وجود

... loading ...

وجود
وجود

اکیسویں صدی کے انقلابی

اتوار 26 فروری 2023 اکیسویں صدی کے انقلابی

منصور اصغر راجہ

*****************

ایک خبر کے مطابق جیل بھرو تحریک کے پہلے روز گرفتاری دینے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ؤں کی رہائی کے لیے عدالتِ
عالیہ لاہور میں درخواستیں دائر کر دی گئی ہیں ۔الگ الگ دائر کی گئی درخواستوں میں عدالت کو بتایا گیا کہ شاہ محمود قریشی ، اسد عمر ،ولید اقبال ، اعظم سواتی اور دیگر رہنماؤں کو کھانا اور ادویات فراہم نہیں کی جا رہیں ۔ انھیں غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے ۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے کپتان نے بھی اپنے وڈیو لنک خطاب میں یہ دعویٰ کیا کہ گرفتاری دینے والے پی ٹی آئی کے رہنما سیاسی قیدی ہیں لیکن ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔
انقلاب اور قید وبند لازم و ملزوم ہیں ۔ انقلاب کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ کسی بھی دور میں نرمی نہیں برتی گئی ۔ انقلابیوں کو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلا جاتا تھا ۔ توپ کے منہ پر باندھ کر اُڑا دیا جاتا تھا ۔ کھڑے کھڑے کھال کھینچ لی جاتی تھی ۔ آنکھوں کے سامنے ان کے
معصوم بچوں کو ذبح کر دیا جاتا تھا ۔ منہ کالا کرنے کے بعد گدھے پر بٹھا کر پورے شہر میں ذلیل و رسوا کیا جاتا تھا ۔ لیکن ماضی کے انقلابی اتنے حوصلہ مند ہوتے تھے کہ وہ دار کو بھی یہ کہہ کر چوم لیتے تھے کہ

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے ، اس جان کی تو کوئی بات نہیں

لیکن اکیسویں صدی کے دیسی انقلابیوں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے ۔ ان کا انقلاب فیس بک سے شروع ہوتا ہے اور ٹوئٹر پر ختم ہو جاتا ہے ۔ کپتان کے جلسوں کی رونق بھی صرف اس لیے بڑھاتے ہیں کہ عمران خان دے جلسے وچ نچنے نوں جی کردا ۔ اس لیے جیل بھرو تحریک کو
بھی انھوں نے کوئی تفریحی پروگرام ہی سمجھا ۔ گرفتاری دینے والی پی ٹی آئی قیادت کا خیال تھا کہ جب وہ بن ٹھن کر گرفتاری کے لیے
خود کو پیش کریں گے تو پولیس حکام انھیں قیدیوں کی وین میں بٹھاتے ہوئے خوشی سے جھوم اٹھیں گے کہ
میں چھج پتاسے ونڈاں
اج قیدی کرلیا ماہی نوں
لیکن وہ بھول گئے کہ سہاگن وہی ہوتی ہے جسے پیا چاہے ، اور شنید ہے کہ پیا آج کل سہاگن سے سخت خفا ہے ،جب کہ میاں کوتووال پیا
کے اشارہِ ابرو کے پابند ۔ اس لیے امکان ہے کہ گرفتار شدگان کو اب کچھ دن تو سرکار کی میزبانی کا لطف اٹھانا ہی پڑے گا ، چاہے بادلِ
نخواستہ ہی سہی ۔ایک انقلاب دوہزار تیرہ چودہ میں بھی لانے کی کوشش کی گئی ۔ کینیڈا سے ایک عدد ‘ شیخ الاسلام ‘ پاکستان درآمد کیے گئے ، جنھیں یہ شکایت تھی کہ موجودہ نظامِ ریاست و حکومت پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کماحقہ ادا نہیں کر رہا ، اس لیے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا
چاہئے ۔ شیخ الاسلام صاحب نے اپنے ایک ‘ کزن ‘ کو ساتھ لے کر اسلام آباد پرچڑھائی بھی کی تاکہ حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا سکیں۔ وہاں ڈی چوک میں تھیٹر بھی لگایا ۔ طلاقتِ لسانی کے جوہر بھی دکھلائے ۔ جب کبھی پولیس سے مڈ بھیڑ ہوتی تو اپنے تعلیمی اداروں کی طالبات کو فرنٹ لائن پر لے آتے ۔ لیکن پھر نجانے کیا ہوا کہ ایک شب اپنے ‘ کزن’ کو بتائے بغیر ہی شیخ الاسلام جہاں سے آئے تھے ،وہیں واپس چلے گئے ۔ نواز شریف حکومت کی رخصتی کے بعد پاکستانی قوم کے لیے ابتلا کا نیا دور شروع ہوا جو اِ س وقت اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے ،لیکن کینیڈا والے ‘ شیخ الاسلام ‘ کو اب اس قوم کی یاد نہیں ستاتی ۔چند برس پہلے ایک ہی شب میں ہمارے گاؤں میں دو چوریاں ہوئیں ۔ایک گھر میں خوب جھاڑو پھیری گئی ، جب کہ دوسرے گھر میں صرف چوری کی تہمت لگائی گئی ، جس پر ایک سیانے نے یوں تبصرہ کیا تھا کہ دوسری چوری پہلی چوری کو چھپانے کے لیے کی گئی ۔
واقفانِ حال کے مطابق جیل بھرو تحریک کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔کپتان کو اس وقت جتنے اسکینڈلز اور مقدمات کا سامنا ہے ، ان سے
توجہ ہٹانے کے لیے جیل بھرو تحریک کا نعرہ لگایا گیا ۔ لیکن یہاں بھی سیانے انقلابی اپنی قیادت کے ساتھ ہاتھ کر گئے ۔ بدھ کے روز لاہور
کی ٹھنڈی سڑک پر پولیس افسران اعلان کرتے رہے کہ جس جس انقلابی نے جیل جانا ہے ، اس کے لیے گاڑی حاضر ہے ،لیکن متعدد انقلابیوں نے قیدیوں والی وین کے قریب کھڑے ہو کر ایک عدد سیلفی بنائی اور گھر کی راہ لی تاکہ سوشل میڈیا پر انقلاب کی جدوجہد میں
حصہ ڈال سکیں ۔ خیبر پختون خوا کے نگران وزیر جیل خانہ جات باربار یقین دہانی کراتے رہے کہ پی ٹی آئی کے انقلابی پریشان نہ ہوں ۔ ہم
جیل میں چائے روٹی کے علاوہ مرغ پلاو ٔسے بھی ان کی تواضع کریں گے ۔ لیکن کے پی کے اسمبلی کے ایک سابق ایم اپی اے کو ان کی اس
یقین دہانی پر یقین نہ آیا ۔ اسی لیے وہ چھوٹے موٹے انقلابیوں کو قیدیوں کی وین کے پاس پہنچا کر خود فرار ہو گئے ۔ پی ٹی آئی قیادت
کی رہائی کی درخواستوں سے ہمیں دو ہزار چودہ کا وہ پیارا سا نوجوان انقلابی یاد آگیا جواسلام آباد میں پولیس کے ڈنڈے کھانے کے بعد دہائی دیتا پھرتا تھا کہ اگر پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے ۔ اس موقع پر ہمیں خاص طور پر مخدوم شاہ محمود قریشی سے ہمدردی ہے کہ ایک تو وہ گرفتار ہوئے ، دوسرے سرکار نے انھیں پورا ایک مہینہ نظر بند کرنے کا حکم جاری کر دیا ، اور تیسری صدمے والی بات یہ ہے کہ چوہدری پرویز الہیٰ تحریک انصاف کا صدر بننے کے لیے پَر تول رہے ہیں ۔ دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوّے انڈے کھائیں ، اس سے بڑھ کر صدمے والی بات بھلا اور کیا ہو گی!
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر