وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایم کیوا یم کا’’سیاسی اجتماع‘‘؟

جمعرات 05 جنوری 2023 ایم کیوا یم کا’’سیاسی اجتماع‘‘؟

 

جس طرح شیشہ میں بال برابر بھی فرق آجائے تو اُس نقص کو درست نہیں کیا جاسکتا، بالکل اِسی مصداق ایک سیاسی جماعت کے حصہ بخرے ہونے کے بعد کسی بھی صورت اُس کے تمام حصوں کو جوڑکر واپس ایک سیاسی جماعت نہیں بنایا جاسکتا۔واضح رہے کہ پاکستانی سیاست میں متحدہ قومی موومنٹ ، پہلی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو ٹوٹ پھوٹ کر چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتوں میں تقسیم ہوئی ہو۔ قیام ِ پاکستان سے لے اَب تک کم و بیش ملک کی ہر بڑی سیاسی جماعت ٹوٹ پھوٹ کے سیاسی عمل سے گزر چکی ہے ۔ لہٰذا،ملکی سیاست میں سیاسی جماعتوں کا حصہ بخروںمیں تقسیم ہونا ایک معمول کا واقعہ ہے ، جس پر آج تک کسی فرد بشر نے کبھی حیرت کا اظہار بھی نہیں کیا۔ لیکن اگر تقسیم شدہ سیاسی جماعت کے قائدین میں سے اچانک کوئی یہ اعلان کرے کہ اُن کی جماعت کے سب دھڑے مل کر واپس ایک سیاسی جماعت کی صورت اختیار کرنے والے ہیں تو یقینا اِس دعویٰ پر حیرانگی تو بنتی ہے۔
آج کل گورنر سندھ ،کامران ٹیسوری ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو متحدہ قومی موومنٹ بنانے کے مشن پر ہیں اور خبر یہ گرم ہے کہ اُنہیں اِس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوچکی ہے اور آئندہ ایک یا دوہفتے میں ٹوٹی پھوٹی ایم کیو ایم کے جڑنے کا باضابطہ طور پر اعلان بھی متوقع ہے۔اگر تو گورنر سندھ کی یہ کاوش بارآور ثابت ہوجاتی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ واپس اپنی پرانی سیاسی حالت اور کیفیت میں بحال ہوجاتی ہے ،تو بلاشبہ اِس حیرت انگیز سیاسی واقعے کے کراچی کی سیاست پر انتہائی غیر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔ جہاں یہ سیاسی اثرات کسی کی سیاست کے لیے بہت اچھے تو وہیں کسی کے سیاسی مستقبل کے لیئے بہت بُرے بھی ثابت ہوسکتے ہیں ۔ بظاہر لگتا یہ ہی ہے کہ پرانی ایم کیو ایم کی بحالی سے سب سے زیادہ خسارہ کراچی کی سیاست میں پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں آئے گا اور2018 میں جن انتخابی نشستوں پر پی ٹی آئی کے اُمیدوار جیت چکے ہیں ۔اُن میں سے زیادہ نہیں تو کم ازکم آدھی نشستیں تو ضرور واپس ایم کیو ایم لے اُڑی گی ۔ یاد رہے کہ کراچی کی سیاست میں آج کل ایم کیو ایم کی سیاسی حالت جتنی خراب اور دگرگوں ہے، اُسے پیش نظر رکھیں تو یہ ایک اچھا’’سیاسی سودا ‘‘ہوگا۔
ایک بات تو صاف دکھائی دے رہی ہے کہ پرانی ایم کیو ایم کے بحال ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ سیاسی نقصان اگلے قومی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو پہنچے گا مگریہاں اہم ترین سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کی سیاست میں اچانک سے رونما ہونے والی اِس سیاسی کایا کلپ کا سب سے زیادہ فائدہ کس کی سیاست کو ہوگا؟۔ عین ممکن ہے کہ آپ کا جواب ایم کیو ایم ہو ۔مگر ہماری دانست میں متحدہ قومی موومنٹ کی پرانی سیاسی حالت میں واپسی سے سب سے زیادہ سیاسی فائدہ پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ہوگا۔جی ہاں! اگر ایم کیوایم کے تمام دھڑے متحد ہوکر اگلے قومی انتخابات میں کراچی اور حیدرآباد کی بیشتر شہری نشستیں جیت لیتے ہیں تو بلاول بھٹو زرداری کے لیئے وطن عزیز پاکستان کا اگلا وزیراعظم بننے کی مشکل ’’ سیاسی راہ‘‘ بہت حد تک آسان ہوجائے گی ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر سچ یہ ہی ہے کہ سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کی پور ی کوشش ہے کہ پاکستان کا اگلا وزیراعظم بلاول بھٹو زرداری ہواور اپنے اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے آصف علی زرداری گزشتہ دو برس سے ملکی سیاست کی بساط پر انتہائی چابک دستی کے ساتھ اپنی سیاسی چالیں چل رہے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اَب تک اُن کی تمام سیاسی چالیں تیر بہدف ثابت ہوئی ہیں اور ملکی سیاست کی بساط پر بلاول بھٹو زرداری اپنے مخالفین کے مہروں کو پیٹتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ۔سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا کامیاب ہونا،پی ڈی ایم کی طرف سے شہباز شریف کو وزیراعظم بنوانا، صوبہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی کے اُمیدواروں کا جیتنا ، صوبہ بلوچستان میں باپ پارٹی کے اکثر رہنماؤں کا پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرنا اور اَب ایم کیوا یم کے تمام ناراض رہنماؤں کا ایک مذاکراتی میز پر سیاسی اتحاد کے لیے اکھٹا ہونے کے پیچھے بھی آصف علی زرداری کا ہی ماسٹر مائنڈ ہے۔ چونکہ پاکستان پیپلزپارٹی کو اپنا وزیراعظم بنوانے کے لیے کراچی و حیدرآباد کی قومی اسمبلی کی نشستیں بھی درکار ہوں گی ۔ لہٰذا، اگلے قومی انتخابات سے قبل آصف علی زرداری ایم کیوایم کے تمام ناراض دھڑوں کو ایک ایسی انتخابی اتحاد کی لڑی میں پرونے میںضرور کامیاب ہوجائیں گے ۔جو انہیں شہری سندھ کی زیادہ سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں جیت کر اُن کی جھولی میں ڈال سکے۔ تاکہ آصف علی زرداری اگلی قومی اسمبلی میں نمبر گیم کو بلاول بھٹو زرداری کے حق میں پلٹ سکیں ۔
یقینا ایم کیوا یم پاکستان کے بلدیاتی انتخابات ، حلقہ بندیوں اور بلدیہ عظمی کراچی کی میئر شپ کو لے کر پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے ساتھ بے تحاشہ سیاسی و انتظامی نوعیت کے سنگین اختلافات و تحفظات ہیں ۔مگر پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے ایم کیو ایم کی قیادت سے رابطہ کر کے اُنہیں یقین دہانی کروائی ہے کہ ’’ایم کیوایم ہماری اتحادی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور اُن کے ساتھ دوسے تین دن میں تمام تصفیہ طلب سیاسی معاملات کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرلیا جائے گا‘‘۔واضح رہے کہ ایم کیوایم کے تمام ناراض رہنماؤں کو اپنے حلقے کی عوام کے لیئے جو کچھ بھی چاہیئے ،اُس سیاسی و انتظامی خزانے کی چابی آصف علی زرداری کے پاس ہے ۔ اس لیئے فارمولا یہ طے پایا ہے کہ پہلے ایم کیو ایم کے تمام دھڑے مل جل کر اگلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کا بوریا بستر کراچی و حیدرآباد سے گول کریں گے ۔بعدازاں آصف علی زرداری اُنہیں وہ سب کچھ دیں گے ، جن کا انہوں نے ایم کیو ایم کے جملہ رہنماؤں سے وعدہ کیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

واحدسپرپاورکاگھمنڈ وجود پیر 13 مئی 2024
واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔ وجود اتوار 12 مئی 2024
سب '' بیچ'' دے۔۔۔۔

سینئر بزدار یا مریم نواز ؟ وجود اتوار 12 مئی 2024
سینئر بزدار یا مریم نواز ؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر