وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی کا جوان

جمعه 08 مارچ 2024 کراچی کا جوان

زرّیں اختر

معاشرہ جس ڈگر پہ پچھلے پچاس پچھتر سال سے چل رہا ہے ،نہ حالات سدھر رہے ہیں نہ پٹری بدل رہی ہے ؛سوال یہ ہے کہ ایسا کب تک چلے گا؟ ایسا تب تک چلے گا جب تک کہ ۔۔۔انقلاب ونقلاب کوئی نہیں ،یہ خیال ہی اپنے ذہن سے نکال دیں،میں ایسی کوئی پیش گوئی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی کہ کہوں کہ انقلاب کا دور گزر گیا،ہاں میں یہ ضرور سمجھتی ہوںکہ اسے گزر جانا چاہیے۔ شاید پاکستان تحریک ِ انصاف کے رہنما کے ذہن میں بھی ایسا کوئی خیال ہو جوانہوں نے قوم کو انقلاب کا نعرہ دینے کے بجائے تبدیلی کا نعرہ دیا۔ دنیامیں جہاں انقلاب آنے تھے آچکے ،انقلاب اپنے جلو میں کتنی اکھاڑ پچھاڑ لاتا ہے ،کتنی دھول مٹی اڑتی ہے ،کتنے عرصے میں گرد بیٹھتی ہے اور جو بدلا ہوا منظر نظر آتاہے وہ اپنے اندر تبدیلیوں کی قبولیت کی کتنی قوت اور ان کو رد کرنے کی طاقت رکھتاہے ،یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آشکار ہوتاہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ انقلاب کامیاب نہیں ہوئے یا انہیں ناکام کہاجائے ،لیکن ایک ایک آدمی کی کہانی کہ وہ آدمی خاص بھی ہوسکتاہے یعنی انقلابی عمل کارہنما یاکارکن اور مجھے اس کی عام زندگی کی داستان سے اتنی دل چسپی نہ بھی ہو لیکن اس سماج کا عام آدمی بچہ ، بوڑھا ،جوان ،عورت ۔۔۔وہ انقلاب ان کی سماجی و نفسیاتی زندگی پر کیا کیااور کیسے کیسے اثرات مرتب کرتاہے اوروہ ہمہ گیر اثرات کتنے وقتی اور کتنے دیرپا ہوتے ہیں۔۔۔یہ سب جاننے اور سمجھنے کے لیے دفتر کے دفتر چاہئیں۔
مثال کے طور پر ایک طویل عرصے تک تو مجھے جیسے ‘ہجرت ‘ کے بارے میں کچھ خبر ہی نہیں تھی ۔ سراسر لاعلم ۔۔۔نصابی کتابوں کے ذریعے جو تاریخ ہم تک پہنچتی ہے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے شروع ہوکر 1857کی جنگ ِ آزادی سے ہوتی ہوئی ،گاندھی و جناح یا کانگریس و مسلم لیگ سے گزرتی ہوئی ہندوستان کی تقسیم ،پاکستان و بھارت کے قیام اور ١٤ ِ اگست ١٩٤٧ء پاکستان زندہ باد کے نعرے پر ختم ہوجاتی ہے۔ اسی میں ہم کچھ اور واقعات بھی پڑھ لیتے ہیں جس کے نتیجے میں مسلمان حملہ آور فاتحین ،انگریز غاصب ،ہندو سازشی اور مسلمان مظلوم قرار پاتے ہیں۔ یہ نصاب ایک خاص قسم کی قوم کی ذہنی و نظریاتی تشکیل کے لیے مرتب کیاگیا۔ جو نصاب سے دور تھے ان کے لیے سرکاری ریڈیو ،سرکاری ٹی وی اور سرکاری ذرائع ابلاغ تھے ۔ نتیجہ یہ کہ جو نصاب پڑھتے تھے او ر جو نصاب سے دور تھے دونوں میں ”قدرِ مشتر ک” مذہبی جذباتیت تھی اور کیوں کہ یہ ملک بھی مذہب کے ”نام” پر حاصل کیاگیا اس لیے اس ‘قدر ‘کو اتنا فروغ ملا کہ مکالمے کی ‘قدر’ کھوگئی ۔
یہ ریڈیو اور ٹی وی کا اعجاز ہے کہ اس وقت یہ گانا ذہن میں گونجا:
جائیں تو جائیں کہاں
سمجھے گا کون یہاں
درد بھر ے دل کی زباں
جائیں تو جائیں کہاں
سرکاری ذرائع ابلاغ سے کچھ نہ کچھ نکل کے آتارہا۔ اس لیے کہ ان سے وابستہ افراد بھی مختلف نظریات کے حامل تھے ،لیکن جب انتہاپسندی کہ ‘میں ہی ٹھیک ہوں ‘در آئی تو پہلے تو معاشرے کی صحت متاثر ہونا شروع ہوئی ،پھر گرنی اور اب تو جیسے چلابھی نہیں جاتاوالی کیفیت ہے ۔ یہ معاشرہ دو انتہائوں پر ہے اورمکالمہ گویا کفر۔ وہ اذہان جو متوازن سوچ کے حامل ہیں اور جو دریا کے دوپاٹوں کے درمیان بند باندھ سکتے ہیں ان کو مذہبی طبقہ رد کردیتاہے ۔یہ ‘رد’ معاشرے کو بڑا مہنگا پڑا، اس کی قیمت چکاتے چکاتے نسلیں کھپ گئیں ۔جب تک مذہبی طبقہ اشرافیہ بننے کے خواب دیکھتارہے گا اور مقتدرہ کو اس میں اپنا فائدہ نظر آتارہے گاتب تک نہ کسی سماجی تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے اورنہ ‘نمونے میں تبدیلی ‘ کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتاہے ۔ نمونے میں تبدیلی ‘پیراڈائم شفٹ’ کا اُردو ترجمہ کیا ہے۔
حکومت ایک بڑا کام کرکے دکھادے اور وہ ہے ‘مساوی نظام ِتعلیم’۔اب اگرمیں یہاں لفظ سیکولر استعمال کروں گی تو پھر مشکل ۔ لفظ سیکولر کا جو تصور میرے ذہن میں بنا اور واضح ہواوہ اسلامی نظریاتی کونسل سے شائع کردہ مجلہ’ اجتہاد’ کو پڑھ کے بنا جس کے مطابق سیکولر ہونے کا مطلب لادینیت نہیں بلکہ یہ ہے کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں۔
علم ِ ریاضی کے چار بنیادی قاعدوں یعنی جمع، تفریق،ضرب اور تقسیم میں کیوںہم نے تفریق اور تقسیم ہی سیکھی بجائے جمع اور ضرب کے توتقسیم کا نتیجہ ملاحظہ کریں ۔ پہلے ہندو اور سکھ تھے ،اب شیعہ،سنی ہیں اور جو سنی ہیں وہ بریلوی ،دیوبندی اور وہابی بھی ہیں صرف سنی نہیں ہیں،اس کے ساتھ ساتھ وہ مہاجر ،سندھی ،پنجابی ،پٹھان اور بلوچی ہیں،اور جب ہم یہ ہیں توسوچیں آغاخانی ،بوہری اور پارسی ہونا کتنا مشکل ہے اور یہودی ہونا تو ناممکن ہی ہے ،حالاں کہ یہ سب ہیں ،بس ہمیں نہیں ماننا،ہم مر جائیں گے پر مانیں گے نہیں ،کیوں ؟ کیوں کہ ہم نے کہ ماننا سیکھا ہی نہیں،ہم نے دیکھا ہی نہیں، ہمیں سکھایا ہی نہیں گیا۔پاکستان ٹیلی وژن کا مقبول مزاحیہ پروگرام ففٹی ففٹی میں ایک خاکہ آتاتھا جس میں اسمعیل تارا نانا ابا کے روپ میں سفید لمبی داڑھی اور زیباشہناز فراک پہنے اور دو پونیاں بنائے ،اس میںزیبا شہناز کہتی ہے ”میں نہ مانوں” اور اسمعیل تارا ہنستے ہوئے جواب میں کہتے ہیں’ارے تو مان یا نہ مان پاگل’۔
قارئین کرام !آپ یقین کریں یہ سب مندرجہ بالاطویل تمہید ایک خبر کا نتیجہ ہے اور وہ خبرلاریب حسین کا قتل ہے ۔یہ بھی عمرانی تحقیق کا موضوع ہوسکتاہے کہ الفاظ ‘اسٹریٹ کرائم’ خبری اصطلاح کے طور پر کب متعارف ہوئی ؟وقت گزرنے کے ساتھ یہ ‘اسٹریٹ کریمنل’ کیوں مضبوط ہوتے گئے اور کیسے نوبت قتل تک پہنچ گئی ؟ یہ بد صورت اور بھیانک حقیقت اس معاشرے کی ہولناک سچائی ہے کہ اگر لوٹ مار میں مزاحمت کی تو نتیجہ قتل ،اب کرلیں”وزیرِ اعلیٰ ”جو کرناہے۔ ہم نے قانون سے لاقانونیت کا سفر طے کیاہے ، تو یہ شروع کہاں سے کب اور کیسے ہوا؟ لگا کہ :
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
لیکن آخرکب تک؟


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر