وجود

... loading ...

وجود
وجود

’’عردو کی تالیم‘‘

اتوار 07 مئی 2023 ’’عردو کی تالیم‘‘

علی عمران جونیئر
دوستو،چھٹی جماعت کے امتحانی پرچے میں ایک سوال تھا ۔درج ذیل سات میں سے پانچ الفاظ کواپنے جملوں میں استعمال کریں۔ ان میں ایک لفظ تھا ۔۔’’آب مقطر‘‘۔۔تقریباً تمام طلبہ نے یہ لفظ چھوڑ دیا، ماسوا ایک لڑکی کے ۔۔لڑکی نے اس لفظ کاجملہ کچھ یوں بنایا تھا۔۔میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں ۔۔ممتحن نے اس لڑکی کو کوئی بھی نمبر دیے بغیر اس کا پرچہ علیحدہ رکھ لیا۔دوسرے دن اس نے اسکول کے سارے عملے کو اس لڑکی کاجملہ دکھایا۔ اس کی جماعت میں جاکر اس لڑکی کو بلایا اور اس سے پوچھا ۔۔تمہیں آب مقطر کے معنی معلوم ہیں؟لڑکی نے اقرار کیا کہ اسے معلوم ہیں ۔۔استاد نے پوچھا کیا معنی ہیں؟ آپ ہی نے بتایا تھا کہ قطرہ قطرہ پانی ٹپکے تواسے آب مقطر کہتے ہیں ۔۔استاد نے کہا،شاباش۔اب بتاؤ تم نے کل پرچے میں جملہ بنایا ہے کہ میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں۔ اس کاکیامطلب ہے۔ لڑکی بولی ۔۔دراصل ہماری ٹینکی کی ٹونٹی ہروقت ٹپکتی رہتی ہے۔ امی رات کے وقت اس کے نیچے جگ رکھ دیتی ہیں وہ صبح تک بھر جاتا ہے ،ابو صبح اٹھتے ہیں تو اسی آب مقطر کو لوٹے میں ڈال کر اس سے وضو کرلیتے ہیں۔۔۔اس طالبہ کو استاد نے سو میں سے سو نمبر دے دیے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اردو کا معیار تباہی کی جانب گامزن ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اردو پر زور دیا جاتا ہے، شہروں میں اکثریت نجی اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں اور ان نجی اسکولوں کی ترجیح انگریزی میڈیم ہوتا ہے۔ خود ہم نے پرائمری’’ٹاٹ‘‘ والے اسکول سے پاس کیا، پھر جب چھٹی کلاس میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو ہمارے تمام کلاس فیلوز نے سیکنڈری لیول کے سرکاری اسکول کو ترجیح دی، لیکن ہم نے انگریزی میڈیم میں داخلے کو ترجیح دی، یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ہم نے اے بی سی پہلی بار چھٹی کلاس میں ہی پڑھی، وہاں ’’پہاڑوں‘‘ کو ’’ٹیبل‘‘ کہا جاتا تھا۔بہرحال انگریزی پر توجہ دی اور تھوڑی بہت محنت بھی کرلی۔ لیکن اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی پھر سرکاری ہی ملی۔ ۔اس لئے ہم تعلیمی معیار میں اوسط درجے کے ہی رہے۔ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں تعلیمی معیار ہی ذہانت جانچنے کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، جو بچہ پڑھائی میں اچھا نہیں ہوگا یا ’’ایوریج‘‘ ہوگا، وہ سمجھ لیں کندذہن ہی ہوگا۔ ایسے بچوںکو زیادہ تر مدرسے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیامیں جتنی ایجادات ہوئی ہیں، زیادہ تر موجد پڑھائی میں زیرو بٹانل ہی تھے، بلب سمیت سینکڑوں ایجادات کا بانی تھامس ایلوا ایڈیسن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں اس نے اپنا نام لکھنا سیکھا تھا، اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کا تعلیمی معیار کس لیول کا ہوگا؟؟موجودہ زمانے میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہو یا ونڈوز کے مالک بل گیٹس،ایپل کے مالک اسٹیو جابز ہوں، یہ سب کالج سے بھاگے ہوئے لڑکے تھے۔یعنی ہماری زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔پڑھائی کے چور۔۔
خود ہمارے بچے انگریزی میں تیز ہیں اردو لکھنے پر انہیں موت پڑتی ہے۔موبائل فونز پر رومن تحریر نے بھی ہماری اردو کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ باباجی کہتے ہیں ۔۔ میں نے رومن میں میسیج لکھا۔۔ وہ عطا کو آٹا سمجھتے رہے۔۔چلیں اب کچھ اردو بھی سیکھ لیں۔۔ اکثر ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ درستی اور درستگی دونوں درست ہیں یا صرف درستی؟۔۔اردو اور فارسی میں کسی بھی صفت کے آخر میں’’ ی‘‘ کا اضافہ کرنے کا شروع سے رواج تھا، جیسے خوش سے خوشی، شاد سے شادی، سرد سے سردی، گرم سے گرمی۔۔پھر کچھ ایسے الفاظ سامنے آئے جن کے آخر میں ’’ہ‘‘ تھی، جیسے آوارہ، آزردہ، روانہ، دیوانہ، فرزانہ، جب ان کے آخر میں ’’ی ‘‘کا اضافہ کیا تو لسانیاتی تقاضوں کے تحت اس ’’ہ‘‘ کو’’ گ‘‘ سے بدل دیا گیا اور یہ چلن بھی عام ہوگیا، چنانچہ آوارگی، آزردگی، روانگی، دیوانگی اور فرزانگی استعمال ہونے لگے۔یہاں تک بات ٹھیک تھی، بعد ازاں عوام نے غلط فہمی کی بنیاد پر ناراض سے ناراضی کے بجائے ناراضگی کہنا شروع کردیا، اسی طرح درست سے درستگی بھی عوام میں رواج پاگیا، یہ ناروا سلوک متعدد الفاظ کے ساتھ ہوا، حتی کہ لفظ۔۔ادا سے ادائیگی جیسا عجیب و غریب لفظ بنادیا گیا اور یہ بھی استعمال ہونے لگا۔کسی بھی لفظ کا وہ استعمال زبان میں اضافے کا باعث بنتا ہے جو عوام کے ساتھ ساتھ خواص میں بھی مقبول و مستعمل ہو،ادائیگی چونکہ خواص میں بھی رائج ہوگیا، اس لیے اسے غلط العام کی اصطلاح دے کر درست قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ناراضگی اور درستگی کا استعمال عوام تک محدود رہا، خواص تاحال درستی کے قائل ہیں اوردرستگی پر ناراضی ظاہر کرتے ہیں، اس لیے ان دونوں کو غلط العوام کی قبیل سے شمار کرکے غلط ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہمارے نوجوان صحافی اردو لکھتے ہوئے یکساں آواز والے الفاظ کا خیال بالکل نہیں رکھتے۔اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز،مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے،جیسے۔۔ کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں۔۔اسی طرح اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے،جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے، جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’’ی‘‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیر اعلیٰ، رحمن اور اسحق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں’’ل‘‘ ساکت ہوتا ہے جیسے السلام علیکم اسے’’ل‘‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہوتی ہے۔ اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفت گو کرتے ہوئے ۔۔کردینا ہے، نہیں بلکہ کردیں گے، لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کردو گے(نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کردو گے(نہ کہ کردینی ہے)لکھنا چاہیے۔اردو کے کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آخر میں الف کی آواز دیتے ہیں۔لیکن کسی کے آخر میں ’’ہ‘‘ہے او رکسی کے آخر میں الف آتا ہے۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے تواس کے معانی میںزمین آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پیسا، دانہ او ردانا وغیرہ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کوئی زمانہ تھا جب فقیر کو روٹی پر سالن ڈال کر دیا کرتے تھے۔ اب اِس کا جدید نام ’’ پیزا‘‘ ہے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

’’عردو کی تالیم‘‘
عمران یات
علی عمران جونیئر
دوستو،چھٹی جماعت کے امتحانی پرچے میں ایک سوال تھا ۔درج ذیل سات میں سے پانچ الفاظ کواپنے جملوں میں استعمال کریں۔ ان میں ایک لفظ تھا ۔۔’’آب مقطر‘‘۔۔تقریباً تمام طلبہ نے یہ لفظ چھوڑ دیا، ماسوا ایک لڑکی کے ۔۔لڑکی نے اس لفظ کاجملہ کچھ یوں بنایا تھا۔۔میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں ۔۔ممتحن نے اس لڑکی کو کوئی بھی نمبر دیے بغیر اس کا پرچہ علیحدہ رکھ لیا۔دوسرے دن اس نے اسکول کے سارے عملے کو اس لڑکی کاجملہ دکھایا۔ اس کی جماعت میں جاکر اس لڑکی کو بلایا اور اس سے پوچھا ۔۔تمہیں آب مقطر کے معنی معلوم ہیں؟لڑکی نے اقرار کیا کہ اسے معلوم ہیں ۔۔استاد نے پوچھا کیا معنی ہیں؟ آپ ہی نے بتایا تھا کہ قطرہ قطرہ پانی ٹپکے تواسے آب مقطر کہتے ہیں ۔۔استاد نے کہا،شاباش۔اب بتاؤ تم نے کل پرچے میں جملہ بنایا ہے کہ میرے ابو روزانہ صبح آب مقطر سے وضو کرتے ہیں۔ اس کاکیامطلب ہے۔ لڑکی بولی ۔۔دراصل ہماری ٹینکی کی ٹونٹی ہروقت ٹپکتی رہتی ہے۔ امی رات کے وقت اس کے نیچے جگ رکھ دیتی ہیں وہ صبح تک بھر جاتا ہے ،ابو صبح اٹھتے ہیں تو اسی آب مقطر کو لوٹے میں ڈال کر اس سے وضو کرلیتے ہیں۔۔۔اس طالبہ کو استاد نے سو میں سے سو نمبر دے دیے۔
ہمارا مشاہدہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کی اردو کا معیار تباہی کی جانب گامزن ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اردو پر زور دیا جاتا ہے، شہروں میں اکثریت نجی اسکولوں کو ترجیح دیتے ہیں اور ان نجی اسکولوں کی ترجیح انگریزی میڈیم ہوتا ہے۔ خود ہم نے پرائمری’’ٹاٹ‘‘ والے اسکول سے پاس کیا، پھر جب چھٹی کلاس میں داخلہ لینے کا وقت آیا تو ہمارے تمام کلاس فیلوز نے سیکنڈری لیول کے سرکاری اسکول کو ترجیح دی، لیکن ہم نے انگریزی میڈیم میں داخلے کو ترجیح دی، یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ ہم نے اے بی سی پہلی بار چھٹی کلاس میں ہی پڑھی، وہاں ’’پہاڑوں‘‘ کو ’’ٹیبل‘‘ کہا جاتا تھا۔بہرحال انگریزی پر توجہ دی اور تھوڑی بہت محنت بھی کرلی۔ لیکن اس کے بعد کالج اور یونیورسٹی پھر سرکاری ہی ملی۔ ۔اس لئے ہم تعلیمی معیار میں اوسط درجے کے ہی رہے۔ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ یہاں تعلیمی معیار ہی ذہانت جانچنے کا پیمانہ سمجھا جاتا ہے، جو بچہ پڑھائی میں اچھا نہیں ہوگا یا ’’ایوریج‘‘ ہوگا، وہ سمجھ لیں کندذہن ہی ہوگا۔ ایسے بچوںکو زیادہ تر مدرسے میں داخل کردیا جاتا ہے۔ حالانکہ دنیامیں جتنی ایجادات ہوئی ہیں، زیادہ تر موجد پڑھائی میں زیرو بٹانل ہی تھے، بلب سمیت سینکڑوں ایجادات کا بانی تھامس ایلوا ایڈیسن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ سترہ سال کی عمر میں اس نے اپنا نام لکھنا سیکھا تھا، اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کا تعلیمی معیار کس لیول کا ہوگا؟؟موجودہ زمانے میں فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ہو یا ونڈوز کے مالک بل گیٹس،ایپل کے مالک اسٹیو جابز ہوں، یہ سب کالج سے بھاگے ہوئے لڑکے تھے۔یعنی ہماری زبان میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔پڑھائی کے چور۔۔
خود ہمارے بچے انگریزی میں تیز ہیں اردو لکھنے پر انہیں موت پڑتی ہے۔موبائل فونز پر رومن تحریر نے بھی ہماری اردو کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ باباجی کہتے ہیں ۔۔ میں نے رومن میں میسیج لکھا۔۔ وہ عطا کو آٹا سمجھتے رہے۔۔چلیں اب کچھ اردو بھی سیکھ لیں۔۔ اکثر ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ درستی اور درستگی دونوں درست ہیں یا صرف درستی؟۔۔اردو اور فارسی میں کسی بھی صفت کے آخر میں’’ ی‘‘ کا اضافہ کرنے کا شروع سے رواج تھا، جیسے خوش سے خوشی، شاد سے شادی، سرد سے سردی، گرم سے گرمی۔۔پھر کچھ ایسے الفاظ سامنے آئے جن کے آخر میں ’’ہ‘‘ تھی، جیسے آوارہ، آزردہ، روانہ، دیوانہ، فرزانہ، جب ان کے آخر میں ’’ی ‘‘کا اضافہ کیا تو لسانیاتی تقاضوں کے تحت اس ’’ہ‘‘ کو’’ گ‘‘ سے بدل دیا گیا اور یہ چلن بھی عام ہوگیا، چنانچہ آوارگی، آزردگی، روانگی، دیوانگی اور فرزانگی استعمال ہونے لگے۔یہاں تک بات ٹھیک تھی، بعد ازاں عوام نے غلط فہمی کی بنیاد پر ناراض سے ناراضی کے بجائے ناراضگی کہنا شروع کردیا، اسی طرح درست سے درستگی بھی عوام میں رواج پاگیا، یہ ناروا سلوک متعدد الفاظ کے ساتھ ہوا، حتی کہ لفظ۔۔ادا سے ادائیگی جیسا عجیب و غریب لفظ بنادیا گیا اور یہ بھی استعمال ہونے لگا۔کسی بھی لفظ کا وہ استعمال زبان میں اضافے کا باعث بنتا ہے جو عوام کے ساتھ ساتھ خواص میں بھی مقبول و مستعمل ہو،ادائیگی چونکہ خواص میں بھی رائج ہوگیا، اس لیے اسے غلط العام کی اصطلاح دے کر درست قرار دیا جاتا ہے، جبکہ ناراضگی اور درستگی کا استعمال عوام تک محدود رہا، خواص تاحال درستی کے قائل ہیں اوردرستگی پر ناراضی ظاہر کرتے ہیں، اس لیے ان دونوں کو غلط العوام کی قبیل سے شمار کرکے غلط ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہمارے نوجوان صحافی اردو لکھتے ہوئے یکساں آواز والے الفاظ کا خیال بالکل نہیں رکھتے۔اردو لکھتے ہوئے ہمیں یکساں آواز،مگر مختلف املا کے الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے،جیسے۔۔ کے اور کہ، سہی اور صحیح، صدا اور سدا، نذر اور نظر، ہامی اور حامی، سورت اور صورت، معرکہ اور مارکہ، قاری اور کاری، جانا اور جاناں۔۔اسی طرح اردو کا اہم ذخیرہ الفاظ فارسی کے علاوہ عربی کے الفاظ پر بھی مشتمل ہے،جس میں بہت سی تراکیب بھی عربی کی ہیں، ان کو لکھتے ہوئے ان کے املا کا خیال رکھنا چاہیے، جس میں بعض اوقات الف خاموش (سائلنٹ) ہوتا ہے، جیسے بالکل، بالخصوص، بالفرض، بالغرض وغیرہ۔ جب کہ کہیں چھوٹی ’’ی‘‘ یا کسی اور لفظ پر کھڑی زبر ہوتی ہے، جو الف کی آواز دیتی ہے، جیسے وزیر اعلیٰ، رحمن اور اسحق وغیرہ، اسی طرح بہت سی عربی تراکیب میں’’ل‘‘ ساکت ہوتا ہے جیسے السلام علیکم اسے’’ل‘‘ کے بغیر لکھنا فاش غلطی ہوتی ہے۔ اپنے جملوں میں مستقبل کے بارے میں گفت گو کرتے ہوئے ۔۔کردینا ہے، نہیں بلکہ کردیں گے، لکھنا چاہیے، جیسے اب تم آگئے ہو تو تم بول بول کے میرے سر میں درد کردو گے(نہ کہ کردینا ہے) اب ٹیچر آگئے ہیں تو تم کتاب کھول کر پڑھنے کی اداکاری شروع کردو گے(نہ کہ کردینی ہے)لکھنا چاہیے۔اردو کے کچھ الفاظ ایسے بھی ہوتے ہیں جو آخر میں الف کی آواز دیتے ہیں۔لیکن کسی کے آخر میں ’’ہ‘‘ہے او رکسی کے آخر میں الف آتا ہے۔ انہیں لکھتے ہوئے غلطی کی جائے تواس کے معانی میںزمین آسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ جیسے گِلہ اور گلا، پیسہ اور پیسا، دانہ او ردانا وغیرہ۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔کوئی زمانہ تھا جب فقیر کو روٹی پر سالن ڈال کر دیا کرتے تھے۔ اب اِس کا جدید نام ’’ پیزا‘‘ ہے۔۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر