وجود

... loading ...

وجود
وجود

سلاطین دہلی

منگل 25 جولائی 2023 سلاطین دہلی

میر افر امان

ہم شہاب الدین محمد غوری بادشاہ کی شہادت کے بعد اس کے منہ بولے بیٹے اور غلام قطب الدین ایبک ترک کا ذ کر چکے ہیں۔ شہاب الدین نے کہا تھا کہ میرا یہ بیٹا قطب الدین ایبک میرے بعد میرا نام روشن کرے گا۔ چنانچہ قطب الدین ایبک کو دہلی کا حکمران بنا کر خود ایران کی شورش کو ختم کرنے چلا گیا تھا۔ یہ دور اسلامی تاریخ میں سلاطین دہلی کا دور کہلاتا ہے ۔ اس کا بانی قطب الدین ایبک تھا۔سلاطین دہلی کی سلطنت کا خاتمہ اس کے دور کے آخری سلطان ابراھیم لودھی کی حکومت کے خاتمہ پر ہوا۔ سلاطین دہلی نے کل245 سال دہلی پر حکومت کی۔یہ حکومت خاندان غلاماں کے پہلے سلطان قطب الدین ایبک سے شروع ہوئی اور آخری لودھی خاندان کے سلطان لودھی خاندان پر ختم ہوئی۔
جہاں تک خاندان غلاماں کا ذکر ہے تو خاندان غلاماں میں کل گیارہ حکمران گزرے ہیں ۔ اس خاندان نے دہلی پر84 سال حکومت کی۔ اس خاندان غلاماں کے سلطان شمس الدین، رضیہ سلطانہ اور غیاث الدین زیادہ مشہور ہوئے۔ سلاطین دہلی میں پھر خلجی خاندان کاظہور ہوا۔ اس خاندان نے کل31 سال دہلی پر حکومت کی۔ ان میں چار سلطانوں نے حکومت کی۔ان میں جو مشہور ہوئے ان کے نام سلطان جلال الدین خلجی اور علاوالدین خلجی ہیں۔ خلیجی سلطنت کے بعد تغلق خاندان بر سرائے اقتدار آیا۔ اس خاندان نے دہلی پر91 سال حکومت کی۔ اس سلطنت کے بانی سلطان غیاث الدین تغلق شاہ ہیں۔اس خاندان کے9 سلطان گزرے ہیں۔ جن میں محمد بن تغلق نے50 سال دہلی پر حکومت کی۔ فیروز شاہ تغلق نے40 سال حکومت کی۔ ناصرالدین محمود شاہ تغلق نے20 سال حکومت کی۔ اس کے بعد دہلی کے تخت پر سید خاندان کا قبضہ ہو گیا۔ اس خاندان نے 37 سال دہلی کے تخت پر حکومت کی۔ اس خاندان کے بانی کا نام خضر خان ہے ۔ اس خاندان کے چار سلاطین گزرے ہیں۔ اس کے بعد پھر دہلی کے تخت پر لودھی خاندان قابض ہوا۔ اس سلطنت کا بانی بہلول لودھی تھا ۔ اس خاندان نے دہلی پر75 سال حکومت کی۔ لودھی خاندان کا آخری سلطان ابراہیم لودھی تھا۔ اس کو مغل سلطنت کے بانی ظہیرالدین بابر نے پانی پت کے مقام پر شکست دیکر دہلی سے سلاطین دہلی کی سلطنت کا خاتمہ کیا۔ مغل سلطنت کی بنیاد رکھی۔
سلاطین دہلی کے دور حکمرانی میں ہندوستان نے شاندار ترقی کی۔ وہ ان خیالات کی وجہ سے ہوئی جو باہر سے تازہ دم سوچ کے مالک، علم و عمل کے نئے طریقے سلاطین نے رائج کیے۔ فرسودہ خیالات کی جگہ لوگوں میں بیداری پیدا کی گئی۔ ان کو ترقی کے راستوں پر لگا دیا گیا۔ عہد وسطی کے ہندوستان کا یہ امتیاز رہا ہے کہ مختلف مذاہب کا گہوارہ ہونے کے باوجود عوام کی اجتماہی زندگی مذہبی تعصب سے پاک تھی۔ فرقہ وارانہ سوچ ختم ہو گئی تھی۔ مذہبی آزادیاں تھیں۔ اکثریت کے خانگی فیصلے ان کے مذہب اوررواج کے مطابق ہوتے تھے۔ ان کو اپنی عبادت گاہوں میں آرام سے اپنی عبادت کرنے کی آزادی تھی۔ یہ وسیع و عریض سلطنت اپنی شان اور چمک دمک دولت اور کلچر نظم و نسق مثالی تھا۔ یہ امن سکون قانون کی حکمرانی انسانی وقار کی ضمانت کا دور تھا۔ علم فن کے نادر مواقع بھی فراہم کرتا تھا۔ جب مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کو اپنامرکز بنایا تو ان کی سلطنت قائم ہوئی۔ جہاں کا نظم و نسق انتظامی امور فوجی و معاشی قوت کے حوالے سے فیصلے کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ مسلم حکمرانوں نے اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کے لیے بہترین عدلیہ اور قانون کا بہتر انتظام کیا۔ جب دہلی کے سلاطین کی حکومت قائم ہوئی تو وہ خود مذہبی اقلیت میں تھے۔ ان کے ارد گرد کثرت سے دوسرے مذاہب کے لوگ تھے۔ ایسی حالت میں سلاطین نے ایسے قانون بنائے کہ عام عوام کا ان پر بھروسہ قائم ہوا۔ وہ اس جدید نظم و نسق سے خوش ہوئے۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ بہتر تعلوقات رکھے۔ سلاطین دہلی نے اکثریت کا خیال رکھتے ہوئے ایسی کتب تصنیف کرائیں جس ان کے حقوق کا بہتر طریقے سے خیال رکھا جاتا تھا۔ اس دور میں علماء نے قانوں پر کتابیں لکھیں جن میں” فتاویٰ تاتارخانیہ” شامل ہے۔ یہ کتاب فیرزز شاہ تغلق کے دور کی قانونی کتاب ہے۔ اس کتاب کا ایک ذی عالم تاتار خان کی سرپرستی میں مرتب کیا گیا تھا۔ اس کتاب کے امتیازی اُوصاف میں یہ ہے کہ قانون کو قرآن و سنت سے نقل کر کے مراتب کیا گیا تھا۔ اس میں آئندہ پیش آنے والے مسائل کا بھی ذکر موجودہے۔”فوائد فرائض شاہی” کتاب فیررز شاہ تغلق کے دور میں مرتب ہوئی۔ غیاث الدین بلبن کے دور میں” فتاویٰ خرسانی” یعقوب کراہی نے مرتب کی۔ سلاطین دہلی کے ٢٤٥سالہ دور میں اور کئی کتابیں جو عوام کے فاہدے کے لیے تھیں مرتب کی گئیں تھیں۔ ہندوستان میںایک وہ مسلم دور تھا جس میں حکمران اقلیتی مذہب اسلام سے تعلق رکھتے تھے اورعوام کے اکثریتی ہندومذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلم اقلیت نے بارہ سوسالہ حکومت میں اکثریت کے مذہب کا خیال رکھا۔ جبکہ بھارت کی متعصب حکومت جسے ابھی حکومت ملنے کے ٧٥ سال ہی ہوئے ہیں۔ مسلم اقلیت کے ناک میں دم کر رکھا۔انصاف پسند طبقوںکے لیے یہ فرق ظاہر کرتا ہے۔ مسلمان حکمران ہندو مذہب کی اکثریت کے دلوں پرحکمرانی کر تے تھے۔آج بھارت کے متعصب حکمران مسلم اقلیت کے دل زخمی کرنے والے ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر