وجود

... loading ...

وجود
وجود

چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس: بے نتیجہ مشق، دباؤ میں لانے کا حربہ

پیر 10 اپریل 2023 چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس: بے نتیجہ مشق، دباؤ میں لانے کا حربہ

باسط علی
۔۔۔۔۔

٭ حکومت کی جانب سے کوئی بھی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بذریعہ صدر ہی جاسکتا ہے، ریفرنس کی جائزہ کمیٹی کا اجلاس بھی چیف جسٹس کو ہی طلب کرنا ہوتا ہے


٭ کسی جج کے خلاف ریفرنس کے مراحل مکمل ہو نے پرسپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے متعلقہ جج کو انکوائری نوٹس ملتا ہے، جس پر وہ سپریم کورٹ میں اس ریفرنس کو چیلنج کر سکتے ہیں


٭ حکومت نے چیف جسٹس عمر عطابندیال پردباؤ ڈالنے کی ایک منظم مہم اختیا رکررکھی ہے، استعفے کا مطالبہ، ریفرنس اور سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل اسی کا حصہ ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ اب کوئی راز نہیں رہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کے خلاف مسلم لیگ نون نے ایک منظم مہم برپا کر رکھی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنے ہی ادارے کے اندر اور باہر سے مسلسل نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کے خلاف سب سے پہلے مریم نواز نے گفتگو کا آغاز کیا۔ لندن واپسی کے بعد وہ ایک نئے بیانئے کی تلاش میں تھی۔ ابتدا میں یہ خبریں گردش کرتی رہیں کہ وہ سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید کو نشانا بنانے والی ہیں۔ اس حوالے سے ایک دوبیان بھی اُن سے منسوب ہوئے مگر پھر یہ اطلاع گردش میں آئی کہ پہلے جنرل(ر) باجوہ کی طرف سے یہ پیغام پہنچایا گیا کہ وہ موجودہ بندوبست کے حوالے سے تمام ثبوت سامنے لاسکتے ہیں۔ اور اگر وہ زد میں آئے تو محفوظ پھر کوئی بھی نہیں ہوگا۔ دوسری جانب سے بھیجے جانے والے پیغام میں باور کرایا گیا کہ اُن کی جانب سے جو اقدامات بھی اُٹھائے گئے وہ سب ”باس“ کے احکامات کا نتیجہ تھے۔ چنانچہ اُن کے پاس بھی ”کہنے“اور”دکھانے“ کو بہت کچھ ہیں۔ ان مبینہ اطلاعات کی تصدیق سے پہلے ہی ایک اثر یہ دیکھنے میں آیا کہ مریم نواز کی تقاریر سے دونوں ریٹائرڈ جرنیلوں کا ذکر غائب ہو گیا۔ تاہم وہ سپریم کورٹ کے حاضر جج صاحبان کو اسٹیبشلمنٹ کے قائم مقام ثابت کرنے پر تُلی رہیں اور اُنہیں عمران خان کے ”سہولت کار“کے طور پر ظاہر کرنے کی تکرار کرنے لگی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا ہی بیانیہ تھا۔ جس کی مضحکہ خیز حد تک تکرارسیاسی اور قانونی مبصرین کو حیران کرنے لگی۔ مگر سیاسی تجزیہ کار ساتھ یہ بھی تجزیہ کرتے رہے کہ موجودہ حالات میں مسلم لیگ نون کے پاس کسی بھی بیانئے کی کمی کے باعث یہ مجبوری ہے کہ وہ عدلیہ کو ہی نشانے پر رکھتے ہوئے رخصتی کی راہ لیں۔ مگر یہ سب کچھ اتنا سادہ بھی نہیں۔ کیونکہ سپریم کورٹ کے اندر جاری کشمکش کی تب تک خبریں سرگوشیوں میں ہی سہی سامنے آنے لگی تھیں۔ آج سپریم کورٹ کی یہی اندرونی کشمکش حکومت اور مسلم لیگ نون کے لیے گرجنے برسنے کا ساز گار ماحول مہیا کررہی ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے نوے روز کے اندر انتخابات کے جائز آئینی سوال پر فیصلے نے اس اندرونی اور بیرونی کھیل کو مہمیز کیا ہے۔ اندرونی طور پر اس جائز آئینی سوال کے جواب کی تلاش کے بجائے اِسے طریقہ کار کی بحث میں الجھا کر طرح طرح کے اختلافی نوٹ دیے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس کے از خود نوٹس کے اختیار پر سوالات پیدا کیے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے اور 14/ مئی کو انتخابات کے واضح حکم کے باوجود حکومت نے اس فیصلے کو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کردیا ہے۔ اس حوالے سے لندن میں موجود مسلم لیگ کے سربراہ نوازشریف نے براہ راست بھی اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان تین ججز(چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن) کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا جانا چاہئے۔ نوازشریف کے بعد مریم نواز نے بھی اسی نوعیت کے مطالبے کو دُہرانا شروع کردیا۔ بعد ازاں وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا کہ”سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطابندیال سمیت دیگر دو ججز کے خلاف ریفرنس زیر غور ہیں“۔
حکومت نے چیف جسٹس عمر عطابندیال کے خلاف مختلف طریقوں سے دباؤ ڈالنے کی ایک منظم مہم اختیا رکررکھی ہے جس میں ایک طرف سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 منظوری کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجنا ہے جسے صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کے لیے پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے۔دوسری طرف وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کی ایک دھواں دار پریس کانفرنس میں چیف جسٹس سے استعفے کا مطالبہ ہے۔ اس مطالبے کی تکرار تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد کے دیگر رہنماؤں سے بھی کرائی جا رہی ہے۔ جن میں جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن بھی پیش پیش ہیں۔اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کے صدر ایمل ولی خان نے بھی یہی مطالبہ دُہرا دیا ہے۔ اس دوران میں حکومت اپنے زیر اثر وکلاء تنظیموں اور بار کونسلوں سے بھی اس مطالبے کی حمایت کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم اس دوران میں اصل سوال سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل ریفرنس دائر کرنے کا ہی ہے۔ واضح رہے کہ مقتدر حلقوں کے زیراثر سمجھے جانے والے ایک وکیل راجہ سبطین نے دو روز قبل پنجاب کے پی انتخابات کیس کو بنیاد بناتے ہوئے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی برطرفی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک درخواست بھی دائر کردی ہے۔ اس تناظر میں چیف جسٹس کے خلاف جوڈیشل ریفرنس دائر کرنے کا طریقہ اور نتیجہ دونوں ہی کا جاننا اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے حوالے سے نوازشریف، مریم نواز اور راناثناء اللہ سمیت حکومتی حلقوں کی تمام خواہشات اور بیانات کے برعکس اس کا قانونی طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ حکومت کی جانب سے کوئی بھی ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں اگر جائے گا تو وہ بذریعہ صدر ہی جاسکتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 209(5)بی کے تحت مس کنڈکٹ پر سپریم جوڈیشل کونسل کو متعلقہ جج کے خلاف کارروائی کا اختیار حاصل ہے، مگر وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت ہی مس کنڈکٹ پر کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھیج سکتا ہے۔واضح رہے کہ اس ضمن میں اہم نکتہ یہ ہے کہ جج کے خلاف کوئی بھی ریفرنس اس بنیاد پر نہیں بن سکتا کہ اُس کا فیصلہ قابل قبول ہے یا نہیں، یا پھر پسندیدہ ہے ناپسندیدہ۔ درحقیقت کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کے لیے کسی مِس کنڈکٹ کا ہونا ضروری ہے۔اگر فیصلوں کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کی کوئی بھی گنجائش ہوتی تو کسی بھی جج کے خلاف ہر فیصلے پر دوسری متاثرہ پارٹی ریفرنس دائر کر رہی ہوتی۔
حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس بھیجنے کے لیے وزیراعظم کی ایڈوائس کے باوجود صدر مملکت کے دفتر کا کردار انتہائی اہم ہونے کے باعث حکومت کے لیے یہ راستا تو بے حد دشوار محسوس ہوتا ہے۔ چنانچہ وکیل سبطین خان کی جانب سے جمع کرائے گئے ریفرنس نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ مگر اس معاملے میں بھی طریقہئ کار حکومت کے لیے کسی ”خوش خبری“ کا سامان نہیں کررہا۔ سبطین خان نے 7اپریل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی برطرفی کے لیے ریفرنس جمع کروایا۔ جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ ”یہ ریفرنس دو رکنی بینچ کے کہنے پر ازخود نوٹس کی تحقیقات کے لیے دائر کیا جارہا ہے“۔ ریفرنس کے مطابق”سینئر ججوں کو بینچ میں نظر انداز کرنا اور من پسند ججوں پر مشتمل بینچ بنانا چیف جسٹس کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے۔۔27فروری کو دو ججوں کی معذرت کے بعد اختلاف کرنے والے مزید دو ججوں کو نئے بینچ میں شامل نہیں کیا گیا، یکم مارچ کا فیصلہ تین دو کی نسبت سے تھا اور اگر جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بینچ کا حصہ رہنے دیا جاتا تو یکم مارچ کا فیصلہ وہ نہ آتا جو چیف جسٹس چاہتے ہیں اور شاید چیف جسٹس کو اس کا ادراک تھا اس لیے انہوں نے جان بوجھ کر اختلاف کرنے والے دو ججوں کو بھی نئے بینچ میں شامل نہیں کیا۔۔۔حالیہ تمام معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال مِس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے آرٹیکل 209 شق چھ کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے“۔مذکورہ موقف پر غور کرنے سے ہی اندازا ہوتا ہے کہ چیف جسٹس کے خلاف ”مس کنڈکٹ“ کی ناگزیر شرط پوری کرنے کے لیے کس قدر زور صرف کیا جارہا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس نے اس معاملے میں جو کچھ بھی کیا وہ اُن کے اختیارات کے واضح اور طے شدہ قانونی طریقے کے دائرے میں آتا ہے۔ اس کے باوجود اسی ریفرنس کو کارروائی کے لیے بنیاد بنا بھی لیا جائے تو اس سے کچھ بھی برآمد ہونے کی کوئی توقع اس لیے نہیں کی جاسکتی کیونکہ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے بعد اس کا بھی ایک طریقہ کار موجود ہے۔ کسی جج کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد سب سے پہلے سپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے ریفرنس میں موجود مواد کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ کیا ریفرنس میں ایسا مواد موجود بھی ہے کہ نہیں، جو مس کنڈکٹ کے ذمرے میں آتا ہے۔ مگر اس میں بھی ایک دشواری یہ ہے کہ ریفرنس کے جائزہ کے لیے مذکورہ کمیٹی کا اجلاس چیف جسٹس کو ہی بلانا ہوتا ہے۔ چاہے وہ ریفرنس خود چیف جسٹس کے ہی خلاف کیوں نہ ہو۔ چیف جسٹس اپنے ہی خلاف ریفرنس کمیٹی کا اجلاس بُلانے کے بعد صرف یہ کرتے ہیں کہ وہ خود اُس ریفرنس کی جائزہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوتے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو چیف جسٹس کی جانب سے ریفرنس کمیٹی کے جائزہ اجلاس کی طلبی کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اگر یہ اجلاس جلدیا بدیر بلا بھی لیا جائے تو پھر موجودہ حالات میں چیف جسٹس کے اجلاس میں شریک نہ ہونے کے باعث جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، سردار طارق اور جسٹس اعجاز الاحسن کمیٹی میں شامل ہوں گے اور اگر جسٹس اعجازالاحسن کے خلاف بھی ریفرنس ہوتا ہے تو فہرست میں ان کے بعد کا سینئر ترین جج شامل ہو گا۔
مذکورہ طریقے پر اجلاس کے انعقاد کے بعد سپریم جوڈیشل کمیٹی یفرنس کا جائزہ لینے کے بعد اپنی سفارشات صدر کو بھیجے گی۔ یہاں ایک بار پھر صدر کے اختیار کا سوال پیدا ہو جاتا ہے، کیونکہ صدر بھی اس مرحلے اور موقع پر اپنا اختیار استعمال کرسکتے ہیں۔ مذکورہ طریقہ کار پر اگر غور کیا جائے تو سب سے پہلے چیف جسٹس کا اپنے ہی خلاف ریفرنس پر جائزہ کے لیے کمیٹی کے اجلاس کا انعقاد ایک سوال ہے۔ پھر اگر اجلاس بلا لیا جائے تو جائزہ کمیٹی سے مواد کے مس کنڈکٹ کے ذمرے میں تصدیق کا مرحلہ دوسرا سوال ہے۔ پھر اگر یہ بھی ہو جائے تو صدر کے دفتر میں اس کا قابل پزیرائی ہونا تیسرا بڑا سوال ہے۔اس دوران جتنا وقت لگ سکتا ہے، اس میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ آجائے گی۔ تب تک موجودہ حکومت کے مستقبل پر بھی کچھ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا۔ نیز اس عرصے میں طاقت ور حلقوں کی حکمت عملی برقرار رہنے کی بھی کوئی پیش گوئی ممکن نہیں۔
مزید برآں مذکورہ ریفرنس کے حوالے سے ایک اور طریقہ بھی موجود ہے۔ کسی بھی جج کے خلاف ریفرنس کے مذکورہ تمام مراحل مکمل ہو جائے توسپریم جوڈیشل کمیٹی کی جانب سے متعلقہ جج کو ایک انکوائری نوٹس ملتا ہے۔ متعلقہ جج ایسی صورت میں نوٹس ملنے کے فوراً بعد سپریم کورٹ میں اس ریفرنس کو چیلنج کر سکتا ہے۔ چنانچہ ریفرنس کو چیلنج کرنے کے بعد جب تک اس درخواست کا فیصلہ نہ ہو جائے ریفرنس کی کارروائی روک دی جاتی ہے۔ یہی کچھ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اپنے خلاف ریفرنس میں ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خلاف ریفرنس کی کارروائی سپریم کورٹ میں چیلنج کی تھی جس پر لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
جج کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے مذکورہ طریقہ کار پر غور کیا جائے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے خلاف کسی ریفرنس کو نتیجہ خیز بنانا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ دوسری طرف حکومت کی طرف سے اگر ریفرنس کا براہ راست ڈول ڈال گیا تو بھی اس ریفرنس کے بذریعہ صدر جانے کے مسئلے کا کوئی فوری حل نکالنا ممکن نہیں لگتا۔ اس پورے معاملے کے درست تناظر میں اب یہ بات قطعی طور پر کی جا سکتی ہے کہ حکومت اس کھیل میں اپنا غصہ نکالنے، نوازشریف اور مریم نواز کی خواہشات پوری کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ حاصل کرنے کے قابل نہیں ہے۔ البتہ مرکزی ذرائع ابلاغ کے ذریعے رونق میلہ لگانے، چیف جسٹس کے خلاف ایک محاذ گرمائے رکھنے اور اُنہیں دباؤ میں لانے کے لیے یہ حربہ کچھ اتنا بُرا بھی نہیں۔


متعلقہ خبریں


تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ وجود - بدھ 01 مئی 2024

پی ٹی آئی نے جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ کیا ہے ، جے یو آئی ف کے سربراہ کو احتجاجی تحریک میں شامل ہونے کے لیے باقاعدہ دعوت دی جائے گی۔ذرائع کے مطابق مذاکراتی ک...

تحریک انصاف کا مولانا فضل الرحمان سے فوری رابطے کا فیصلہ

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا وجود - بدھ 01 مئی 2024

حکومت نے رات گئے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا۔ وزیراعظم نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی منظوری دے دی۔ وزارت خزانہ کے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت میں 5 روپے 45پیسے کمی کے بعد نئی قیمت 288روپے 49پیسے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے ۔ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت 8 روپ...

حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا

رانا ثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات وجود - بدھ 01 مئی 2024

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور سابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کو وزیراعظم شہباز شریف کا مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات کر دیا گیا۔ن لیگی قیادت نے الیکشن 2024ء میں اپنی نشست پر کامیاب نہ ہونے والے رانا ثناء کو شہباز شریف کی ٹیم کا حصہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق وزی...

رانا ثناء وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور تعینات

پبلک اکائونٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کرلیا گیا وجود - بدھ 01 مئی 2024

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کر لیا گیا ہے ۔ اڈیالہ جیل کے باہر گفتگو کے دوران بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شیر افضل مروت کا نام فائنل ہونے پر تمام تنازعات ختم ہو چکے ہیں۔واضح رہے کہ گزشتہ کچھ دنوں سے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے لیے شیر افضل مروت کے نام پر تحریک انصاف...

پبلک اکائونٹس کمیٹی کیلئے شیر افضل مروت کا نام فائنل کرلیا گیا

تیزاب پھینکنے کا الزام، شہزاد اکبر کی حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری وجود - بدھ 01 مئی 2024

گزشتہ سال نومبر میں تیزاب پھینکنے کے الزام کے حوالے سے سابق وفاقی حکومت کے مشیر شہزاد اکبر نے حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری کر لی۔شہزاد اکبر نے قانونی کارروائی کی کاپی لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کو بھجوا دی۔شہزاد اکبر نے دعویٰ کیا کہ تیزاب حملے کے پیچھے حکومت پا...

تیزاب پھینکنے کا الزام، شہزاد اکبر کی حکومت پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی تیاری

شہباز شریف ، بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، مولانا فضل الرحمان وجود - منگل 30 اپریل 2024

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف ملین مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں روکنے کی کوشش کرنے والا خود مصیبت کو دعوت دے گا۔تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر کے زیر صدارت شروع ہوا جس میں پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر ا...

شہباز شریف ، بلاول حکومت پی ٹی آئی کے حوالے کردیں، مولانا فضل الرحمان

تحریک انصاف کے کسی سے بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے ،بیرسٹر گوہر وجود - منگل 30 اپریل 2024

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے لیے حتمی نام کل تک فائنل کرلیں گے ، بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے کچھ لوگوں کا نام لیا ہے لیکن فی الوقت کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے ۔اڈیالہ جیل کے باہر شیر افضل مروت کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں بی...

تحریک انصاف کے کسی سے بیک ڈور مذاکرات نہیں ہورہے ،بیرسٹر گوہر

ملک بھر میں انسدادِ پولیو مہم، 2کروڑ 40لاکھ بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے وجود - منگل 30 اپریل 2024

ملک بھر میں انسدادِ پولیو مہم کا آغاز ہو گیا جس کے دوران 2کروڑ 40لاکھ سے زائد بچوں کو انسدادِ پولیو قطرے پلائے جائیں گے ۔ کوآرڈینیٹر نیشنل ہیلتھ سروسز ڈاکٹر ملک مختار احمد نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے 5سال سے کم عمر کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے لازمی پلوائیں۔انہوں نے ک...

ملک بھر میں انسدادِ پولیو مہم، 2کروڑ 40لاکھ بچوں کو قطرے پلائے جائیں گے

غزہ سے یکجہتی، امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج زورپکڑ گیا، 900مظاہرین گرفتار وجود - منگل 30 اپریل 2024

اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والے غزہ کے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لئے امریکی یونیورسٹیوں میں جاری احتجاج میں تیزی سے شدت آرہی ہے ۔امریکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 18 اپریل سے شروع ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں شرکت پر گرفتار کئے جانے والے طلبہ کی تعداد 900 تک پہنچ ...

غزہ سے یکجہتی، امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج زورپکڑ گیا، 900مظاہرین گرفتار

آئی ایم ایف ، پاکستان کیلئے 1.1ارب ڈالرقرض کی آخری قسط منظور وجود - منگل 30 اپریل 2024

عالمی مالیاتی فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ نے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت پاکستان کے لیے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط جاری کرنے کی منظوری دے دی۔20 اپریل کو آئی ایم ایف نے اجلاس کا شیڈول جاری کردیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 29 اپریل کو نائجریا کے قرض پروگرام کا جائزہ لیا جائے گا، ...

آئی ایم ایف ، پاکستان کیلئے 1.1ارب ڈالرقرض کی آخری قسط منظور

اسحاق ڈار نائب وزیراعظم پاکستان مقرر وجود - پیر 29 اپریل 2024

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کر دیا۔وزیراعظم نے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو نائب وزیراعظم مقرر کرنے کی منظوری دی۔کابینہ ڈویژن نے اس ضمن میں نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ہے ۔وزیر خارجہ اس وقت وزیراعظم کے ہمراہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔ حکومت پاکستان...

اسحاق ڈار نائب وزیراعظم پاکستان مقرر

پاکستان کے لیے 1.1ارب امریکی ڈالرز کی حتمی قسط کی منظوری متوقع وجود - پیر 29 اپریل 2024

وزیراعظم شہبازشریف اور عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کے درمیان سعودی عرب میں جاری عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران غیررسمی اہم ملاقات ہوئی جہاں پاکستان کے ایک اور قرض پروگرام میں داخل ہونے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔تفصیلات کے مطا...

پاکستان کے لیے 1.1ارب امریکی ڈالرز کی حتمی قسط کی منظوری متوقع

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر