وجود

... loading ...

وجود
وجود

تیئس مارچ کے تمغے۔۔لمحہ فخریہ یا لمحہ فکریہ؟

اتوار 31 مارچ 2024 تیئس مارچ کے تمغے۔۔لمحہ فخریہ یا لمحہ فکریہ؟

روبینہ فیصل

جب ہم معاشروں میں، ملکوں میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو ا سکا تعلق ظاہری نہیں بلکہ روحانی تبدیلی سے ہو تا ہے ۔ جسے کایا پلٹ
کہتے ہیں جسے ضمیروں کا جاگ جانا کہتے ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی یاانقلاب کیوں نہیں آسکتا؟ ا سکی وجہ یہ نہیں کہ وہاں کی سر زمین زرخیز نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کا ضمیر نہ مکمل بیدار ہے اور نہ ہی مکمل طور پر مردہ۔ وہ دوسروں کی اخلاقیات کے لئے جاگتا ہے مگر جہاں اپنے چھوٹے سے مفاد کی بات بھی آجائے تو وہاں گہری نیند سو جاتا ہے بلکہ مر ہی جاتا ہے ۔
یہ آدھا کچاآدھا پکا ضمیر، یہ آدھی سوئی آدھی جاگی روح،یہ معاشرے کی اجتماعی بیداری ہو نے ہی نہیں دیتے ۔ تمغہ ملنا فخر کا مقام ہوتا ہے مگر ایسے صدر اور ایسی حکومت سے ایوارڈ لینا لمحہ فکریہ ہے اور یہ میری اس بات کی توسیع ہے کہ ہماری قوم کا ضمیر حالت نزاع میں ہے نہ مکمل مرتا ہے نہ جاگتاہے ۔۔
آٹھ فروری کو ہونے والے جعلی الیکشن اور اس کے نتیجے میں بننے والی غیر قانونی نا جائز پارلیمنٹ کسی بھی باشعور انسان کے لئے ناقابل قبول ہے ۔ اور اسی پارلیمنٹ کا منتخب شدہ صدر کچے کے ڈاکوؤں سے بھی بدتر ہے کہ اتنی دیدہ دلیری سے تو وہ بھی ڈاکہ نہیں ڈالتے ۔چوری شدہ عوامی مینڈیٹ سے بنی پاکستان کی حکومت دھبہ ہے ،اور اسے قبولیت کی سند دینے والے اس دھبے کا حصہ ہیں۔اور ایسی حکومت سے ایوارڈ قبول کرنا اصل میں انہیں قبولیت دینے کے مترادف ہے ۔ تئیس مارچ کو جو ایوارڈز کی تقسیم ہو ئی، اسے دیکھ کر کو ئی اندھا بھی یہی کہے گا کہ اندھا بانٹے ریوڑیاں اپنوں اپنوں میں۔۔ لیکن جو پچھلے دو سال میں ہو نے والے جبر اور فسطائیت کا حصہ تھے وہ تو یہ ایوارڈ قبول کریں کہ ان کا حق بنتاہے کہ ہم مزاج لوگ اکٹھی ہی پرواز کرتے ہیں مگر افسوس مجھے ان لوگوں پر ہے جو اس ناجائز حکومت کا نہ تو حصہ ہیں اور نہ ہی اس کو پسند کرتے ہیں مگر بڑے فخر سے سینہ تان کر جا کر ایوارڈ وصول کر آتے ہیں۔ یعنی برائی کے ساتھ ہاتھ ملا آتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو نے کہا تھا ”میرا افسردہ دل لرزتا ہے کہ یہ متلون مزاج سرکار خوش ہو کر ایک تمغہ میرے کفن سے ٹانگ دے گی، جو
میرے داغ عشق کی بہت بڑی توہین ہو گی”۔جین پال سارتر نے انیس سو چونسٹھ میں ادب کا نوبل پرائز لینے سے انکار کردیا تھا کہ میں ادارہ گری کا شکار نہیں ہونا چاہتا اور اس طرح میں آزادی کے ساتھ لکھ نہیں سکوں گا۔ میں نہیں کہتی کہ ہر دوسرا انسان ان دو مصنفین کی طرح ہائی مورل گراونڈز پر ہی کھڑا ہو۔ مگر انسان میں اتنی اخلاقی جرأت تو ہو نی چاہئے کہ اگر وہ غلط کو غلط نہیں کہہ سکتا تو کم از کم ایسے کسی عمل کا بلا واسطہ حصہ بننے سے تو خود کو پرے رکھ سکتا ہے ۔ اسلام کا بھی یہی کہنا ہے کہ اگر ظلم کو ہاتھ سے نہیں روکنے کی طاقت رکھتے تو زبان سے بُرا کہو،وہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنے دل میں ہی اس کو بُرا سمجھو۔دل میں برا سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آگے کم ازکم بکیں یا جھکیں تو نا۔۔ ایسے ایوارڈ خریدنے ،زبان بندی کے لئے بھی دیے جاتے ہیں۔ یا تو آپ کہہ دیں کہ پاکستان میں اس وقت یا جو کچھ پچھلے دو سالوں میں ہوا وہ سب قانونی، جمہوری اور انسانی تھا تو آپ سے کوئی سوال نہیں بنتا لیکن اگر آپ اس سب کو بُرا سمجھتے ہیں تو آپ ایسے لوگوں سے ، ایسی حکومت سے کوئی بھی اعزاز کیسے وصول کر سکتے ہیں؟
کینیڈا کی ایم پی سلمیٰ زاہد کو ملنے والا قائد اعظم ایوارڈ اپنے اندر اور بھی بہت سے سوالات رکھتا ہے ۔جب ان کو ایوارڈ دیا جارہا تھا اس وقت پیچھے ایک بیان چل رہا تھاکہ انہوں نے ہمیشہ فلسطین اور کشمیر میں ہو نے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ ایسی آواز کا کیا فائدہ جو ان لوگوں کے لئے تو اٹھے جو ہم سے بہت دور ہیں مگر ان مظلوموں کے لئے خاموش رہے جن کا ہم پر کہیں زیادہ حق ہے کہ وہ ہمارے ہم وطن ہے ۔ اسلام کا بھی حکم ہے کہ”خیرات اپنے گھر سے شرو ع کرو”
سلمیٰ زاہد نے یہ ایوارڈ قبول کر کے نہ صرف کینیڈین پاکستانیوں کی ظلم کے خلاف آواز کو کمزور کیا ہے بلکہ ناانصافی، چوری اور ظلم پر مبنی پاکستانی حکومت کو قبولیت دی ہے ۔زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ سلمیٰ کا تعلق کینیڈا کی سیاست سے ہے۔اور وہ ان معاملات کو ہم عام شہریوں سے زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتی ہیں۔ ان سے زیادہ کون اصلی جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی کو سمجھتا ہوگا اور اگر وہ کینیڈا جیسے ملک میں رہ کر،یہاں کی سیاست میں عملی حصہ لے کر بھی پاکستان میں ہو نے والے غیر جمہوری، غیر قانونی اور غیر انسانی رویے کو قبول کر رہی ہیںتو پھر جان جائیے کہ صدیوں تک ہمارے ضمیر یونہی آدھے زندہ آدھے مردہ پڑے رہیں گے جو اپنے چھوٹے سے مفاد کی خاطر تو ہر ظلم سے چشم پوشی کرتے رہیں گے مگر دوسروں کے لئے اخلاقیات کے پیمانے بلند سے بلند کر تے رہیں گے ۔اپنی قوم میں تبدیلی نہ آنے کی مجھے تو ایک ہی وجہ سمجھ آتی ہے کہ ہم پاکستان کو شریف خاندان کے نظرئیے پر کہ”پاکستان میں یہی سب کچھ ہو تا ہے اور ایسے ہی ہوتا ہے” کی بنیاد پر ہی قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم جب تبدیلی کے نعرے لگاتے ہیں تو اندر سے شاید اللہ سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ یااللہ کہیں سچ مچ ہی ہماری دعا قبول نہ کر لینا۔
اداکارہ نرگس حج کر کے آئیں تو اسٹیج ڈرامہ میں مستانہ انہیں کہتا ہے کہ”یہ تو جب دوران حج اپنے سدھرنے کی دعا مانگتی تھی تو ساتھ ہی دل میں کہتی تھیں یااللہ کہیں میری دعا قبول ہی نہ کر لینا، میں نیک ہو گئی تو میرا کیا بنے گا”؟تو بس ہمارا بھی تبدیلی کا نعرہ مارتے ،پاکستان کو بدلنے کی خواہش کرتے یہی خوف ہو تا ہے کہ اگر سچ مچ پاکستان بدل گیا تو ہماری ان مراعات کا، ان دو نمبر سے اوپر جانے کے راستوں کا کیا بنے گا۔تو اسی لئے اللہ بھی ہماری ظاہری دعاؤں کو نہیں ہماری اندرونی نیتوں کو دیکھتے ہو ئے ہمیں اسی حال میں رکھے ہو ئے ہے ۔۔
بیر ون ملک پاکستانیوں کی برین واشنگ کے لئے یہاں کبھی سیدہ عارفہ زہرا جیسی شائستہ سرکاری خادمہ اور کبھی جاوید چوہدری اوروڑائچ جیسے استحصالی نظام کے سہولت کاروں کو بھیجا جاتا ہے ۔رجیم چینج کے بعد بیرون ملک پاکستانی، ناجائز حکومت پاکستان کے گلے میں کسی ہڈی کی طرح پھنسے ہو ئے ہیں اور جب وہ قابو نہیں آرہے تو اب یہاں کے مقامی سیاستدانوں کو نواز کر ایک نئے طریقے سے اپنے آپ کو قبولیت بخشوائی جا رہی ہے ۔ کاش کوئی سلمیٰ زاہد صاحبہ کو سمجھا دیتا کہ ایسے ایوارڈ لینے سے آپ کے قد میں اضافہ نہیں بلکہ کمی ہوئی ہے ۔
جہاں ہمیں پاکستان میں ہو نے والی کھلم کھلا بد معاشی، ہٹ دھرمی، عوامی مینڈیٹ پر ڈاکے کی مذ مت کر نے کے لئے کینیڈا میں ایم پیز کو ملنے اپنے پوا ئنٹ آف وویوز سے آگاہ کر نے کی ضرورت ہے ،جہاں ہم ای میلز، کر کے یہاں کے لوکل ممبرز آف پارلیمنٹ کو اپنے مدعے سے آگا ہ کر نے کی کوششوں میں لگے ہو ئے ہیں وہاں ہماری ہی پاکستانی بہن جا کر حکومت کے ہاتھوں ایوارڈ وصول کر کے ہمیں پشت دکھاتی نظر آتی ہیں۔اور میں ان لوگوں پر بھی حیران ہو ں جو سب رجیم چینچ کو سمجھ رہے ہیں، جو احتجاج کر رہے ہیں جو ساتھ مل کر آواز اٹھا رہے ہیں
وہ بھی اس ایوارڈ پر مبارکبادیں دے رہے ہیں۔ تو کیا اپنے ذاتی تعلقات اور ذاتی مفاد ہی اہم ہیں؟ کہاں گئیں وہ اخلاقی جراتیں اور قومی وسیع تر مفاد۔۔ اگر یہی سب کچھ کر نا ہے تو پاکستان کے نظام کو، جبر اور فسطائیت کو رسمی برا بھلا ہی کیوں کہنا۔
کینیڈئن پاکستانی کمیونٹی کو اس حکومت کے ہاتھوں آپ کی ایم پی کو سرکاری تمغہ ملنے پر ڈھیروں مبارکباد کہ آپ نے ارشد شریف، ظل
شاہ کی شہادتوں، عورتوں کی بے حرمتیوں، بے گناہ قیدیوں پر تشدد،آپ کے بچوں کی خاطر ڈٹ جانے والے لیڈر کی تذلیل، اس پر قاتلانہ حملے ، اس کی قید،سب کو ہنسی خوشی تسلیم کر لیا ہے ۔ مبارک ہو۔۔۔
اس پر فکر نہیں اب فخر کریں کہ پاکستان ایسے ہی چلے گا۔۔ساؤتھ ایشیا ئی امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو کی امریکی کانگریس میں پاکستان کے معاملے میں پہلی دفعہ پیشی، اہم تاریخی واقعہ ہے ۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ ان پاکستانی امریکیوں کی کوششوں کا نتیجہ تھا جو پاکستان میں فسطائیت، نا انصافی، بدترین انسانی حقوق کی پامالی، عورتوں اور بچوں پر ریاست ہی کے ہاتھوں ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے۔بقول ای تجزیہ کار؛
”امریکہ میں ایسا ہونا، پاکستانی امریکن کمیونٹی کی گہری نیند سے جاگ جانے کی نشانی ہے ۔۔۔وہاں دس پندرہ کانگرس مین نے حصہ لیا لیکن ان میں سے صرف دو کانگریس مین ایسے تھے جنہوں نے بالکل نپے تلے سوالات کر کے ڈونلڈ لو کو باندھ کے رکھ دیا تھااور اسی پریشر میں ڈونلڈ لو کو تسلیم کر نا پڑا کہ پاکستان میں الیکشن دھا ندلی شدہ تھے ۔ پاکستانی امریکن کمیونٹی، گزشتہ پچاس سال سے پاکستانی ایمبیسی اور مقامی سیاستدانوں کے ہاتھوں بے وقوف بنتے رہے ہیں۔ اگر دو کانگریس مین ٹیکساس سے جن کا تعلق تھا، اگر وہ یہ سب کر سکتے تھے تو باقی لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ان کے کانگریس مین ان کی سپورٹ، فنڈ ریزنگ اور بر یفنگ کے باوجود اندر جا کر صرف وقت ہی کیوں ضائع کرتے رہے ۔۔ تو سوچئے ، ڈرائنگ روم میں فخریہ ڈسپلے کر نے کے لئے صرف اپنے بچوں کی ان کے ساتھ تصویریں ہی نہیں بنوانی اپنا موقف بھی واضح کرنا ہے ۔۔ لاکھ لاکھ ڈالرز ریز کر کے صرف تصویر اتروا کر کام پورا نہیں ہو تا۔ اپنا سیاسی نظریہ سامنے رکھنا ہوتا ہے ۔ پاکستانی امریکن کمیونٹی کا اب اپنا ایک ایجنڈا ہے ۔ وہ صرف عمران خان یا تحریک انصاف نہیں بلکہ پاکستانی شناخت ہے ۔۔۔ایک شناخت، ایک ضمیر”
مختصر یہ کہ اس وقت پاکستانی کمیونٹی دنیا میں جہاں جہاں بھی آباد ہے وہاں وہاں سے یہ آواز اٹھنی چاہیے کہ جو کچھ ان دو سالوں میں
پاکستان میں جبر، فسطائیت، خواتین، بزرگوں کی بے حرمتی،بچوں کو ہراساں کرنا، ہوا ہے اور ابھی بھی جاری ہے ۔وہ بے شرمی اور ڈھٹائی ہے اور بالکل ناقابل قبول ہے ۔ فل ا سٹاپ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر