وجود

... loading ...

وجود
وجود

عتیق احمد کے بعد روشنی اہیروار

منگل 02 مئی 2023 عتیق احمد کے بعد روشنی اہیروار

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عتیق اور اشرف کی ہلاکت کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچا تو یوگی سرکار کے ہوش ٹھکانے آگئے ۔جمعہ کو سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے اتر پردیش حکومت سے نہ صرف دو ہفتے قبل پولیس حراست میں عتیق و اشرف کے قتل بلکہ اسد انکاونٹر کی رپورٹ بھی طلب کر لی ۔ سپریم کورٹ نے سوال کیا عتیق اور اس کے بھائی کو ایمبولینس میں اسپتال کیوں نہیں پہنچایا گیا؟ انہیں چلنے پر کیوں مجبور کیا گیا ؟ یوگی حکومت نے اپنی صفائی میں کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق انہیں ہر دو دن بعد طبی معائنہ کے لیے لے جانا پڑتا ہے ۔ اس معاملہ میں حکومت مدافعت میں آگئی اور بولی کہ تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ہے ۔عتیق احمد کے وکیل وشال تیواری نے الزام لگایا گیا کہ عتیق سمیت خاندان کے افراد کا قتل عدالتی عمل سے علی الرغم مجرموں کو ختم کرنے کے نمونے کا حصہ ہے ۔ یوگی سرکار میں اگر ہمت ہوتی تو عدالت کے اندر ببانگِ دہل اعتراف کرلیتی لیکن عوام میں کچھ اور عدالت کے اندر اس کے برخلاف موقف اختیار کرنا عفرانیوں کا پرانا پاکھنڈ ہے ۔
عتیق احمد کے بہیمانہ قتل کی واردات کے بعد وزیر اعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ چندرا چندرا کر کہہ رہے ہیں کہ مافیا کو مٹی میں ملا دیا گیا ہے ۔ اتر پردیش میں اب قانون و انتظام بالکل چست اور درست ہوچکا ہے لیکن گزشتہ چند دنوں میں سلسلہ وار قتل کی وارداتیں وزیر اعلیٰ کے کھوکھلے دعووں کو منہ چڑھاتی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال ایٹا کوتوالی علاقہ کے تحت کوٹرہ تیراہے پر آندھا گاؤں کی رہنے والی روشنی اہیروار (20) بنتِ مان سنگھ اہیروار کا دن دہاڑے سر راہ چلتے ہوئے تھانے سے محض دو سو میٹر کے فاصلے پر گولی مار کر قتل ہے ۔ ریاست کے اندر فی الحال جرائم پیشہ بدمعاشوں کے حوصلے آسمان کو چھو رہے ہیں اور وہ اپنے کارناموں سے یوگی حکومت کے بلند بانگ دعوے کو مٹی میں ملا رہے ہیں۔ پولیس ریمانڈ میں ملزم کا تحفظ انتظامیہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے اور اسے ادا کرنے میں یوگی سرکار بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ عتیق اور اشرف کا پولیس کی حراست میں قتل دراصل حکومت کی بہت بڑی ناکامی ہیں۔ یہ نہایت بے حیا سرکار ہے ورنہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کوتاہی کے سبب یا تو وزیر اعلیٰ استعفیٰ دے دیتے یا انہیں مرکزی حکومت باہر کا راستہ دکھا دیتی لیکن بے شرم جنتا پارٹی میں یہ روایت ہی نہیں ہے ۔
عتیق و اشرف قتل کے دودن بعد یو پی کے جالون ضلع میں روشنی اہیروار کے قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ وہ طالبہ رام لکھن پٹیل کالج سے بی اے کے دوسرے سال کا امتحان دے کر گھرلوٹ رہی تھی کہ دو موٹر سائیکل سوار نوجوان اس کو گولی مار کر اور اپنا پستول موقع واردات پر چھوڑ کے فرار ہوگئے ۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشہ ور قاتل نہیں ہیں لیکن چونکہ یوگی جی نے عام لوگوں کو ہیرو بننے کی خاطر مار دھاڑ کا یہ نسخۂ کیمیا سجھا دیا ہے اس لیے جو چاہتا ہے بے دریغ اس کا استعمال کرتا ہے ۔ قتل کے اطلاع پاتے ہی پولیس موقع واردات پر پہنچی نیز جانچ کے بعد راج اہیروار کو گرفتار کر لیا۔ شرپسندوں نے پولیس اسٹیشن سے تقریباً 200 میٹر کے فاصلے پر واردات کو انجام دینا یہ بتاتا ہے کہ مجرم پیشہ لوگ کتنے بے خوف ہوچکے ہیں۔ روشنی اہیروار کی خون میں لت پت زمین پر پڑی لاش اور مقامی لوگوں کی بھیڑوالی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی تو یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگی۔ بہت سارے سوشل میڈیا صارفین نے ریاست میں امن و امان کی صورتحال پر سوال اٹھائے ۔
اس قتل سے علاقے میں کہرام مچ گیااور تفتیش جاری ہے ۔ اب یہ پتہ لگانا اہم ہے کہ انہوں نے یہ کارنامہ انجام دینے کے بعد’جئے شری رام ‘کا نعرہ لگایا یا نہیں؟ فی زمانہ یہ نعرہ سارے جرائم کے لیے سورکشا کووچ (تحفظ کی ڈھال ) بناہواہے ۔ یوگی یگ میں انسان جتنا چاہے سنگین جرم کرلے ایک نعرۂ مستانہ سے اس کے سارے پاپ دھل جاتے ہیں اور پوتر ہوجاتا ہے ۔ بعید نہیں کہ دن دہاڑے کنپٹی پر رکھ کر بندوق چلانے والاراج اہیروار بھی عتیق کے قاتلوں کی مانند یہ کہہ دے کہ اس نے مشہور ہونے کے لیے یہ حرکت کی کیونکہ اس کے بڑے فائدے ہیں اور کوئی نقصان تو سرے سے ہے ہی نہیں ورنہ نروڈا گام کے خود اعترافی مجرم بابو بجرنگی کے ساتھ مایا کوندنانی کو احمد آباد کی اسپیشل کورٹ میں رہائی نصیب نہیں ہوتی اور وہاں بھی اس ناعاقبت اندیش فیصلے کے بعد جئے شری رام کا نعرہ نہیں لگایا جاتا۔ آج کل ہر ایرا غیر ا نتھو خیرا اپنی بزدلی ثابت کرنے کے لیے یا اپنے مظالم کی پردہ پوشی کے لیے رام کے شرن میں دبک کر بیٹھ جانا کافی سمجھتا ہے ۔
قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ اسد اور غلام کے انکاونٹر سے شروع ہوا۔سماجوادی پارٹی کے سربراہ اور یوپی کے سابق وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے اسے فرضی بتاتے ہوئے بی جے پی حکومت پرنشانہ سادھا ہے ۔انہوں نے کہا تھا کہ یہ انکاؤنٹر جھوٹا اور بے بنیاد ہے ۔ بی جے پی عوام کو اصل مسائل سے ہٹانا چاہتی ہے ۔ایس پی کے سربراہ نے کہا کہ حالیہ انکاؤنٹر کی خاص تفتیش ہونی چاہئے اور مجرموں کو کسی بھی قیمت پر چھوڑا نہ جائے ۔ ایس پی صدر اکھلیش یادو نے ٹویٹ کہا کہ، ”بی جے پی والے عدالت پر یقین نہیں رکھتے ۔ صحیحـغلط کے فیصلے کا حق اقتدار والی پارٹی کو بھی نہیں ہوتا ہے ۔ بی جے پی بھائی چارے کے خلاف ہے” ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے بھی یوپی کی یوگی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے اس انکاونٹر پر سوال اٹھائے تھے ۔انہوں نے کہا تھا کہ ، کیا بی جے پی والے جنید اور ناصر کے قاتلوں کو بھی گولی ماریں گے ، ان کا انکاونٹر نہیں کروگے کیونکہ تم (بی جے پی) مذہب کے نام پر انکاونٹر کرتے ہو۔ یہ انکاونٹر نہیں ہے ، قانون کی دھجیاں اڑ رہی ہیں۔ اسدالدین اویسی نے یہ الزام بھی لگایا، تم لوگ انکاونٹر نہیں، آئین کا انکاونٹر کرنا چاہتے ہو۔ عدالت کس لئے ہے ، اورآئی پی سی اور سی آرپی سی کس لئے ہے ؟ اگرتم لوگ فیصلہ کروگے کہ گولی سے انصاف کریں گے تو عدالتوں کو بند کردو ۔ ججوں کا کیا کام ؟
ایک طویل عرصہ سے خاموش مایاوتی بھی اسد کے انکاونٹر پر خاموش نہیں رہ سکیں ۔ بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی ٹوئٹ کرکے کہا، پریاگ راج کے عتیق احمد کے بیٹے اور ایک دیگر کا آج پولیس انکاونٹر میں ہوئے قتل پر مختلف طرح کی بحث ہے ۔ لوگوں کو لگتا ہے کہ وکاس دوبے سانحہ کے دوہرائے جانے کا ان کا خدشہ سچ ثابت ہوا ہے ۔ آخرکار حادثہ کے پورے حقائق اور سچائی عوام کے سامنے آسکے اور اس کے لیے اعلیٰ سطحی جانچ ضروری ہے ”۔ اتر پردیش کی یوگی سرکار ماورائے قانون قتل و غارتگری پر فخر کرتی ہے ۔ وہ اب تک تقریباً ڈیڑھ سو لوگوں کو اس طرح جعلی انکاونٹر میں ہلاک کرچکی ہے مگر اس سے جرائم میں کمی نہیں آئی اور آج بھی سرکاری اعدادوشمار کے مطابق کئی قسم کے جرائم میں اترپردیش سرِ فہرست ہے کیونکہ مختلف طبقات کے مجرم خود کو بے خوف محسوس کرنے لگے ہیں اور شتر بے مہار کی مانند مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں ۔ حکومت نے ان کو کھلی چھوٹ دینے کی خاطر جعلی انکاونٹرس کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔
اتر پردیش میں پولیس نے پہلے عتیق احمد کے بیٹے کا انکاونٹر کیا اور پھر غنڈوں نے انتظامیہ کی موجودگی میں عتیق کو ہلاک کردیا ۔ رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے اس قتل پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس معاشرے میں قاتل ہیرو ہوں وہاں عدالت اور نظام عدل کا کیا فائدہ؟ عتیق اور اس کا بھائی پولیس کی حراست میں تھے ۔ انہیں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ انکاؤنٹر راج کا جشن منانے والے بھی اس قتل کے ذمہ دار ہیں۔ یہ بالکل درست بات ہے کیونکہ وہ جشن نہیں منایا جاتا تو روشنی اہیروار موت کے گھاٹ نہیں اتاری جاتی۔ اویسی نے کہا تھا کہ یوپی میں بی جے پی کی حکومت قانون کے تحت نہیں بلکہ بندوق کے زور پر چل رہی ہے اور اب نہ صرف سرکار بلکہ عوام بھی گولی چلا رہے ہیں۔اویسی نے اس واقعہ کو ‘کولڈ بلڈڈ ‘ قتل سے تشبیہ دی ۔ انہوں نے اس بابت سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک کمیٹی کا مطالبہ کیا جس میں اتر پردیش کا کوئی افسر موجود نہ ہو۔قتل کے بعد چونکہ نعرے لگے اس لیے قاتلوں کو دہشت گرد کے لقب سے نوازو۔اویسی نے وزیر اعظم کو یاد دلایا وہ کہتے ہیں ‘میری سپاری لی گئی ہے ‘۔ اس کے بعد پوچھا اس ریاست میں کیا ہو رہا ہے جہاں سے وہ رکن پارلیمان ہیں۔ وہاں کا ہر شہری خود کو غیر محفوظ اور کمزور محسوس کر رہا ہے ۔عتیق اور اشرف قتل کے بعد اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے کہا ہے کہ اتر پردیش میں جرائم عروج پر پہنچ چکے ہیں اور مجرموں کے حوصلے بلند ہیں۔ جب پولیس کے گھیرے میں کھلے عام فائرنگ کر کے کسی کو مارا جا سکتا ہے تو پھر عام لوگوں کی حفاظت کا کیا ہوگا؟ جس کی وجہ سے عوام میں خوف کا ماحول پیدا ہو رہا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ کچھ لوگ جان بوجھ کر ایسا ماحول بنا رہے ہیں۔روشنی اہیروار کا قتل اس بیان کی تائید کرتا ہے ۔ یوگی جی اگر اپنی عقل سے نہ سہی تو کم ازکم دیگر رہنماوں سے بھی سیکھ لیتے تو نہ اسد اور غلام کا انکاونٹر ہوتا اور نہ عتیق و اشرف کا قتل ہوتا نیز روشنی اہیروار بھی اس انجام سے دوچار نہ ہوتی۔عتیق اوراشرف کے قتل پرخوش ہونے یا خاموش رہنے والوں کو نواز دیوبندی کا یہ قطعہ یادرکھنا چاہیے
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپر آپ کا ہے
آگے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پہ تم بھی چپ ہو اگلا نمبر آپ کا ہے
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر