرف اٹھتی ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر