وجود

... loading ...

وجود
وجود

ویل کم بیک جماعت اسلامی

جمعرات 19 جنوری 2023 ویل کم بیک جماعت اسلامی

 

لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی۔ 1987 اور 2023 کے درمیان بہت سے دریا اور پہاڑ اور خون کی ندیاں ہیں، جن کو عبور کر کے آج جماعت اسلامی کراچی میں پھر سے سرخ رو ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی نے اس شہر کو لاالہ کے نور سے جگمگانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن کچھ قوتیں ایسی تھیں، جو جماعت اسلامی کو اس شہر سے نکالنا چاہتی تھی، لیکن جماعت اسلامی اس شہر سے نہیں نکل سکی۔ اس نے اپنے کارکنوں کے لہو کی قربانی دی، لاشیں اٹھائی، اور اپنے موقف پر ڈٹ کر کھڑی رہی، اس عرصے میں درمیان میں اسے جب بھی کام کرنے کا موقع ملا ، اس نے اپنا فرض ادا کیا، نعمت اللہ خان کی سٹی گورنمنٹ نے اس شہر میں وہ انمٹ نقوش قائم کیے کہ کوئی بھی انھیں نہ بھول سکا۔ میئر عبدالستار افغانی کے ترقیاتی کام آج بھی اس شہر کے لوگوں کو یاد ہیں۔ کراچی شہر حریت ہے، اپنا فیصلہ خود کرتا ہے، اس کے نفع نقصان کو بھی برداشت کرتا ہے،لیکن یہ شہر جن کو ووٹوں سے منتخب کرتا ہے، انھیں ووٹوں ہی سے شکست بھی دیتا ہے۔ حافظ نعیم الرحمن کی صورت میں جماعت اسلامی کو ایسی بے باک اور ویژن رکھنے والی قیادت ملی، جس نے اس شہر کی تعمیر نو کا ایک خواب دیکھا، اس کے نوجوانوں کو پان گٹکا، منشیات ، لوٹ مار ، بھتہ خوری سے نکال کر باعزت شہری بنانے کا عز م کیا اور پھر اس کام میں جت گیا، سردی گرمی،بارش ، طوفان، رات دن، اندھیرا اجالا، اس نے کچھ نہ دیکھا اور لوگوں کی مدد سے حالات کو بدلنے محکموں کو لگام ڈالنے، بھتہ خوری کو روکنے، کے الیکٹرک کی چیرہ دستیوں، اور سوئی گیس کی لوٹ مار، کرونا کی مصیبت ، سیلاب کی تباہ کاریوں ، بارش کی تباہی ، سب میں اپنا کردار اد کیا۔
آج کراچی میں جماعت اسلامی ووٹوں کی طاقت سے ایک بار پھر قومی دھارے کی سیاست میں داخل ہوئی ہے، حافظ نعیم نے مسلسل محنت اور یکسوئی سے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے بساط بھر کوشش کی۔ لیکن ان کا ویژن ہے کہ یہ کام حکومتی وسائل سے زیادہ بہتر طور پر ہوگا، اور اسی لیے انھوں نے کراچی کی میئر شپ کے حصول کو سامنے رکھ کر ایک ایسی جدوجہد کا آغاز کیا، جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، جماعت اسلامی کی کامیابی کر چرانے کی بہت کوشش کی، لیکن یہ سب کرنے والوں کے منہ پر کالک ہی ملی گئی۔جماعت اسلامی کو کراچی کے بلدیاتی انتخاب میں 94 نششتوں پر کامیابی ہوئی ہے، لیکن اس کی نشستوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے کم کیا گیا، لوٹی ہوئی ان سیٹوں پر دو دن تک پیپلز پارٹی نمبر ون پارٹی ہونے کا جشن بھی مناتی رہی۔ لیکن حافظ نعیم الرحمان اور ان کے کارکنوں نے جن کے پاس مصدقہ دستخط والے گیارہ فارم تھے، پیپلز پارٹی کے حلق سے یہ سیٹیں نکلوالی ہیں، اور کچھ پر ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ ابھی دوسرا مرحلہ تقریبا آٹھ سیٹوں کا باقی ہے، جہاں دوبارہ گنتی ہونی ہے، یوں جماعت اسلامی کے پاس سو سے زائد نشستیں ہوں گی۔
کراچی کی میئر شپ کے لیے لوگوں نے حافظ نعیم الرحمان کا انتخاب کیا ہے، اور کراچی میں لوگوں نے ان ہی کی قیادت کو چنا ہے، اگر حکومت کو کراچی کی حیثیت کو بحال کرنا ہے، اس شہر کی تعمیر نو کرنا ہے، ملک اور قوم کے وقار میں اضافہ کرنا ہے تو انھیں جماعت اسلامی کی قیادت کو یہ موقع ضرور دینا چاہیے، جماعت اسلامی کو احتجاجی سیاست سے نکل کر اب کام پر توجہ کرنا ہوگی۔ عوام نے ووٹ دیا ہے وہ جانتے ہیں کون منتخب ہے اور کوئی دھاندلی سے آنا چاہتا ہے۔پیپلز پارٹی کو بھی اب کراچی دشمنی کا رویہ ترک کرنا چاہیے۔ یہ شہر سب کا ہے، یہاں سندھی مہاجر پٹھان، پنجابی سرائیکی ، بلوچ اور دیگر قومیں آباد ہیں، اس کی تعمیر و ترقی میں سب کو شامل ہونا چاہیے،سندھ کے شہری علاقوں میں تین نسلیں پیپلز پارٹی دشمنی میں جوان ہوئی ہیں۔ اب موقع ہے کہ یہ دشمنی دوستی اور بھائی چارے میں تبدیل ہو۔ عام آدمی سندھی باشندوں سے محبت رکھتا ہے۔ اس محبت کو فروغ دینا چاہیے، تاکہ صوبہ ترقی کرے۔کوئی بھی بلدیاتی باڈی سندھ حکومت کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس لیے سندھیوں سے محبت بھائی چارے اور حکومت سے ورکنگ ریلیشن قائم ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی کی میئر شپ میں اگر کراچی میں تعمیر و ترقی ہوئی تو پیپلز پارٹی کو بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور شہر اور صوبے میں ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ میڈیا نے جماعت اسلامی کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے، اسے بھی اپنا رویہ ترک کرنا ہوگا۔ کل طلعت حسین نے ایک ٹی وی شو میں حافظ نعیم الرحمن سے کہا کہ” حافظ صاحب اب آپ کو تو شکایت نہ ہوگی کہ میڈیا آپ کو ٹائم نہیں دیتا ہے حافظ نعیم نے اس بات کے جواب میں کہا کہ ”
اس کے لیے ہمیں پہلے نمبر ون کی جماعت بننا پڑا ہے۔دنیا آپ کو اس وقت مقام دیتی ہے۔ جب آپ ان کی صفوں میں گھس کر اپنے لیے جگہ بناتے ہیں۔جماعت اسلامی کو سندھ میں کام کرنے کے لیے نئی حکمت عملی بنانی پڑے گی۔ سندھ میں اگر کام کرنا ہے تو جماعت اسلامی کو پیپلز پارٹی سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ بھٹو دشمنی کی تین دہائی نے سندھ میں بسنے والوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا ہے۔ سندھی
آ بادی نے کراچی کے گوٹھوں نے جماعت اسلامی پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔حافظ نعیم الرحمن نے سندھی مہاجر پنجابی پٹھان بلوچ سرائیکی سمیت ساری قومیتوں کو یک جان کردیا۔ کراچی سب کا ہے۔الحمد للہ یوم تشکر کراچی کے عوام نے فیصلہ دے دیا۔ جماعت اسلامی ایک بار پھر قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے ایک نیا آغاز ہوگا۔
جو لوگ الیکشن میں بائیکاٹ کرتے ہیں وہ ہارے ہوئے جواری ہوتے ہیں۔جن کی سیاست کے باب میں کوئی قدر قیمت نہیں ہوتی۔جماعت اسلامی نے بھی یہ ہزیمت اٹھائی ہے۔ اس کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کرکے میدان پیپلز پارٹی کے ہاتھوں میں دے دیا۔ کراچی حیدرآباد اور دیگر مقامات پر مہاجر ووٹ کو جس بزدلی کا سامنا اس فیصلے سے ہوا ہے۔ اس کے اثرات اگلے چار برس میں پتہ چلیں گے۔ الیکشن صرف کراچی میں نہیں دیگر جگہوں پر بھی تھا۔ صرف کراچی میں جماعت اسلامی متحرک اور مقابلہ پر تھی۔ باقی جگہ پیپلز پارٹی کا مقابلہ ایم کیو ایم کرسکتی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم نے مہاجر عوام سے غداری کی اور بلدیات پلیٹ میں رکھ کر پیپلز پارٹی کو دے دی۔وہ حکومت کے کاسہ لیس بن کر رہ گئے ہیں۔ اب وا ویلا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ڈیفنس رہنے والے ارب پتی مڈل کلاس قیادت کس منہ سے غریب مہاجروں کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے۔ جس نے مہاجروں کی تین نسلوں کو پان گٹکا ہیروئن لوٹ مار پر لگا دیا اور ان سے ان کا وقار تعلیم اخلاق تہذیب بھی چھین لی۔ اب انھیں اگلے الیکشن تک انتظار کرنا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر