وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچوں کے ساتھ نا انصافی کیوں ؟

جمعرات 11 جنوری 2024 بلوچوں کے ساتھ نا انصافی کیوں ؟

جاوید محمد

عالمی سطح پر شائع ہونے والی سینکڑوں رپورٹس اس کی گواہ ہیں کہ 1966 سے بڑی طاقتیں بلوچستان پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کی خوبصورتی زمین اور سر بلند پہاڑوں کے نیچے قدرت نے معدنیات کے خزانوں کے انبار لگائے ہوئے ہیں ۔ان میں دنیا کے قیمتی پتھر، قیمتی دھاتیں، ماربل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ، گیس کا ختم نہ ہونے والا ذخیرہ ،تانبے اور سونے کی کانیں ، زنک، لوہا اس قدر ہے کہ پوری دنیا میں اس کی کھپت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قدرت نے اس زمین کے حصے کو جڑی بوٹیاں، وائلڈ لائف اسپیشل، قسم قسم کے پھل، ڈرائی فروٹ، بھیڑ بکریوں اور دیگر سینکڑوں اشیاء سے نوازا ہے۔ گوادر اور بندرگاہ کو شامل کر لیں تو پھر سمندری خوراک کی مدد سے افریقہ کی بھوک پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
تصور کریں! ناسا کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کی سرزمین میں سعودی عرب سے زیادہ تیل ہے ۔ جب قدرت کی اتنی ساری نعمتیں بلوچستان کی سرزمین میںہوں تو کیوں نہ ترقی یافتہ ممالک اور بڑی طاقتیں اس کو ہتھیانے کی کوشش کریں ؟ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو خریدنا کوئی مشکل نہیں اور یہ طاقتیں موجودہ عالمی بحران کے اندر یہ کیسے برداشت کر سکتی ہیں کہ ان قدرتی معدنیات کے مزے پاکستان اور ایران لوٹیں ،چند سال قبل امریکا کے ایوان نمائندگان میں کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس نے ایک دلخراش قسم کی قرار داد پیش کر کے ایک طرف پاکستانیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جبکہ دوسر می طرف علیحدگی پسند تحریکوں کو پاکستان کے خلاف اُکسا کر ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔ آخر مکروہ عزائم کے پیچھے کس نوعیت کے منصوبے پوشیدہ ہیں ؟ پیش کی جانے والی قرارداد کا متن کچھ یوں ہے کہ بلوچ عوام کو آزاد ملک حاصل کرنے کا حق ہے ۔ ان کا حقِ خود ارادیت تسلیم کیا جائے اور یہ کہ بلو چستان ، پاکستان ، ایران اور افغانستان میں تقسیم ہے ۔ان تینوں ملکوں کے اندر بلوچوں کو خود مختاری حاصل نہیں ہے ، اگر انسانی حقوق کے علمبر دار سینیٹر کو اچانک برسوں کے بعد اب احساس ہوا کہ بلوچوں کے اوپر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، جبکہ بلوچستان کی معدنیات پر 1966 سے ان طاقتور، با اثر لابیوں کی نظریں ہیں، جو ترقی یافتہ ممالک کو اپنی منشاء کے مطابق چلانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ کیا کوئی ہے جو کشمیریوں کی خود ارادیت کے لیے آواز اٹھائے ؟ کاش محترم سینیٹر ہی اس حساس ایشو پر ایک قرار داد پیش کر دیں۔ آخر ان کی نظر اس طرف کیوں نہیں اٹھتی ؟ اب بھارت بھی کہنے لگا ہے کہ یہ مسئلہ ہے ،یہ ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ امریکا کے ایوان نمائندگان میں بلوچستان کے حوالے سے قرار داد پیش کرنے پر حکومت پاکستان تماشائی بنی ہوئی تھی؟ آخر ان حکمرانوں کو ظالم کہیں یا جابر ، آخریہ یہ نوبت کیوں آئی؟ مذکورہ قرار داد سے پہلے حکمراں بے حسی کی تصویر کیوں بنے ہوئے تھے ؟ اب یہ حال ہے کہ حکمرانوں کے زخموں پر مرھم رکھنے کا ارادہ کیا ہے لیکن انھیں احساس ہو جائے کہ بلوچوں کی احساس محرومی کینسر میں بدل چکی ہے ۔ اب مرھم سے یہ زخم نہیں بھریں گے۔ اب بہت ضروری ہے کہ ان کی کیمو تھراپی کی جائے ۔ واضح رہے کہ کینسر اب لاعلاج مرض نہیں رہا۔
اس حقیقت کو بھی نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہے کہ گوادر پورٹ کے شدید مخالف ممالک اور ان کی ایجنسیاں جو پاکستان اور ایران کے تعلقات بھی خراب کرانا چاہتے ہیں اور بلوچستان میں دہشت گردی اور قتل و غارت کے ذمہ دار بھی ہیں، اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ گوادر پورٹ بلوچوں کی تقدیر بدل کر وہاں معاشی خوش حالی لانے کی صلاحیت رکھتاہے اور یہ بات دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہی۔ اس طرح کچھ ممالک پاکستان اور ایران کے تعلقات خراب کرانے کے لیے ہر نوعیت کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ درجنوں رپورٹ منظر عام پر آچکی ہیں جس میں بلیک واٹر، بھارت اور اسرائیل کا نام سر فہرست ہے جو بلوچستان میں انار کی پھیلا رہے ہیں اور ناراض بلوچوں میں علیحدگی پسندی کے جذبات ابھار کر انھیں مالی مدد فراہم کر کے بلوچوں کو پاکستان سے الگ کرنے کے منصوبے بنائے ہیں۔ دکھ اس کا ہے کہ جو لابیاں بلوچوں کے لیے سینے میں درد رکھتی ہیں ان سے کو ئی یہ پوچھے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے ؟ عراق میں وسیع تباہی پھیلانے والا اسلحہ نہیں ملا، بے بنیاد جنگ مسلط کر کے لاکھوں عراقی شہریوں کو بارود میں دفن کر دیا گیاتو اُس وقت یہ بااثر لابیاں کیوں خاموش تھیں ؟ اس حقیقت کو نظر انداز کرنا سرا سرنا انصافی ہوگی۔ بلوچستان کا مسئلہ آج جس نہج پر پہنچ چکا ہے اسکی ذمہ داری پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں اور موجودہ حکومت پر سب سے زیادہ عائد ہو گی ، جنھوں نے بلوچوں کے حقوق غصب کیے اور اُن پر جو مظالم ڈھائے گئے اس میں یہ بھی حصے دار ہیں ان کو ظالم کہیں ؟ جابر کہیں؟ آخر یہ یہ نوبت کیوں آئی کہ بلوچستان کو الگ کرنے کی باتیں زور پکڑ رہی ہیں؟ غیور بلوچوں نے پہلے کبھی علیحدگی کی بات نہیں کی موجودہ صورتحال میں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ بلوچوں میں حالیہ برسوں میں جو تشدد کی لہر میں اضافہ ہوا شہریوں اور سیاسی کارکنوں، صحافیوں کی پر اسرار گمشدگیوں کے علاوہ لاپتہ کی مسخ شدہ لاشوں کے سامنے آنے کا نوٹس لیں۔ حکومت پاکستان کی بے حسی اور سست روی کے نتیجے میں آج پاکستان کے اوپر ہر زاویے سے خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ بیرونی سازشوں پر بھی گہری نظر رکھنی ہوگی، ان کو نظر انداز کرنا پاکستان سے دشمنی کرنے کے مترادف ہوگا۔ واضح رہے کہ بھارت اور اسرائیل 9/11 کے بعد سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے در پر ہیں، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رالف پیٹر زجو ریٹائر ڈ امریکی کرنل اور تجربہ کار ہیں اور آرم چیئر جرنل رسالے کے مدیر بھی ہیں، ان کا تعلق فتنہ انگیر صہیونیت سے ہے، صہیونیت کی اسلام دشمنی سے کون واقف نہیں کہ اسے ہر اس ریاست سے نفرت ہے جو اسلام سے نظریاتی وابستگی رکھتی ہے۔ اس وقت دنیا میں اکثر اسی پروردہ حکمران مسلم ممالک میں اقتدار و اختیارکے حامل ہیں مگر اس کے باوجود اسے اسرائیل کے حوالے سے ہمیشہ خطرات لاحق رہتے ہیں۔ صہیونی دماغ سیاسی، سماجی معاشی، معاشرتی، ثقافتی فکر ی اور عسکری ہر محازذپر نئی منصوبہ کرتے رہتے ہیں۔ انہی منصوبہ بندیوں میں سے ایک منصوبہ بندی دنیا کے جغرافیے کو اپنی خواہشات کے مطابق تبدیل کرنا ہے ۔ 2006ء میں رالف پیٹرز نے شمالی افریقہ سے جنوبی ایشیا تک کے مختلف مسلم ممالک کی نئے سرے سے حد بندی کرنے کے لیے” گریٹر رمڈل ایسٹ” کا ایک نقشہ ترتیب دیا، جس کے خدو خال کے مطابق مشرقی وسطی اور وسط ایشیا کے مسلم ممالک کی سرحدوں میں رد و بدل کر کے سارے علاقے کو لسانی اور مسلکی ریاستوں میں تبدیل کر دیا جائیگا۔ اس نقشے میں عراق کی سنی اور شیعہ آزاد ریاستوں میں تقسیم ، ایران، عراق ترکی اور شام کے ان علاقوں کو جہاں کر دبستے ہیں کردستان بنا دیا جائے گا۔ سعودی عرب کو ویٹیکن کی طرح مکہ اور مدینہ تک محدود کر دیا جائیگا ۔ ہرات اور افغانستان کا کچھ علاقہ ایران میں شامل کر دیا جائیگا ۔ آذربائیجان کو تقسیم کر کے آرمینا کی ریاست تخلیق کی جائے گی۔ پاکستان اس نقشے کے مطابق لسبیلہ، سندھ اور پنجاب کے جزوی حصوں پر مشتمل ریاست رہ جائیگا ۔ جنوبی پنجاب، سرحد ، فاٹا اور بلوچستان کا پشتون بیلٹ افغانستان کا حصہ بنا دیا جائیگا۔ بلوچستان کے باقی حصے اور ایران کے صوبے سیستان کو ملا کر آزاد بلوچستان قائم کیا جائے گا۔ اسرائیل جیسی نظریاتی ریاست کے پیچھے جو دماغ کام کر رہے ہیں۔ وہ نسلی اور لسانی اکائیوں کی فطری تقسیم ضروری سمجھتے ہیں۔ حکومت پاکستان کے پاس بس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کے حل میں مخلص ہوں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں پر قابو پاتے ہوئے بلوچوں کو ان کے جائز حقوقی جلد از جلد دیں اور جو قدرتی معدنیات بلوچستان کی سرزمین میں ہیں، وہ پہلے بلوچوں کا حق ہے ،گزشتہ 75 برسوں سے مسلسل بلوچوں کے حقوق غصب کیے جاتے رہے ہیں۔ اب جھوٹی تسلیوں اور دلاسوں سے کام نہیں چلے گا کہیں ایسا نہ ہو کہ جو مذکورہ قرار داد امریکی ایوان نمائندگان میں پیش کی گئی ہے حقیقت کا رنگ نہ ڈھال لے۔ اگر خدا نخواستہ ایسا ہوا تو اس کی ساری ذمہ داری جو بھی حکومت ہوگی اُس کے حصے میں آئی گی۔ مناسب یہی ہوگا کہ بلوچوں کے مطالبات تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اُن سے ہو نے والی نا انصافی کا سلسلہ ختم کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر