وجود

... loading ...

وجود

وزیراعظم کا دورہ لندن، نواز شریف اور شہباز شریف ملاقات میں اہم چیلنجز کیا ہیں؟

جمعه 05 مئی 2023 وزیراعظم کا دورہ لندن، نواز شریف اور شہباز شریف ملاقات میں اہم چیلنجز کیا ہیں؟

باسط علی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

٭ مسلم لیگ (ن) انتخابات کو اس وقت تک مؤخر کرنا چاہتی ہے جب تک معاشی صورتحال قابو میں نہ آجائے اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے کھوئی ہوئی سیاسی حمایت پارٹی کو دوبارہ حاصل نہ ہوجائے


٭ نون لیگی کچھ پارٹی رہنما نوازشریف کی واپسی اور عمران خان کی نااہلی سے قبل کسی بھی نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں، ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ اس سیاسی پوزیشن کی اسٹیبلشمنٹ کتنی دیر تک حمایت کر سکے گی؟


٭مریم نواز اور نوازشریف کے حامی اندرونی حلقے میں بھی کچھ سمجھدار یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ مریم نواز پارٹی کے لیے اثاثہ سے زیادہ بوجھ ہے اوروہ پارٹی پر اپنی گرفت قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی
٭٭٭

موجودہ حکومت کے تمام اہم لوگ ملک سے باہر کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی دورے پر رہنے کا یوں بھی کوئی موقع ضائع نہیں کرتے۔ مگر شریف خاندان کو لندن سے کچھ زیادہ ہی انسیت ہے۔چنانچہ لندن جانے کے لیے کسی بھی غیر اہم موقع تک کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ملک کی زبوں حال معیشت میں سادگی کے دعووں کے باوجود وزیراعظم شہباز شریف شاہ چارلس سوئم کی رسم تاجپوشی سے کئی روز قبل ہی لندن پہنچ گئے ہیں۔ استعمار کی علامت اس منصب کے خلاف حریت پسندوں کی نفرت ظاہر وباہر ہے۔ مگر دوسری طرف دنیا بھر میں مٹھی بھر اشرافیہ ایسے مواقع کا للچائی نگاہوں سے انتظار کرتے ہیں۔ اِسے ایک تاریخی موقع باور کرایا جاتا ہے۔ اور ایسے دوروں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔مسلمانوں پر سب سے زیادہ ظلم برطانوی بادشاہت کے ان ہی غلیظ ترین ادوار میں کیا گیا۔ مسلم سلطنتوں کو توڑنے اور اسرائیل کے قیام سے لے کر بالکانائزیشن کا پورا کھیل برطانوی بادشاہت کی اشیرباد سے ہوتا رہا۔ اب وزیراعظم شہباز شریف اس کھیل کے مرکز میں شاہ چارلس سوئم کی رسم تاجپوشی میں شرکت کریں گے۔ اس تاریخی پہلو سے قطع نظر وزیراعظم شہبازشریف کے لیے یہ دورہ سیاسی لحاظ سے بھی ایک تناظر رکھتا ہے۔ چنانچہ وزیراعظم شہباز شریف شاہ چارلس سوئم کی رسم تاجپوشی کی تقریب سے کئی دن پہلے ہی لندن روانہ ہوگئے۔ جہاں اُن کا ایئرپورٹ پر پاکستان کے ہائی کمشنر معظم احمد خان اور برطانوی سیکریٹری خارجہ کے خصوصی نمائندے ڈیوڈ گورڈن میک لیوڈ نے استقبال کیا۔افسوس ناک عمل یہ ہے کہ وزیراعظم کے استقبال کے لیے سیکریٹری خارجہ بھی موجود نہ تھے۔
وزیر اعظم 5 مئی کو لندن میں دولت مشترکہ کے رہنماؤں کی ایک تقریب میں شرکت کریں گے اور اگلے روز شاہ چارلس سوئم کی تاجپوشی کی تقریب میں شرکت کریں گے۔اس دوران اور بعد میں وہ اپنے بڑے بھائی اور سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف سے ملک کی سیاسی صورتحال پر مشاورت کریں گے۔شہبا ز شریف ایک ایسے موقع پر لندن پہنچے ہیں جب اُن پر توہین عدالت کی تلوار لٹک رہی ہے اور وہ عدالت کے خلاف ایک بڑا محاذ کھول چکے ہیں جس میں وہ پارلیمنٹ کو عدالت کے مقابل لے آئے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے خلاف تقاریر اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں۔ یہاں تک کہ توہین عدالت کے بالمقابل اب توہین پارلیمنٹ کی وضعی اصطلاح بھی باربار استعمال کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شہبازشریف کے حوالے سے تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ وہ اس پوری صورتِ حال میں اپنے بڑے بھائی نوازشریف کی مرضی اور اپنی رائے کے برخلاف بروئے کار ہیں۔ اس جنگ وجدل کے ہنگام مسلم لیگ نون کے سامنے اور بھی متعدد چیلنجز ہیں جن کا اس جماعت کو مسلسل سامنا ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ نون کی گرتی ہوئی ساکھ اور قریب الاختتام مقبولیت نے اس جماعت کے لیے اگلے کسی بھی انتخابات کے لیے جیت کے مواقع محدود کر دیے ہیں۔ ایسے میں باسی کڑھی میں ایک ابال کے لیے نواز لیگ کے اکثر ارکان خود نوازشریف کی ملک واپسی کے خواہاں ہیں۔ اس حوالے سے مریم نواز کی پاکستان میں موجودگی کوئی خاص نتائج پیدا کرنے میں کامیاب نہیں رہی۔ اور اب خود مریم نواز اور نوازشریف کے حامی اندرونی حلقے میں بھی کچھ سمجھدار عناصر یہ یقین کرنے لگے ہیں کہ مریم نواز پارٹی کے لیے اثاثہ سے زیادہ بوجھ ہے۔ اور مریم نواز کم ازکم پارٹی پر اپنی گرفت بھی قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گی۔ جہاں اُنہیں پارٹی کے سینئر لوگوں کی طرف سے نظرانداز کیے جانے کا خطرہ بھی اُبھر رہا ہے۔ دوسری طرف اطلاعات ہیں کہ موجودہ مسلم لیگ نون کے انتخابی ٹکٹ بھی اب اپنی کوشش کھوتے جارہے ہیں۔ چنانچہ پنجاب میں بہت سے ایسے الیکٹ ایبلز ہیں جو مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اب نون لیگ کے ٹکٹ میں کچھ زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیتے۔ نون لیگ کے لیے خود اپنی جماعت کے یہ چیلنجز ایسے ہیں جس میں پارٹی کے اہم لوگ نوازشریف کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ مگر نواز شریف اس حوالے سے شہبازشریف سے جس ماحول کے طالب ہے وہ ماحول خود شہبازشریف بھی پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ چنانچہ نوازشریف پاکستان آنے سے گریزاں ہیں۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت اور عدلیہ اور اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کے درمیان محاذ آرائی اور پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کے عدالتی حکم سمیت بہت سے دوسرے چیلنجز بھی ہیں، جس میں خود حکومت رہنے یا نہ رہنے کے علاوہ پی ڈی ایم کے تیرہ جماعتی اتحاد کا مستقبل بھی شکو ک کے گرداب میں ہے۔ یوں شہبازشریف اور نوازشریف کے درمیان ملاقات کے دوران میں ان تمام مذکورہ امور سمیت مسلم لگ (ن) کے مستقبل کے لائحہ عمل اور نواز شریف کی وطن واپسی سمیت کئی اہم امور زیربحث آنے کا امکان ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے شہباز شریف 3 بار لندن کا دورہ کر چکے ہیں، آخری بار وہ نئے آرمی چیف کے تقرر سے قبل نومبر 2022 میں لندن گئے تھے۔ایسے وقت میں جب حکمران اتحاد اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کے لیے جاری مذاکرات کا مستقبل اب مشکوک ہوچکا ہے۔ اور تحریک انصاف 14/ مئی کے پنجاب انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے۔ اب مستقبل کا سیاسی نقشہ ایک بار پھر خوف ناک بحرانوں کی لپیٹ میں ہے۔ چنانچہ وزیراعظم شہبازشریف دورہ لندن کے دوران اپنے بڑے بھائی کو ملک کی اس سیاسی صورتحال سے آگاہ کریں گے اور مستقبل کے لائحہ عمل پر ان سے مشاورت کریں گے۔تین بار وزیر اعظم بننے اور ایک تجربہ کار سیاستدان کے طور پر نواز شریف کے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اپنے بھائی سے یہ مشورہ ضرور لینا چاہیں گے کہ 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ کی ڈیڈ لائن کا ردعمل کیسے دیا جائے۔تاہم تجزیہ کاروں کا اس باب میں نوازشریف کے اُس کیفیت کا بھی پوری طرح اندازا ہے جس میں وہ موجودہ بحرانوں پر قابو پانے کے بجائے اُس کے بڑھنے کا خطرہ مول لے کر سخت رویہ اختیار کرنے کے قائل دکھائی دیتے ہیں۔ اس پوری کیفیت کے سیاسی حالات پر مرتب ہونے والے اثرات سمیت اس کی زد میں اسٹیبلشمنٹ بھی پوری طرح آچکی ہے جنہیں حالیہ دنوں میں شدید عوامی غضب کا سامنا ہے۔ اور عوامی حمایت میں پیدا ہونے والی گراؤٹ نے اُن کے اثرات کی کمی کو بھی ایک مسئلے کے طور پر اجاگر کیا ہے۔ یہ سارے معاملات انتخابات سے جڑے ہیں۔ جس سے مسلم لیگ نون اور موجودہ تیرہ جماعتی اتحاد اپنا دامن بچا رہا ہے۔ ایسے ماحول میں مسلم لیگ نون کے لیے خود جماعتی سطح پر یہ فیصلہ کرنا ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اب کیا کریں۔ اگرچہ انتخابات کی حتمی تاریخ کا فیصلہ پی ڈی ایم میں شامل اتحادیوں کی جانب سے مشترکہ طور پر کیا جائے گا لیکن مولانا فضل الرحمٰن اور آصف علی زرداری جیسے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ نواز شریف کے تعلقات ہی اتفاق رائے پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔جبکہ یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی عدالتی فیصلے کے بعد اس پر اگر عمل درآمد کا مسئلہ ہوا تو موجودہ تیرہ جماعتی اتحاد اس پر متفق نہیں رہ سکے گا۔ پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق شہباز شریف کے دورہ لندن کے دوران شہباز شریف اگر چہ اپنے بڑے بھائی سے اِن تمام مسائل پر بات کریں گے لیکن میاں صاحب ان تمام مسائل پر پہلے سے ہی مکمل طور پر آگاہ ہیں اور وہ آن لائن مختلف رہنماؤں کو الگ الگ ہدایات دیتے رہتے ہیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف عدلیہ کے ساتھ جاری کشمکش میں اپنی شدت پسندانہ رائے کا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں۔ اس لیے موجودہ عدلیہ اور حکومت کی جاری کشمکش میں نوازشریف کی جانب سے اختیار کی گئی حکمت عملی بالکل واضح ہے۔ نوازشریف عدلیہ کے احتساب کا مطالبہ پہلے ہی کر چکے ہیں۔ وہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر بھی مسلسل تنقید کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی اور وزیراعظم شہبازشریف کو مزاحمت کی پالیسی میں شدت لانے کا ہی کہیں گے۔
جہاں تک انتخابات کا تعلق ہے تو اب یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ مسلم لیگ (ن) انتخابات کو اس وقت تک مؤخر کرنا چاہتی ہے جب تک معاشی صورتحال قابو میں نہ آجائے اور مہنگائی سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے کھوئی ہوئی سیاسی حمایت پارٹی کو دوبارہ حاصل نہ ہوجائے۔یہ معاملہ تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ کیونکہ معاشی صورتِ حال پر قابو پانے کے کوئی آثار دور دور تک نظر نہیں آتے۔معاشی ماہرین کے مطابق اگلا بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی سے بنے گا۔ جس میں عوام کو ریلیف دینا تقریباً ناممکن ہوگا۔ نون لیگ کے پاس ایسی کوئی جادوئی چھڑی نہیں جسے وہ گھما کر مہنگائی کا جن بوتل میں بند کرسکے۔ چنانچہ مسلم لیگ نون تیرہ جماعتی مخلوط حکومت کے اتحاد میں وہ جماعت ضرور ہے جو بہر صورت پنجاب میں انتخابات کا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش میں ہے۔ اس کے برعکس دیگر جماعتیں پہلے سے ہی پنجاب میں کوئی عوامی نمائندگی نہ رکھنے کے باعث اس موقف میں کس حدتک آگے جانا چاہیں گے، وہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نون پیپلزپارٹی کے حالیہ دنوں میں اختیار کیے گئے موقف پر بھی قدرے پریشان ہے جو سپریم کورٹ میں کسی ممکنہ عدالتی فیصلے کے بعد بالکل مختلف رویے کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ جبکہ نون لیگ میں موجود کچھ پارٹی رہنما نوازشریف کی واپسی اور عمران خان کی نااہلی سے قبل کسی بھی نئے انتخابات کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اس سیاسی پوزیشن کی اسٹیبلشمنٹ کتنی دیر تک حمایت جاری رکھ سکے گی؟
٭٭٭


متعلقہ خبریں


ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...

ہم دشمن کو چھپ کر نہیں للکار کر مارتے ہیں ،فیلڈ مارشل

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...

ایک مائنس ہوا تو کوئی بھی باقی نہیں رہے گا،تحریک انصاف

جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، وزیراعظم وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں،شہباز شریف فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما تفریق کی بات کرتے ہیں، خطاب وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جادوٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم شہ...

جادو ٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، وزیراعظم

عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر غور وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے،اختیار ولی قیدی نمبر 804 کیساتھ مذاکرات کے دروازے بندہو چکے ہیں،نیوز کانفرنس وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ...

عمران خان کو اڈیالہ جیل سے منتقل کرنے پر غور

ملک میں ایک جماعتسیاسی دجال کا کام کر رہی ہے ،بلاول بھٹو وجود - جمعرات 11 دسمبر 2025

وزیر اعلیٰ پنجاب سندھ آئیں الیکشن میں حصہ لیں مجھے خوشی ہوگی، سیاسی جماعتوں پر پابندی میری رائے نہیں کے پی میں جنگی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں،چیئرمین پیپلزپارٹی کی کارکن کے گھر آمد،میڈیا سے گفتگو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں ایک سیاسی...

ملک میں ایک جماعتسیاسی دجال کا کام کر رہی ہے ،بلاول بھٹو

عمران خان پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

قراردادطاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی، بانی و لیڈر پر پابندی لگائی جائے جو لیڈران پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کر لی گئی۔قرارداد مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی طاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی...

عمران خان پر پابندی کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور

حکومت سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

شہباز شریف نے نیب کی غیر معمولی کارکردگی پر ادارے کے افسران اور قیادت کی تحسین کی مالی بدعنوانی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ، تقریب سے خطاب اسلام آباد(بیورورپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نیب کے ذریعے کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام اور کا...

حکومت سیاسی انتقام، کارروائی پر یقین نہیں رکھتی، وزیراعظم

پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میںسیسہ پلائی دیوار ،فیلڈ مارشل وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ پلائی دیوار تھی اور آج بھی آہنی فصیل ہے 8 جدید ہنگور کلاس آبدوزیں جلد فلیٹ میں آرہی ہیں،نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف کا پیغام چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ 1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ ...

پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میںسیسہ پلائی دیوار ،فیلڈ مارشل

وسائل پر قابض اشرافیہ ملک کو نوآبادیاتی طرز پر چلا رہی ہے،حافظ نعیم وجود - بدھ 10 دسمبر 2025

دینی درسگاہوں کے اساتذہ وطلبہ اسلام کے جامع تصور کو عام کریں، امت کو جوڑیں امیر جماعت اسلامی کا جامعہ اشرفیہ میں خطاب، مولانا فضل الرحیم کی عیادت کی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ وسائل پر قابض مراعات یافتہ طبقہ اور افسر شاہی ملک کو اب تک نوآبادیاتی ...

وسائل پر قابض اشرافیہ ملک کو نوآبادیاتی طرز پر چلا رہی ہے،حافظ نعیم

بھارت کو اگلا جواب زیادہ شدیدہوگا،فیلڈ مارشل وجود - منگل 09 دسمبر 2025

تمام یہ جان لیں پاکستان کا تصور ناقابل تسخیر ہے،کسی کو بھی پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت پر آنچ اور ہمارے عزم کو آزمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چیف آف ڈیفنس فورسز بھارت کسی خود فریبی کا شکار نہ رہے، نئے قائم ہونے والے ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز میں بنیادی تبدیلی تاریخی ...

بھارت کو اگلا جواب زیادہ شدیدہوگا،فیلڈ مارشل

ہمیں سرٹیفیکٹ نہیں دیا،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی پر پابندی کیسے لگائی(چیئرمین تحریک انصاف) وجود - منگل 09 دسمبر 2025

سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے سے کام نہیں چلے گا، کچھ فارم 47 والے چاہتے ہیں ملک کے حالات اچھے نہ ہوں، دو سال بعد بھی ہم اگر نو مئی پر کھڑے ہیں تو یہ ملک کیلئے بد قسمتی کی بات ہے پی ٹی آئی بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ انتخابات کیلئے اپنا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ،بانی پی ٹ...

ہمیں سرٹیفیکٹ نہیں دیا،الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی پر پابندی کیسے لگائی(چیئرمین تحریک انصاف)

کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے،شرجیل میمن وجود - منگل 09 دسمبر 2025

بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں،بیان سندھ کے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس...

کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس نہیں کرنی چاہیے،شرجیل میمن

مضامین
جب خاموشی محفوظ لگنے لگے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
جب خاموشی محفوظ لگنے لگے!

riaz وجود جمعه 12 دسمبر 2025
riaz

ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے! وجود جمعه 12 دسمبر 2025
ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!

شادیوں میں نمود و نمائش ۔۔بھارتی ثقافت کا بڑھتا اثر وجود جمعرات 11 دسمبر 2025
شادیوں میں نمود و نمائش ۔۔بھارتی ثقافت کا بڑھتا اثر

کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے وجود جمعرات 11 دسمبر 2025
کشمیریوں کے گھروں پر چھاپے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر