وجود

... loading ...

وجود
وجود

انتقال پرملال

اتوار 18 فروری 2024 انتقال پرملال

ماجرا/محمد طاہر

”مرحوم” ، اچھے بھلے لندن میں زندہ تھے، مگر پاکستان آپدھارے، جہاں اُن کا سیاسی انتقال 8فروری کو ہوا۔ ”مرحوم ”کا تعارف ووٹ کو جوتا اور جوتے کو پالش دکھانے کے مترادف ہے۔
وطنِ عزیز میں 21اکتوبر کو ایسے لوٹے جیسے فاتح مفتوحہ زمینوں پر اُترتے ہیں۔پہلے پہل کوئی سمجھ نہ سکا کہ آئے یا بلائے گئے ۔ ”مرحوم” ایک دماغی عارضے میں مبتلا تھے ، جس میں بار بار دُہراتے ”مجھے کیوں نکالا”۔ 8 فروری کے بعد مرض نے شدت اختیار کی تو تنہائی میں یہ بھی دُہرانے لگے”مجھے کیوں بلایا”۔ مطلب لواحقین کی سمجھ میں آتا نہ معالجین کی۔ البتہ کچھ” برادرانِ یوسف ”تھے، جو بیماری ہی نہیں بیمار کو بھی سمجھ گئے ۔مریض سے مرض چھپانے کا ”مشورہ” پہلے ہی مل گیا تھا۔ ” نکالنے ”اور” بلانے” والے ”طبیبوں”سے رات کی تاریکی میں علاج معالجے پر راز ونیاز رہے اورعلاج کے لیے کنویں میں رکھنے کا مشورہ ملا۔ جہاں الفاظ گونجتے خود اُن کے کانوں میں ہی پڑیں۔ تاکہ دوسرے ‘ چھوت’ کے اس مرض سے محفوظ رہ سکیں۔کہتے ہیں آخری ایاّم اُسی کنویں میں گزرے، جہاں تکرارِ مرض میں سکوت کا افاقہ ہوا۔
خدام کے بقول مقبولیت کی غلط فہمی تھی۔ کہاوت بھول گئے، سانپ پالے جا سکتے ہیں ، غلط فہمی نہیں۔ سانپ ڈسے تو زہر نکالا جا سکتا ہے مگر غلط فہمی کے ڈسے کا کوئی علاج نہیں۔ سنا ہے ، ڈس لیے گئے ۔ ممدوحین کہتے ہیں موٹر وے سے بہت محبت کرتے ۔ چنانچہ صبح شام موٹر وے کا ورد کرتے ۔ دمِ آخر ”تعویذ گنڈے” آزمائے ،مگر ”موٹر وے موٹر وے” کی تسبیح جاری ہی رہی۔ ملک و ملت کے لیے بے شمار منصوبے رکھتے تھے، جن میں سے تین یہ ہیں١۔ موٹر وے ٢۔ موٹر وے ٣۔ موٹر وے۔ ایک دسترخوانی صحافی پوچھ بیٹھا: بچوں کے لیے آپ کی تعلیمی پالیسی کیا ہے؟ فرمایا: آج کل دور دراز علاقوں میںجامعات قائم ہیں جہاںپہنچنے کے لیے موٹروے بہت ضروری ہے، بنائیں گے تاکہ تعلیم فروغ پائے۔ کسی نے صحت کے متعلق پوچھا: جواب دیا دیکھ نہیں رہے ٹریفک کتنا بڑھ رہا ہے، ایسی سڑکیں ضروری ہیں، جو کشادہ ہو اور اسپتالوں تک پہنچنے میں آسانی ہو، موٹر وے کا قیام صحت پالیسی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ ان گراں قدر خیالات پر کافی کالم لکھے گئے اور ٹیلی ویژن پر فرض سمجھ کر تبصرے کیے گئے، جن میں اُن کے تعلیمی اور طبی وژن کا گہرائی سے جائزہ لیتے ہوئے موٹر وے کے فضائل پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ اُن کے عاشق دانشوروں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ وہ اپنے محبوب قائد کے ”مختلف” اوصاف پر دن رات مالائیں جپتے۔ ایک دانشور طریقت سے شغف رکھتے ، اُنہوںنے خواب میں دیکھا ”مرحوم ”ملک و ملت کے غم میںسرپٹ ہیں ، جب تھک کر دم لینے رکے تو موٹر وے پر کھڑا دیکھا، دانشور موصوف تب سے موٹروے کے روحانی اسباب تلاشنے میں مصروف ہیں۔ایک کالم نگار اُن کی مخالف تمام حکومتوں کے متعلق لکھتے رہے ”یہ کمپنی نہیں چلے گی”۔ کیونکہ چلنے اور چلانے کا کام تو موٹروے پر ہی بہترین طور سے ہو سکتا ہے اور موٹروے کا تصور تو ”مرحوم” کے بغیر ممکن نہیں ۔اس لیے چلے ہوئے کارتوس کو چلاتے رہے۔ ”مرحوم ”کے عشق میں فرہاد اور رانجھاسے بھی زیادہ باؤلے ہو گئے ۔ 8 فروری کو انتخابی مہم نہیں چلائی جا سکتی تھی تو اپنے کالم کو ہی اُن کا ”اشتہار” بناکر حکومت اور حزب اختلاف کے مہرے سجا کر بساط بچھالی۔ دل پھر بھی مطمئن نہیں ہوا تو اپنے ”اشتہار” (کالم) میںآئندہ حکومت کے لیے پریشانی پیدا کرنے والوں کو بنگلہ دیش ماڈل کی سزاؤں کا ڈراوا بھی دیا۔ سنا ہے اب وہ بھی ”وہ روٹھ گیا” کے ساتھ یہ تکرار کرتا رہتا ہے کہ ”مجھ سے کیوں لکھوایا”۔ برادرانِ یوسف کے ذریعے ”مرحوم” جس کنویں میں علاج کے لیے اُتارے گئے، وہاں یہ منہ پر ہاتھ رکھ کر انتخابی نتائج سناتے پائے گئے۔ ساتھ میںتڑکا لگاتے”کیا یہ کھلاتضاد نہیں”!!
”مرحوم ”پیدا ہوئے تو پنگھوڑا کسی جنرل جیلانی سے تحفتاً پایا۔تب سے تحفوں کے قائل تھے۔البتہ اپنے دورِ اقتدار میں تنخواہ تک نہ لینے کا ڈھنڈورا پٹواتے۔ مگر اقتدار سے بے دخل ہوتے تو اکٹھی ساری تنخواہ لے اڑتے۔ ”مرحوم ”نے جنرل جیلانی کے پنگھوڑے میں جنرل ضیاء کی عمر لگنے کی دعا لے کر قد کاٹھ نکالا۔ایک روز خوامخواہ لڑ پڑے، کہا ”استعفیٰ نہیں دوں گا”۔ بے آبرو کرکے نکالے گئے، تب سے ٹائپسٹ رہے۔ کچھ عرصے بعد ایک مختصر وقفے کے لیے دورہ پڑتاتو نیم بے ہوشی میں کہتے، ووٹ کو عزت دو۔ پھر عزت ملتی تو کہتے ، کچھ وقت کے لیے رخصت دو۔ یہ وہی وقت ہوتا جس میں شوقِ سیاحت کے اسباب اکٹھے ہوتے۔ دوڑے پڑتے تو دورے کرتے۔ آخری دورِ اقتدار میں اُن کے 2013سے 2017 تک 64 غیر ملکی دورے عوام کو ایک ارب ایک کروڑ تیس لاکھ میں پڑے۔ پھر نکالے گئے تو یہ بھی ووٹ کو عزت دلانے نکل پڑے۔ علاج کے لیے کنویں میں اُترنے سے قبل موصوف کی آخری سرگرمی ووٹ کو عزت دینے کی ہی تھی۔ وہ اس طرح کہ آزاد جنہیں سب سے زیادہ ووٹ پڑے تھے، اُنہیں عزت دے کر ساتھ ملا تے رہے۔ ایک رکن اسمبلی کی چالیس کروڑ قیمت کافی عزت افزا ہے، ساتھ مقدمات سے حفاظت اور ڈالوں سے بچانے کی ضمانت کا برائے ”عزت ” پیکیج ملتا۔ یاد رہے کہ اس سارے عمل میں اُن کے ایک پرانے نعرے کی موسیقی بھی بجتی رہی ”اقتدار نہیں اقدار”۔ اُن کے خیال میں بے گناہ آزاد ارکان کو ڈالوں ، مقدموں، جیلوں ، جھمیلوں سے بچانا ”سیاسی اقدار” کا حصہ ہے۔ چنانچہ وہ ”آزاد” کوبچا کر ان ہی اقدار کی حفاظت کررہے ہیں۔ ان خدمات پر ”مرحوم” کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
”مرحوم” نے بہت سے منصوبے ادھورے چھوڑے ۔سیاسی انتقال سے چند لمحے قبل انتخابی نتائج کے مرتب ملک الموت کو کہا کہ اگر مجھے دھاندلی سے ادھورا نہیں ،پورا ”موقع ”دیا جاتا تو سارے منصوبے پورے کراتا۔چار دہائیوں کے بعد میںنے پہلی دفعہ کام کا موڈ بنایا ، تمارے نتائج نے سارے موڈ کا بیڑہ غرق کردیا۔”مرحوم” کی اتنی انگلش آتی کہ میرا رشک کرتی۔ بوٹ ، سوٹ اور لوٹ کے الفاظ انگریزی میں ہی بولتے تھے۔ اردو میں واحد چیز سمجھ میں آتی وہ ”مجھے کیوں نکالا” تھا ، اسی لیے اُن کو جب لایا گیا تب بھی یہی بڑبڑاتے”مجھے کیوں نکالا”۔ فون پر ڈانٹ پڑی کہ آنا جانا ، لانا بھگانا لگا رہتا ہے مگر آپ کو نکالنا کیوں یاد رہ گیا۔ پتہ چلا رٹی رٹائی تقریر کا یہی جملہ دماغ میں اٹک گیا، اس لیے یہی بولتے رہتے ، ناراضی کی ایسی کوئی خاص بات نہیں۔ جو بات اُن کے اور کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ کہ ”اُنہیں کیوں لائے”۔ لانے والوں کی عمر اُنہیں لگ گئی ۔ ایک صاحب نے” جنرلی” کہہ دیا کہ میری عمر اُنہیںلگ جائے، لگ گئی ۔ چار دہائیوں تک اس لمبی عمر پر عوام غصے میں تھے، دادا کے دادا کے بعد پوتے کا پوتا بھی اُن کے اقتدار کے ادوار دیکھ چکا تھا۔ ساری نسلیں غصے میں تھیں۔ سب نے ایک ساتھ بدلہ لیا تو شاہ فیصل مسجد کے اندر موجود قبر کے مکین نے بھی فرشتوں کے حساب سے جان چھڑا کر سکون کی کروٹ لی۔ ”مرحوم” نے ورثے میں قابل ضبطی لندن میں فلیٹس ،گم نام کھاتوں میں بے پناہ دولت ، لمبے چوڑے اثاثے ہی نہیں، کھانے کے مینو ، ایک ہزار سوٹ ، تین ہزار بوٹ اور لاتعداد صلواتیں سنانے والے بھی چھوڑے ہیں۔ ”مرحوم ”نے اپنی زندگی میں ایک ہی بک پڑھی جو ”چیک بک” تھی۔ سیاحت کے بہت شوقین تھے، اس لیے جہاں جہاں گھومنا چاہتے وہاں گھر اور فلیٹس بنا لیے۔کچھ معلوم ہیں اور کافی سارے معلوم نہیں۔ نیب افسران کے بقول جب بچے جھگڑیں گے تو پتہ چلے گا۔
”مرحوم ”کے سامان کی تلاشی میں مودی کا خفیہ نمبر، مختلف صحافیوں کے بل، دانشوروں کے ماہانہ اخراجات،کم بارکر کے لیے خریدا گیا بلیک بیری، وکلاء کو فیس ادائیوں کی رسیدیں، کیبلری فونٹ میں لکھی ایک منی ٹریل او ر وصیت پر مبنی ایک خط ملا ہے۔ یہ خط اتفاق سے اُن کے تقریر نویس نے نہیں خود اُنہوں نے لکھا ہے ، جس کی بھنک تقریر نویس یا پرچی نویس کو نہیں پڑنے دی، چونکہ خط اُن کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی زندگی کی پہلی تحریر ہے ،اس لیے خواندگی میں دقت ہے،اہرام مصر کے زمانے کے طرزِ تحریر پڑھنے کے کسی ماہر سے مشورے اور ڈاکٹر سے اُن کی حاضر یاد داشت کی تسلی کے بعد شائع کیا جائے گا۔ (احباب ، ورثاء خاطر جمع رکھیں)۔اُن کے سیاسی انتقال پر” کلن ” نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا ” وہ پہلے ہی’ مرحوم’ تھے، مگر ٨ فروری کو کچھ زیادہ ہی لگے”۔
٭٭٭
پس تحریر:ممتاز کالم نگار ہارون الرشید صاحب بھی مشاورت کی حدتک اس تحریر میں ”شریک جرم” سمجھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر