وجود

... loading ...

وجود
وجود

قرآن مجید کو اپنے اشعار میں سمونے والے علامہ اقبال

هفته 07 اکتوبر 2023 قرآن مجید کو اپنے اشعار میں سمونے والے علامہ اقبال

ریاض احمدچودھری

قرآن مجید سے علامہ اقبال کی شیفتگی اور والہانہ شغف کا عالم یہ تھا کہ کوئی بھی مصروفیت ہو، جیسا بھی انہماک، گھر بار کے معاملات، دنیا کے دھندے ہوں، ان کا دل ہمیشہ قرآن مجید میں رہتا۔ دورانِ مطالعہ اکثر رقت طاری ہوجاتی۔ کوئی بھی گفتگو کرتے، تحریر ہوتی یا تقریر، جہاں کوئی بات کہنے کی ہوتی ان کا ذہن بے اختیار ارشادات قرآنی کی طرف منتقل ہوجاتا۔ جب بھی ان کے ذہن میں کوئی بات آتی، کوئی حقیقت سامنے آتی، یا کوئی فکر ذہن میں ابھرتی تو قرآن مجید سے اس کی وضاحت ہوجاتی۔ رہا تدبر سو اس باب میں کیا عرض کی جائے۔ علامہ اقبال نے جو کچھ کہا، کچھ سوچا، جو کچھ لکھا، شعر ہو یا فلسفہ قرآن مجید ہی میں تدبر و تفکر کی بدولت۔ مختصراً یہ کہ اقبال کے سرمایہ فکر میں قرآن مجید ہی کی روح کارفرماہے۔عالمی مجلس بیداری فکر اقبال کی ادبی نشست میں “اورتم خوارہوئے تارک قرآں ہوکر” کے عنوان پر محمدکاشف نورنے کہاکہ علامہ کے مطابق جب انسان قرآن وسنت کو اپنی قبولیت اورعدم قبولیت کامعیاربنالیتاہے تو وہ اسرارکتاب تک رسائی حاصل کرلیتاہے۔انہوں نے حضرت علی کی روایت کامفہوم بیان کیا کہ آپۖنے فرمایاایک بہت بڑافتنہ آنے والاہے اوراس سے بچت صرف قرآن مجیدکے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجیدکوحکم بناکر اتاراتاکہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کیاجاسکے لیکن لوگوں نے اس کتاب سے فیصلہ لینے کی بجائے اسی کتاب سے اختلاف شروع کردیا۔ فی زمانہ ہم روح قرآن سے دورہیں جب کہ اقبال چاہتے تھے کہ قرآن مجیدمومن کے ضمیرپر نازل ہو۔مقررین نے کہا کہ ترک قرآن سے مراد ترک تعلیمات قرآن ہے۔ افکارعہدنبوی اور افکار عہد خلافت راشدہ کی مددسے ہم آج پھردنیامیں عروج حاصل کرسکتے ہیں۔ قرآن لامحدودہے لیکن قرآن کاترجمہ اسے محدودکردیتاہے اس لیے ضروری ہے کہ قرآن مجیدکواسی کی زبان میں براہ راست سمجھاجائے۔ قرآن کی زبان کو نصاب تعلیم سے خارج کیاجارہاہے اور عربی اساتذہ کی تقرری ایک عرصے سے معطل ہے تب قرآن مجیدکی تفہیم کیسے ممکن ہوگی اوراسی کانتیجہ ہے نسل نو اسلامی تعلیمات سے دورہوتی چلی جارہی ہے۔ عربی زبان کی تعلیم ازحدضروری ہے اورعلامہ کے مطابق اس کی مددسے ہی ہم دنیامیں اپناوجود منواسکتے ہیں۔بلاشبہ اقبال نے اپنی بیشتر شاعری کو مسلمانوں کیلئے قرآن کی تعلیمات سے آگاہی کا ایک مؤثر ذریعہ بنایا اور اپنے پراثر اشعار کے ذریعے مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے بڑے احسن اور دلنشین انداز میں روشناس کروایا۔ اقبال نے قرآن کے آفاقی پیغام کو ہوبہو اپنے شعروں کے قالب میں ڈھال کر من و عن اسی طرح بیان کر دیا۔ قرآنی پیغام پر مبنی شاعری نے نہ صرف عام مسلمانوں میں جذبہ ایمانی کی نئی روح پھونک دی بلکہ قرآنی تعلیمات کے بیان نے ان کی شاعری میں ایک ایسی لازوال شادابی و آفاقیت پیدا کر دی کہ ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کا یہ کلام تروتازہ و شاداب ہے۔
تقریباً سو سال قبل جب علامہ اقبال نے مسلمانوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا تو اس وقت حالات اس لحاظ سے مزید بد تر تھے کہ بیشتر اسلامی ممالک براہ راست یورپی اقوام کے زیر تسلط تھے۔ خلافت کا قلع قمع ہو چکا تھا اور مسلم مرکزیت ختم کر دی گئی تھی۔ عالم اسلام غیروں کا غلام بن چکا تھا۔ یہ تمام حالات علامہ اقبال کے روبرو تھے۔ ان سے نالاں ہو کر اور خود مسلمانوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر انہوں نے لکھا:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
ان حالات میں علامہ نے مسلمان اور امت مسلمہ دونوں کو جگانے کا فریضہ ادا کیا اور انہیں آزادی کی قدر و قیمت کا احساس دلایا۔ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے گزشتہ صدی کے عظیم فلسفی کا اضطراب ان کی شاعری سے عیاں ہے۔وہ مسلم امہ کو ان کے حقیقی تشخص سے روشناس کرا کے ان کے روایتی وقار و مرتبے کو بلند دیکھنے کے آرزومند تھے۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا نظریہ ان کے افکار کا ترجمان ہے۔انہوں نے مسلمانان برصغیر کی فکری سطح کو بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔آج پوری دنیا کے مسلمان اس سچے عاشق رسول ۖ علامہ اقبال کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر عزت و حمیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔اقبال بلاشبہ ایسے ہی شاعر ہیں جن پہ اللہ کا خاص کرم ہوتا ہے۔ اقبال کی زندگی کا خاصہ قر آن فہمی اور عشقِ قرآن بھی تھا، اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ قرآن کو محض اساطیر الاولین خیال نہ کر لیا جائے بلکہ اس میں موجود 750 آیات جو قرآن کا آٹھواں حصہ بنتا ہے،آیاتِ معاملاتِ عمرانی کو اپنی زیست کا عملی اوڑھنا بچھونا بنا کر دنیا کے سامنے ایک مثالِ عمل پیش کرنی چاہئے۔وہ اس بات سے بھی خوب آشنائی رکھتے تھے کہ قرآن وہ کتاب ہے جو کتابِ صلوة کے ساتھ ساتھ کتابِ اعمال بھی ہے اور دونوں کو عملاً ماننا ایک مومن کی معراج ہے۔
یقیں محکم’ عمل پیہم’ محبت فاتح عالَم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یہ شعر پوری زندگی میں کامیابی کے حصول کے لئے کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ زندگی کے امتحانات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سہ نکاتی حکمت عملی اقبالکی ضمانت یا گارنٹی کا درجہ رکھتی ہے۔ ایمان و یقین کامیابی کا پہلا مرحلہ ہے۔ اپنے ایمانی عقائد پر پختہ یقین کہ کامیابی کا راستہ ”توحید’ رسالت’ آخرت” کے سائے میں طے ہوتا ہے۔ یعنی کائنات اللہ وحدہ لا شریک کی ملکیت ہے ہم اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی عطا کردہ ہدایات کے مطابق کام میں لائیں۔ کبھی اس کی یاد اوراطاعت سے غافل نہ ہوں۔ حضور رسول مقبولۖ کی اطاعت و محبت عظیم ترین اور عزیز ترین سرمایہ حیات ہے اور اللہ کی مخلوق سے حسب مقام و مرتبہ محبت اورخیر خواہی کا طریقہ اپنائیں اور عفو و درگزر سے کام لینے میں مسرت و سکون محسوس کریں۔ یہ پورا فلسفہ حیات قرآن پاک سے ماخوذ ہے۔ جْہدِ مسلسل سے زندگی کو حسن و کمال ملتا اور کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر