وجود

... loading ...

وجود

ختم شدہ کیس دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی

منگل 12 دسمبر 2023 ختم شدہ کیس دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت جنوری تک ملتوی

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ میں 11 سال بعد براہ راست نشر سماعت ہوئی، جس کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظر ثانی بھی خارج ہو چکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیراعظم سے متعلق ریفرنس کی سماعت کی۔لارجر بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل ہیں۔ سماعت کے موقع پر سابق صدر آصف زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سماعت کی براہ راست کارروائی کی درخواست منظور کی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس آخری بار 2012 میں سنا گیا۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے فریق بننے کی درخواست دے دی، فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں بلاول بھٹو کی نمائندگی کروں گا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ورثا کے طور پر بھی سن سکتےہیں اور بحیثیت سیاسی جماعت کے بھی۔ عدالت عظمیٰ نے ریفرنس میں پیش ہونے والے وکلا کے نام لکھ لیے، چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرتے تھے، اب ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کاروائی لائیو ہو گی۔ چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کیا کہ آپ کی درخواست آنے سے پہلے ہم نے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا، صدارتی ریفرنس ابھی بھی برقرار ہے، یہ واپس نہیں کیا گیا، براہ راست کارروائی کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی، آج براہ راست کارروائی کا لنک دستیاب ہے۔ احمد رضا قصوری بھی عدالت میں پیش ہوئے، وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ میرے مؤکل کو بھی سنا جائے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہر قانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے، کیس کی سماعت لائیو لنک سے نشر ہو رہی ہے، سوال یہ ہے کہ یہ صدارتی ریفرنس ہے تو کیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلانا چاہتی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی پہلے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر کرتے تھے، اب ہماری کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر کارروائی براہ راست ہو گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ ریفرنس کا ٹائٹل پڑھیں، جس پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھنا شروع کر دیا۔ اٹارنی جنرل نے ریفرنس میں اٹھائے گئے سوالات عدالت کے سامنے رکھے اور دلائل کا آغاز کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کون سے صدر نے یہ ریفرنس بھیجا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ریفرنس صدر زرداری نے بھیجا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کے بعد کتنے صدر آئے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کے بعد دو صدور آ چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی صدر نے یہ ریفرنس واپس نہیں لیا، سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ریفرنس مقرر نہ کئے جانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بینچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی۔ ریفرنس میں جج کے تعصب سے متعلق آصف زرداری کیس 2001 کا حوالہ دیا گیا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل کے دوران بنیچ پر اعتراض کی کوئی درخواست دی گئی، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق کئی درخواستیں دی گئی تھی۔ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں تسلیم کیا ان پر دباؤ تھا، دوسرے انٹرویو میں نسیم شاہ نے کہا مارشل لا والوں کی بات ماننی پڑتی ہے، 2018 میں بھی ریفرنس پر سماعت کیلئے درخواست دائر کی، یہ انٹرویو جیو پر پروگرام جوابدہ میں افتخار احمد کو دیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کی کیا افتخار احمد اب بھی جیو میں موجود ہیں، اٹارنی جنرل نے بھی نسیم حسن شاہ کے انٹر ویو کا حوالہ دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انٹرویو کس کو دیا گیا تھا۔ احمد رضا قصوری روسٹرم پر آئے اور نسیم حسن شاہ کے ایک اخبار میں شائع انٹرویو کا حوالہ دیا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا آپ جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو پر انحصار کریں گے۔ وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکریپٹ اور وہڈیوز پیش کروں گا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ نسیم حسن شاہ نے جو بیانات دئے کیا آپ ان پر انحصار کررہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ دلائل جاری رکھیں، صدراتی ریفرنس کی نمائندگی کس نے کی تھی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایڈوکیٹ بابر اعوان اس وقت صدارتی ریفرنس میں وکیل تھے، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا بابر اعوان کمرہ عدالت میں ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت بابر اعوان عدالت میں نہیں ہیں، احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں نے ریفرنس پر تحریری جواب جمع کرایا، میرے جواب پر بابر اعوان غصے میں آگئے اور عدالت کو مطمئن نہیں کرسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے، احمد رضا قصوری دوبارہ روسٹرم پر آگئے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب پہلے ہمیں اٹارنی جنرل کو سننے دیں، فاروق نائیک نے کہا کہ بابر اعوان کا لائسنس اس وقت معطل ہوگیا تھا، بابر اعوان اس وقت حکومت کی نمائندگی کر رہے تھے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ ریفرنس میں کوئی قانونی سوال نہیں اٹھایا تھا، بابر اعوان بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے تھے، جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا اس میں ضمنی ریفرنس بھی آیا تھا، احمد رضا قصوری نے کہا کہ تو یہ چیزیں تو میں نے دینی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ دیتے اور صفائی میں آجاتے، ایس ایم ظفر اور مختلف وکلا استعمال کر چکے ہیں، علی احمد کرد صاحب کیا آپ معاونت کریں گے۔ علی احمد کرد نے کہا کہ جی میں معاونت کروگا، چیف جسٹس نے فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری سے سوال کیا کہ عدالتی حکم میں توبہ کا تذکرہ کیا گیا، کیا کوئی بتائے گا کیوں؟ کیا وکیل فاروق نائیک اور احمد رضا قصوری بتا سکتے ہیں؟ احمد رضا قصوری نے کہا کہ عدالت کسی عالم کو بلائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے علی احمد کرد، طارق محمود، خالد انور اور مخدوم علی خان کو معاون مقرر کیا تھا، ہم. دیکھیں گے جو عدالتی معاون دستیاب نہیں ان کے متبادل کون ہوں گے۔

‏جسٹس منصور علی شاہ نے ریفرنس پر سوالات اٹھا دیے
سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس میں عدالتی معاونین مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، وکیل مخدوم علی خان اور علی احمد کرد نے عدالتی معاونت کی ہامی بھر لی، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی معاونت کے لیے مشاورت کے بعد مزید نام دیں گے، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس کیس میں کئی وکلا وفات پاچکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں عدالتی معاونین مقرر کریں گے جن کے ناموں کا فیصلہ بعد میں کرتے ہیں،0 وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ میں انٹرویوز کا ٹرانسکریٹ اور ویڈیوز پیش کروں گا۔ مخدوم علی خان اور اعتراز احسن کے معاون وکیل پیش ہوئے اور مؤقف اپنایا کہ مخدوم علی خان کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کیس میں ہے یا نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ عدالتی معاون بننے پر کسی کو مجبور نہیں کرسکتے، کیا اعتراز احسن اس کیس میں آئیں گے۔ بیرسٹر اعتراز احسن نے کیس میں عدالتی معاونت سے معذرت کرلی، معاون وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ اعتراز احسن وکیل بھی ہیں، بطور معاون نہیں آئیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تقریر نہ کریں، ہاں یا نہ میں بتائیں جس پر معاون وکیل نے کہا کہ نہیں وہ نہیں آئیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ قاضی اشرف بھی اس کیس میں معاون تھے، فاروق ایچ نائیک نے کہا قاضی اشرف تندرست ہیں اور پریکٹس کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پولیس سے کیس کا اصل ریکارڈ ملا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریکارڈ اصل نہیں ملا، فاروق نائیک نے کہا کہ ریکارڈ کے تین بنڈل آئے تھے۔ ‏جسٹس منصور علی شاہ نے ذولفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھاتے ہوئے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کر کے کہا کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظر ثانی بھی خارج ہو چکی، ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ کس قانون کے تحت عدالت ایک ختم معاملے کو دوبارہ کھولے؟ آئین میں دوسری نظر ثانی کا تصور نہیں ہے، عدالت نے فیصلہ کیا کرنا ہے یہ تو بتائیں؟ کیا جب یہ سارا کیس چلا ملک میں آئین موجود تھا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس وقت ملک میں مارشل لاء تھا، فاروق نائیک نے کہا کہ کیس میں شکایات دائر ہوئی تھی، اس کا ریکارڈ موصول نہیں ہوا تھا، عدالت نے حکم نامے میں رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ کو سارا ریکارڈ فراہم کرنے کا کہا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جو ٹریبونل بنایا تھا اس کا کیا نام تھا، وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ ٹریبونل نے دیکھنا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمات درست تھے یا نہیں، ٹریبونل نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تمام مقدمات کو جعلی قرار دیا تھا، اب اس ٹریبونل کا ریکارڈ کہاں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہتے ہیں کہ یہ ریفرنس کھبی نہ سنا جائے تو اعتراض اٹھاتے رہیں، ہمارے سامنے وہ بات کریں جو سامنے موجود ہے، ایسا کرنا ہے تو ایک درخواست دے دیں کہ کس کس کو احکامات دیے جائیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوسری نظر ثانی کے سپریم کورٹ پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں، کیا کل کوئی فریق آ کر پرانا مقدمہ نکلوا سکتا ہے، یہ بہت اہم سوال ہے، کیا ہم آرٹیکل 186 کے تحت کسی عدالتی فیصلے کو دیکھ سکتے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ قانونی سوال کیا ہے، کیا کل صدر مملکت یہ ریفرنس بھیج سکتے ہیں کہ تمام پرانے فیصلوں کو دوبارہ لکھا جائے، پورا ریفرنس تو ٹی وی انٹرویوز کے گرد گھومتا ہے۔ چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کیا جس میں سماعت جنوری تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا گیا، عدالت نے کہا کہ عدالتی معاونین کو نوٹس جاری کرکے جواب لیا جائے گا، آرٹیکل 186 کے تحت صدارتی ریفرنس دائر کر دکیا گیا، آخری بار صدارتی ریفرنس 2012 میں سنا گیا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا، بدقسمتی سے یہ ریفرنس اس کے بعد سنا نہیں گیا اور زیر التوا رہا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیس کی آئندہ سماعت جنوری میں ہوگی، حکمنامے میں کیا گیا ہے کہ فاروق اییچ نائیک نے بلاول بھٹو کی جانب سے فریق بننے کی درخواست دی، فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ ذوالفقار بھٹو کی صرف ایک بیٹی زندہ ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ذولفقار بھٹو کے 8 پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں ہیں، ورثا کی جانب سے جو بھی وکیل کرنا چاہے کر سکتا ہے، بلاول بھٹو کی جانب سے براہ راست نشریات کی بھی درخواست دائر کی گئی، براہ راست نشریات کی درخواست غیر موثر ہو چکی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئینی معاملات پر بھی اور کریمنل معاملات پر بھی ماہر معاون مقرر کر دیتے ہیں، جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک کو عدالتی معاون بنانے کا فیصلہ کیا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ حارث، خالد جاوید خان اور سلمان صفدر کو بھی عدالتی معاون بنالیتے ہیں، کیا کسی کو ان معاونین پر اعتراض ہے؟ احمد رضا قصوری نے رضا ربانی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی معاونین نیوٹرل ہونے چاہییں، چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین، زاید ابراہیم ،فیصل صدیقی بھی معاون ہوسکتے ہیں، ذولفقار علی بھٹو کے ورثا اگر اپنا وکیل مقرر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ریفرنس پر آئندہ سماعت کب رکھیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ سردیوں کی چھٹویوں کے بعد کی تاریخ رکھے ، چیف جسٹس نے کہا کہ اس بار کی چھٹیوں کے بعد ہی رکھیں نا، آخری سماعت کب ہوئی تھی، یہ کیس گیارہ سال بعد مقرر کیوں ہوا۔  اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ جواب آپ نے دینا ہے، احمد رضا قصوری نے سماعت الیکشن کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، احمد رضا قصوری نے کہا کہ یہ کیس الیکشن کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے، قصوری صاحب اس ریفرنس کے بعد کئی ریفرنس آئیں، اس وقت بھی الیکشن معاملات تھے مگر وہ ریفرنس سنے گئے، اب یہ ریفرنس دیر آئیں درست آئیں پر ہے، جنوری میں آئندہ سماعت ہوگی۔ علی احمد کرد روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ کئی عدالتی معاونین کا انتقال ہوچکا ہے، کیا عدالت ان کے لیے افسوس کا اظہار نہیں کرے گی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ کرد صاحب یہ کیس بھی سنجیدگی کا متقاضی ہے، اسے سنجیدگی سے دیکھنے دیں، آپ نے کوئی بیان دینا ہے تو میڈیا پر جا کردیں ، ہم آئینی معاملات پر بھی اور کریمنل معاملات پر بھی ماہر معاون مقرر کر دیتے ہیں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل سے پوچھا گیا کیا صدارتی ریفرنس کھبی واپس لیا گیا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریفرنس نے پہلے واپس لیا گیا، نہ اب واپس لیا گیا، عدالتی حکم پر اٹارنی جنرل نے ریفرنس پڑھ کر سنایا۔ قبل ازیں عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت سپریم کورٹ کی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل پر براہ راست نشر کیا جائے گی۔ جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ براہ راست عدالتی کارروائی اس یوٹیوب چینل اور ویب سائٹ پر نشر کی جائے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سابق وزیر خارجہ و چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت براہ راست نشر کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ بلاول بھٹو کی جانب سے درخواست وکیل فاروق ایچ نائیک نے دائر کی، درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ صدارتی ریفرنس میرے والد آصف علی زرداری کی جانب سے دائر کیا گیا۔ بلاول بھٹو کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ایک قتل کی سازش کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی، ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دے دی گئی جو کہ ملکی تاریخ میں نظام، انصاف کا بدترین زوال تھا۔ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی لیکن ان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے، انہوں نے تمام عمر قانون کی حکمرانی کی جدوجہد کی، ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینا پورے عدالتی نظام پر دھبہ ہے۔

صدارتی ریفرنس
یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں 11 سال بعد رواں ماہ سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپریل 2011 میں صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا، ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اب تک سپریم کورٹ میں 6 سماعتیں ہو چکی ہیں۔ صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو جبکہ آخری سماعت 12 نومبر 2012 کو ہوئی تھی۔ صدارتی ریفرنس پر پہلی 5 سماعتیں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کیں جبکہ آخری سماعت 9 رکنی لارجر بینچ نے کی تھی۔ ‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟ چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟ جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟


متعلقہ خبریں


سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...

سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی پاکستان اور بھارت کے درمیان مصالحت کی پیشکش

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل وجود - بدھ 30 اپریل 2025

  پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے وجود - بدھ 30 اپریل 2025

دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان وجود - بدھ 30 اپریل 2025

تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...

جعفر ایکسپریس حملے میں بیرونی معاونت کے ٹھوس شواہد ہیں،پاکستان

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم وجود - بدھ 30 اپریل 2025

زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...

دو دہائیوں کی نسبت آج کی ڈیجیٹل دنیا یکسر تبدیل ہو چکی ، وزیراعظم

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم وجود - منگل 29 اپریل 2025

  8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...

عوامی احتجاج کے آگے حکومت ڈھیر، متنازع کینال منصوبہ ختم

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع وجود - منگل 29 اپریل 2025

  دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...

دو تین روز میں جنگ چھڑ نے کا خدشہ موجود ہے ،وزیر دفاع

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...

بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، اراکین سینیٹ

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا وجود - منگل 29 اپریل 2025

پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...

چین نے پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ وجود - منگل 29 اپریل 2025

مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...

پاکستان و بھارت دونوں سے رابطے میں ہیں،امریکہ

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک وجود - پیر 28 اپریل 2025

  بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...

سیکیورٹی فورسزکی کارروائی، افغانستان سے دراندازی کرنے والے 54دہشت گرد ہلاک

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد وجود - پیر 28 اپریل 2025

ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...

ایدھی رضا کاروں پر حیدرآباد میں شرپسندوں کا شدید تشدد

مضامین
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟ وجود جمعرات 01 مئی 2025
بھارت کیا چاہتا ہے؟؟

انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب وجود جمعرات 01 مئی 2025
انڈیا کھلے معاہدوں خلاف ورزی کا مرتکب

پاکستان میں بھارتی دہشت گردی وجود جمعرات 01 مئی 2025
پاکستان میں بھارتی دہشت گردی

بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی وجود بدھ 30 اپریل 2025
بھارت کی بین الاقوامی میڈیا میں سبکی

مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں وجود بدھ 30 اپریل 2025
مسئلہ بلوچستان پر سردار نواب بخش باروزئی کی فکر انگیز باتیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر