وجود

... loading ...

وجود
وجود

کون ساراستہ اختیارکرناہے ؟

پیر 09 اکتوبر 2023 کون ساراستہ اختیارکرناہے ؟

سمیع اللہ ملک

سوچتاہوں کہ آخر دنیا بھرکی یورشوں کا ہم ہی شکار کیوں ہیں؟بہت سوچ بچارکے بعداس نتیجے پرپہنچاہوں کہ اس کاسب سے بڑا سبب ہمارے قول وفعل کا تضاد ہے جس کی ہمیں ایسی سنگین سزامل رہی ہے کہ توبہ کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا توپھر توفیق کیسے ملے ؟ہماری سزاکا پہلا شاخسانہ ہمارے دلوں کا وہ کھوٹ ہے جس کی وجہ سے ہم ایک دوسرے کے دشمن بن گئے ہیں اور یہ طے کرلیاہے کہ اپنے مخالف کی کسی بات سے اتفاق نہیں کریں گے جبکہ ہم بھول جاتے ہیں کہ اگر چڑیاں آپس میں اتحاد کرلیں توشیر کی کھال ادھیڑکررکھ دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔سیاست اور بندوبست سے ہٹ کر ذراسوچیے ، غور کیجیے …کہ ہم غالب سے مغلوب قوم کیوں ہوگئے ؟ہم ابھرتی ہوئی قوم کے بجائے ابھرتی ہوئی اقوام کے مقلد اور محض نقال کیوں ہیں؟
ہم اپنے حکمرانوں کی تاریخ کواپنی تاریخ کیوں کہتے ہیں حتیٰ کہ ان کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ اپنے اقتدارکے حصول کیلئے گزشتہ 76سالوں سے جھوٹ بول رہے ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ طاقتوراورمقتدراشرافیہ کی غلامی اس کی غاصبیت کے معترف رہتے ہیں۔دراصل شعوری طور پر محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہوجاتاہے ،ظلمت کادورانیہ جتنا طویل ہوتاہے ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی بدتر ہوجاتاہے ،پھرایک وقت ایساآتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے ۔ کہیں ہم ناکام ریاست تو نہیں ہیں کیونکہ جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں جھوٹ رواج پکڑتا اورسچ شکست سے دوچار ہوکر ذلت میں مبتلاہو جایاکرتاہے ، فضاؤں میں خوف اور دلوں میں مایوسی چھا جایا کرتی ہے ۔خوشامد کرنے والے ، موقع پرست سیاست دانوں، افواہیں پھیلانے والے پیشہ وروں اور بہروپیوں کے قافلے ہجوم کی شکل اختیار کر کے قوم میں گھس جایا کرتے ہیں۔ پھرجھوٹ روزانہ کی بنیاد پر اپنے زورسے غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگ جاتاہے لیکن کچھ ہم جیسے دیوانے اس جھوٹ کے سامنے سینہ سپرہوکراپنی جان لڑادیتے ہیں جب تک جھوٹ اپنی ہی سیاہی اپنے منہ پرمل کرواپس نہ ہوجائے ۔ آج ہم پھردیکھ رہے ہیں کہ جس میں جو وصف سرے سے ہونے تک کاشائبہ نہیں ہوتا وہ اس کاماہر گرداناجاتا ہے ۔ اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں۔ نظم و نسق ناپید ہوجاتا ہے ۔ کلام سے معنویت کاعنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری،جھوٹ جبکہ جہاد اور دہشت و غنڈہ گردی میں فرق مٹ جایا کرتا ہے ۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں،تو ہر سُو دہشت و وحشت پھیلتی ہے اورلوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں،دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے ، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے ، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار غائب ہو جاتے ہیں۔ حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے ، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہو جاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔ مبلغین کی اداکاری اور چیخ وپکار میں حقیقی دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے ۔ گھروں میں بازاروں سا ہنگامہ بپا ہو جاتا ہے اور وابستگیاں فروخت ہو جایا کرتی ہیں۔قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدت و عقیدہ اور مذہب و مسلک کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر قوم دشمنی کے الزامات لگاتے ہیں۔ ہجرت آخری راستہ بچتاہے ،آج تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ماضی سے کئی گنازیادہ ہے کہ وطن سرائے میں بدل جایا کرتے ہیں؟ یہ مناظر دیکھ لیں لوگوں کاکل ساز و سامان سفری تھیلوں تک کیوں سمٹ آیا؟لوگوں نے اس گھٹن سے نکلنے کیلئے فرار کے ایسے راستے اپنائے کہ معصوم بچوں سمیت اپنی زندگی کی کمزورکشتیوں کو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے حوالے کردیا کہ اگرمرنا ہی اپنے نصیب میں ہے توپھر پرواہ کیسیَ؟ بپھرتے سمندرکوجب ترس آیاتو اس نے انسانیت کے جعلی چیمپئنزکے چہروں سے پردہ ہٹاتے ہوئے ایک معصوم بچے کی لاش کوکنارے پر پھینک دیا۔کچھ دنوں کیلئے یوں محسوس ہواکہ اپنی غلطیوں کااحساس کرنے بعد کوئی مثبت اقدام اٹھانے کی تحریک شروع ہوگی لیکن ایسی طاقتوں کی یہ بھی کوئی چال تھی کہ وقتی طورپربہت دلاسے دیئے گئے لیکن معاملہ پہلے سے بھی زیادہ شدیدتر ہو گیا۔ ہوناتویہ چاہئے تھاکہ ایسے تمام حالات پرنظرثانی کرکے ایساپرامن ماحول پیداکردیتے کہ ایسا ظلم دوبارہ دکھائی نہ دیتا لیکن ہم نے تواپنے اسلحہ سازی کے کارخانوں کوچلاناہے ،ادویات کی فیکٹریوں کو دوام دیناہے ، ان کاروبار کے مالکان اس قدرمضبوط ہیں کہ کسی کی مجال نہیں کہ ان کی مرضی کے خلاف جنبش بھی کرسکیں۔
ایک مرتبہ پھرچراگاہیں ویران ہیں، وطن یادوں میں اور یادیں کہانیوں اورآہوں میں بدل چکی ہیں۔یقین ہوتاجارہاہے کہ ہماری آوازیں اب آپ کو ایمرجنسی میں ہی سنی جائیں گی اورامکان میں بھی مثبت جواب سننے کی خواہشات ہماری آنکھوں کے سامنے دم توڑ دیں گی۔مگراب بھی ان خوفناک حالات میں کامیابی صرف ایمانی عزم کے ساتھ ہی حاصل کی جاسکتی ہے ،جب فرد طے کرلے اوراس کی سوچ یہ رخ اختیارکرلے کہ انسانیت کو ان آفتوں سے بچانے کی مجھ تنہا کی ذمہ داری ہے ۔
یادرکھیں کہ یہ شیوہ نبیوں کاہے اوراللہ کی نظر میں ہر نبی کامیابی کااستعارہ ہے چاہے اس کے ماننے والے کتنے ہی قلیل اور کمزورکیوں نہ ہوں۔ تاریخ نے انہی افرادکو بہترین قراردیاہے ۔ اب یہ فیصلہ آپ کاہے کہ ہم نے کون ساراستہ اختیارکرناہے
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر