وجود

... loading ...

وجود
وجود

مختار انصاری کی موت کا معمہ

پیر 01 اپریل 2024 مختار انصاری کی موت کا معمہ

معصوم مرادآبادی

سابق ممبر اسمبلی مختار انصاری کی موت سوالوں کے گھیرے میں ہے ۔ وہ طبعی موت مرے ہیں یا پھر انھیں زہر دیا گیا ہے ، اس راز سے شاید ہی کبھی پردہ اٹھ پائے ، کیونکہ اس وقت اترپردیش میں جو لوگ اقتدار میں ہیں، وہ حقائق کوبے نقاب کرنے سے زیادہ انھیں دفن کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ مختارانصاری کی موت پر اٹھائے جانے والے جائز سوالوں کے دباؤ میں فی الحال عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا گیا ہے ، لیکن اس قسم کی تحقیقات کا مقصدچونکہ لیپا پوتی کرنے سے زیادہ نہیں ہوتا، اس لیے ان کے نتائج سے لوگ پہلے سے ہی واقف ہیں۔ ایسی ہی تحقیقات گزشتہ سال سابق ممبرپارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے بارے میں بھی بٹھائی گئیں تھیں، جنھیں پولیس کی تحویل میں تین نوجوانوں نے گولیوں سے بھون دیا تھا اور اس کی باقاعدہ ویڈیو بھی بنی تھی، لیکن تحقیقات کے بعد اسی پولیس کو کلین چٹ دے دی گئی جس کی تحویل میں دونوں بھائیوں کا قتل ہوا تھا۔
مختار انصاری کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں ان کی موت دل کا دوررہ پڑنے سے بتائی گئی ہے ، جبکہ ان کے گھر والوں نے انھیں زہرر دے کر مارنے کا سنگین الزام لگایا ہے ۔ مختار نے خود یہ بات کہی تھی کہ انھیں جیل میں میٹھا زہردیا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان کے جسم میں جان باقی نہیں رہی ہے ۔اس میٹھے زہر کے بارے میں جیل انتظامیہ اور عدالت کو بھی مطلع کیا گیا تھا اور بعد میں انھیں آئی سی یو بھی داخل کیا گیا تھا، لیکن باقاعدہ علاج نہیں کرایا گیا،جس کے نتیجے میں ان کی موت ہوگئی۔مختار انصاری کے بیٹے عمر انصاری نے باندہ کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دے کر اپنے والد کا پوسٹ مارٹم ایمس کے ڈاکٹروں سے کرانے کی التجا کی تھی، لیکن اسے ٹھکرادیا گیا۔عمر کا کہنا ہے کہ گزشتہ21/مارچ کو بارہ بنکی اور باندہ کی ضلع عدالتوں کو ان کے والد نے اپنے وکیل کے ذریعہ مطلع کیا تھا کہ انھیں جیل کے کھانے میں میٹھا زہر دیا جارہا ہے ۔ زہر دینے کا پہلا واقعہ چالیس روز قبل ہوا تھا، جس کے بعد مختار انصاری کی صحت مسلسل گرنے لگی تھی۔اسی کے بعد انھوں نے عدالت کو تحریری طورپر مطلع کیا تھا، لیکن کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ جب مختار انصاری نے پچھلی پیشی کے دوران مجسٹریٹ کے روبرو اپنی جان کو لاحق خطرے کے بارے میں تحریری طورپر مطلع کیا تھا تو اس کی حفاظت کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد جب اس نے جیل کے کھانے میں زہر دینے کی بات کہی تھی تو اس کی چھان بین کیوں نہیں کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے مختارکی موت پر سوال اٹھائے ہیں اور اس کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے ۔مختار کی موت کے بعد اترپردیش میں نظم ونسق کی مشنری کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ پورے صوبے میں حکم امتناعی نافذ کردیا گیا ہے ۔ مؤ اور اس سے متصل اضلاع میں انتظامی مشنری ہنگا می حالات سے دوچارہے ۔ یہ علاقے مختار انصاری کی سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں۔پوروانچل کا یہ علاقہ جس میں غازی پور، وارانسی، چندولی، مؤ، اعظم گڑھ اور بلیا جیسے اضلاع شامل ہیں، یہاں مختار انصاری کی حیثیت بے تاج بادشاہ کی رہی ہے ۔ کئی دہائیوں تک ان علاقوں میں جو سیاسی دبدبہ مختار انصاری نے قایم کیا تھا، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ انھوں نے 1996میں پہلا الیکشن بی ایس پی کے ٹکٹ پرپارلیمنٹ کالڑا تھا۔ تب انھیں گھوسی پارلیمانی حلقہ سے کانگریس کے قدآورلیڈر کلپ ناتھ رائے کے خلاف میدان میں اتاراگیا تھا، مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ اس کے بعد بی ایس پی نے انھیں اسی سال مؤ صدر حلقہ سے اسمبلی کے الیکشن میں اتارا اور وہ کامیاب ہوگئے ۔ انھوں نے لگاتار چار بار اسی حلقہ سے کامیابی حاصل کی۔تین بار وہ جیل سے الیکشن لڑکر کامیاب ہوئے ۔ مگر 2022کے چناؤ میں انھوں نے اپنے بیٹے کو امیدوار بنایا، جو اس وقت یوپی اسمبلی کا ممبر ہے ۔
مختار انصاری کا جسد خاکی ان کے گاؤں محمدپورکے آبائی قبرستان میں سپردخاک کردیا گیا ہے ۔اہم بات یہ ہے کہ ان کے جنازے میں علاقہ کے ہندواور مسلمان یکساں تعداد میں موجود تھے ۔ ان کی موت کے اگلے دن یعنی جمعہ کو ان کے گاؤں میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہندواور مسلمان دونوں ہی غمزدہ تھے اور ان کی یاد میں اپنے کاروبار بند رکھ کرغم کے آنسو بہارہے تھے ۔ مختار انصاری ایک ہر دلعزیز لیڈر تھے اور پوروانچل میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ وہ غریبوں کے مسیحا کہلاتے تھے اور اس میں کوئی فرقہ وارانہ تفریق نہیں تھی۔ہندوؤں اور مسلمانوں میں وہ یکساں مقبول تھے ۔مختار انصاری کا تعلق غازی پور کے ایک معزز گھرانے سے تھا۔وہ نامور مجاہد آزادی ڈاکٹر مختاراحمدانصاری کے پڑپوتے تھے ۔ڈاکٹر انصاری نہ صرف آزادی سے قبل کانگریس پارٹی کے صدررہے بلکہ وہ ترکی میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد وہاں طبی مشن لے کر بھی گئے تھے ۔مختار انصاری اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری میں ایک ہی مماثلت تھی کہ دونوں کی مونچھیں ایک جیسی تھیں۔دوسری طرف مختار انصاری کے ان بریگیڈیر عثمان کے نواسے تھے ، جنھیں ہندوستانی فوج میں عظیم قربانی دینے کے عوض پرم ویرچکر سے نوازا گیا تھا۔ خودمختارکے والد ایک بہترین کرکٹر تھے ۔ ان کے خاندان کا جرائم کی دنیا سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ لیکن ایک مقامی مافیا نے ان کے گھروالوں کو نشانہ بنایا جس نے مختارانصاری کوجرائم کی دنیا میں دھکیل دیا۔ ان پر ساٹھ سے زائد مقدمات قایم تھے ، جن میں دو مقدموں میں انھیں عمرقید کی سزا ہوگئی تھی۔ مختار انصاری 2005سے مسلسل سلاخوں کے پیچھے تھے اور جیل میں رہ کر ہی انھوں نے اپنے حلقہ انتخاب مؤ سے اسمبلی کے تین الیکشن جیتے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اترپردیش میں یوگی راج آنے کے بعد مافیا راج ختم کرنے کے لیے جو کارروائیاں انجام دی گئی ہیں، ان میں مسلمان خاص نشانے پر ہیں۔سابق ممبرپارلیمنٹ عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے پولیس حراست میں قتل نے جن سوالوں کو جنم دیا تھاوہی سوال اس وقت مختار انصاری کی موت سے بھی پیدا ہوئے ہیں۔ظاہر ہے جب کسی قیدی کا قتل پولیس حراست میں ہوتا ہے تو اس پر اٹھنے والے سوالوں سے حکومت اپنا دامن نہیں بچاسکتی۔ جب اس ملک میں قانون کی حکمرانی کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے عدالتی نظام موجود ہے تو پھر اس طرح ماورائے عدالت قتل کیوں ہورہے ہیں۔یہی سب سے بڑا سوال ہے ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مختار انصاری کی پرُاسرار موت پر گودی میڈیا میں جو جشن منایا جارہا ہے ، ایسا ہی جشن عتیق احمد اور ان کے بھائی کے بہیمانہ قتل پربھی منایا گیا تھا۔مختارانصاری کے جرائم کی داستانیں بھی ویسا ہی مرچ مسالہ لگاکر نشر کی جارہی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک طبقہ کو نفسیاتی سکون پہنچانے اور دوسرے کو نفسیاتی خوف میں مبتلا کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے کیا جارہا ہے ۔ہم نہ تو
مختار انصاری اور نہ ہی عتیق احمد کی مجرمانہ سرگرمیوں کے طرفدار ہیں۔لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مجرموں کو ٹھکانے لگا نے کے لیے جو نیا طرز اختیار کیا گیا ہے ، اس کا قانونی اور اخلاقی جواز کیا ہے ۔دوسرا سوال یہ ہے کہ جب سے یوپی میں یوگی راج آیا ہے تب سے ایک ہی فرقہ کے مافیاؤں کو ٹھکانے لگانے کی روش کیوں اختیار کی گئی ہے ۔ نہ صرف انھیں راستے سے ہٹایا جارہا ہے بلکہ جو بھی مسلمان اپنے اپنے علاقہ میں سیاسی طورپر بارسوخ ہیں وہاں ا ن کی اینٹ سے اینٹ بجائی جارہی ہے ۔ اس کی ایک مثال اترپردیش میں سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر محمداعظم خاں ہیں،جو اس وقت سیتاپور جیل میں قید ہیں۔ یوں تو انھیں سزا اپنے بیٹے کا جعلی سرٹیفکیٹ بنوانے کے جرم میں ہوئی ہے اور اس معاملے میں ان کا بیٹا عبداللہ اعظم اور ان کی بیوی تزئین فاطمہ بھی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔مگر ان کے خلاف رامپور میں سو سے زائد مقدمات درج ہیں، جن میں مرغیاں، بکریاں، بھینسیں اور کتابیں چوری کرنے تک کے مقدمات ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ اعظم خاں اترپردیش میں مسلمانوں کی ایک مضبوط آواز تھے ، جسے اب خاموش کردیا گیا ہے ۔ اتنا ہی نہیں اترپردیش میں کئی اور مسلم ممبران اسمبلی بھی جیل میں ہیں۔ ان میں کانپور کے عرفان سولنکی اور کیرانہ کے ممبراسمبلی ناہید حسن کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں کے بااثر سیاست دانوں میں شمار ہوتے ہیں، لیکن مختلف مقدمات میں ماخوذ کرکے انھیں سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا گیا ہے ۔مسلمانوں کو سیاسی اچھوت بنادئیے جانے کے بعد ان کی قیادت کے صفائے کی مہم اس لیے چل رہی ہے تاکہ وہ پوری طرح بے یار ومددگار ہوجائیں۔ کچھ قائدین کی زبانیں کاٹ لی گئی ہیں اور کچھ کو اس طرح خاموش کیا جا رہا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر