وجود

... loading ...

وجود
وجود

کرنے کا اصل کام

پیر 13 مارچ 2023 کرنے کا اصل کام

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت میں گرفتار فرد کیا کرسکتا ہے ، سوائے اس کے اس سمندر میں ڈوب جائے ، اور اپنے آپ کو فنا کرلے ۔لکھنا میرے لیے محبت جیسا ہی ہے ، مجھے لفظوں سے پیار ہے ، اور میں اس محبت کے اظہار کے بہانے تلاش کرنے لگتا ہوں، کوئی موضوع، کوئی بات، کوئی واقعہ، کوئی قصہ، کوئی حادثہ، کوئی دل چیر دینے والی پھانس مجھے لکھنے پر اُکساتی ہے ، اور پھر میں لفظوں کو آواز دیتا ہوں، کبھی کبھی یہ ناراض بھی ہوجاتے ہیں، میرے لاکھ بلانے پر نہیں آتے ، اور کبھی کبھی یہ میرے دل کی منڈیر پر بیٹھے نغمے سناتے ہیں، اور مجھے مجبور کرتے ہیں کہ میں ان سے کھیلوں،جب یہ کھیل شروع ہوتا ہے تو پھر کچھ ہوش نہیں رہتا، کہانی، قصہ، حادثہ، درد دل سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
حالات جوں کے توں ہیں، کوئی خیر کی خبر نہیں، ایک اور لاش مل گئی ہے ، ہماری سیاست میں لاشیں ہی رہ گئی ہیں، ہم اپنے مردے چوراہے پر لاکر ان پر سیاست کرتے ہیں، ایک کے بعد ایک ایسے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں، آج تک ایسے واقعات عدم تحقیق کے سبب تاریخ میں زندہ ہی رہتے ہیں۔ کبھی کبھی انصاف کے ترازو بھی برابر نہیں رہتے ۔ ظلم کے قصے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ الیکشن کب ہوں گے ، کیسے ہوں گے ، اور اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا، اس بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا۔ ادارے اب کہاں ہیں، یہ نہ اپنا فیصلہ کرتے ہیں، اور نہ ہی کوئی کام ڈھنگ سے کرتے ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا۔ لیکن سوائے قانونی موشگافیوں ، بیانات، اعلانات کے کیا ہوا ہے ، کراچی تباہ حال ہے ، سڑکوں پر گندے پانی کا بہاؤ، مٹی کے ڈھیر، گڑھے ، کھلے مین ہول، فٹ پاتھوں پر کچرے کے ڈھیر، غلاظت ، گداگروں کے غول،تجاوزات، رانگ سائڈ ٹریفک ، لوٹ مار، قتل، سب کچھ اس شہر میں ہورہا ہے ، جانے کون لوگ ہیں، جو آرام سے حکمرانی کی سیج پر بیٹھے ہیں، رات دن رشوت کا بازار گرم ہے ۔ لیکن کسی کو توفیق نہیں کہ جرائم کرنے والوں سے باز پرس کرے ۔
بلدیاتی انتخابات میں گیارہ یوسیزایسی تھیں ، جن پر انتخابات نہیں ہوسکے تھے ، اب تک ان نشستوں پر انتخابات کا اعلان ہی نہیں کیا گیا۔ ایک صرف جماعت اسلامی ہے ، جو اس معاملے پر مسلسل احتجاج کر رہی ہے ، جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل نہ کرنے کے خلاف 17 مارچ کو کراچی جام کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے سامنے بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ لیکن اب تک کراچی کے معاملات اسی طرح ہیں۔کراچی پاکستان کی معیشت کا دل ہے ، اگر یہ دل دھڑکنا بند کردے گا، تو ملک کی حالت خطرے میں پڑ جائے گی۔ اب حکومت کے اہلکاروں پر عوام اور تاجروں کا اعتبار ختم ہوگیا ہے ۔ شائد اسی لیے ہمارے وزیر خزانہ کو بڑے تاجروںِ صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی موجودگی میں ملاقات کرنی پڑی۔ اس ملاقات کا بہت چرچا ہے ۔ ملاقات میں معاشی بے چینی، بداعتمادی اور سیاسی عدم استحکام جیسے موضوعات پر کھل کر بات چیت ہوئی ہے ۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈارکی باتوں پر اب تاجر اعتماد نہیں کرتے ، ان کے دعووں پر اب تاجر برادری کم ہی اعتبار کرتی ہے ۔ انھوں نے ایک بار پھر تاجر برادری کو آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام ٹریک پر لانے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک کے تعاون اور مستقبل کے متوقع معاشی منظر نامے میں رنگ بھرے ہیں۔سیاسی عدم استحکام اور سیاسی معاملات سے لے کر معاشی معاملات تک اب لوگ فوج ہی کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں۔ گوفوج یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ اب کسی طور پر سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی لہٰذا سیاستدانوں کو اپنے سیاسی معاملات خود حل کرنا چاہئے ۔ لیکن اس کے باوجود فوجی قیادت کو اس تنگ نائے میں لایا جارہا ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف نے بزنس کمیونٹی کو پیغام دیا ہے کہ مسائل ضرور ہیں مگر پاکستان میں سب برا نہیں ہے ، مل کر ملک کو مسائل سے نکالیں گے اور آخر تک لڑیں گے ۔ تاجربرادری سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ملک کو درپیش معاشی صورتحال سے نکالنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کریں۔ مشکلات ضرور آتی ہیں لیکن ہر مشکل کے بعد آسانی بھی آتی ہے ،پاکستان نے ماضی میں بھی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا کیا ہے اور ان مشکلات سے کامیاب ہوکر نکلا ہے۔ ان شاء اللہ ہم اس مشکل سے بھی نکل جائیں گے ۔ دوست ممالک خاص کر چین اور عرب ممالک کی جانب سے بھی پاکستان کی امداد کی خوش خبری سنائی جارہی ہیں۔لیکن اصل مسئلہ سیاسی عدم استحکام ہے ۔ عوام اور تاجر برادری کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں ہے ، پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے بھی ضروری ہے کہ ایک قابل اعتماد مستحکم حکومت قائم ہو، جس پر سب کو پورا اعتماد ہو، بیرونی دنیا اور ہمارے دوست ممالک بھی اسی وقت ہماری مدد کریں گے ، جب یہاں ایک ایسے قیادت موجود ہو، جس سے بات چیت اور وعدے وعید کیے جاسکیں۔
اب رمضان کا مہینہ سر پر ہے ،اس ماہ میں ہمارے تاجر جی بھر کر عوام کو لوٹتے ہیں، مہنگائی اپنے عروج پر ہوتی ہے ، عوام کو اس بار سادگی کے ساتھ ساتھ ایک اتحاد کی بھی ضرورت ہے ، یوں بھی روزہ نفس کی پابندی اور صبر کا پیغام دیتا ہے ، عوام کو چاہئے کہ وہ مہنگی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔ اجتماعی طور پر سستے بازار لگائیں، رفاہی، اور امدادی تنظیمیں بھی روزہ کشائی کے نمائشی کاموں کو ترک کرکے ، سفید پوش طبقے اور ضرورت مند لوگوں تک خاموشی سے امداد پہنچائیں، گداگروں کو خیرات دینے کا کلچر ختم کریں، اپنے آس پاس ضرورت مند افراد اور مستحق افراد کا کھوج لگائیں، ان کی فہرست بنائیں، ان کی مدد کریں، اس کام میں محنت تو لگے گی، لیکن کرنے کا اصل کام بھی یہی ہے ۔ہمیں ایک غضب ناک نسل چاہئے،جو تاریخ کا دھارا بدل دے،جو اتحاد میں کامل ہو،جو ظالم حکمرانوں کو مزہ چکھا دے،قیادت کرنے والی پیش قدمی کرنے والی۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر