وجود

... loading ...

وجود

مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان

پیر 18 جولائی 2022 مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان

یہ عجیب اتفاق ہے کہ گزشتہ اتوار کو جس وقت وزیراعظم نریندرمودی نے حیدرآباد کے ایک عوامی جلسہ میں بی جے پی لیڈروں کو پسماندہ مسلمانوں کے حق میں کام کرنے کا مشورہ دیا، اسی وقت بی جے پی کے اقتدار والی ریاست ہریانہ میں مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنے کااعلان کیا گیا۔ہرچند کہ اپیل کرنے والے بی جے پی کے لوگ نہیں تھے، لیکن یہ اسی سنگھ پریوار کے لوگ تھے جس کا ایک سیاسی بازو بی جے پی بھی ہے۔ آرایس ایس کی ذیلی تنظیموں وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل نے ہریانہ کے مانیسرمیں ایک پنچایت منعقد کرکے مقامی مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی اور انھیں پاکستانی، روہنگیا اور بنگلہ دیشی قرار دیتے ہوئے انھیں ہریانہ بدر کرنے کے اعلانات کیے گئے۔
پنچایت میں مسلم دکانداروں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہاگیا کہ مانیسرمیں روہنگیا، بنگلہ دیشی اور پاکستانی مسلمان اپنی شناخت چھپاکر رہ رہے ہیں اور انھوں نے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے اپنی جوس کی کئی دکانوں اور سیلون کے نام ہندو دیوی دیوتاں کے نام پر رکھے ہوئے ہیں،لہذ ان کی شناخت کرکے انہیں کھدیڑنا چاہئے۔ پنچایت میں موجود کئی شرپسندوں نے عہد کیا کہ وہ مسلم دکانداروں سے کسی طرح کی خرید فروخت نہیں کریں گے اور ان کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اس موقع پر حلال اشیا کا بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کیا گیااورہندوں سے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے سیلون میں بال نہ کٹوائیں۔ انھیں اپنے گھر کرائے پر نہ دیں اور ان کی دکانوں سے پھل نہ خریدیں وغیرہ وغیرہ۔
اس سے قبل ہریانہ کے ہی صنعتی شہر گڑگاں میں ادے پور اور امراوتی میں ہوئے قتل کے خلاف تمام ہندو تنظیموں کی ایک پنچایت میں سیکڑوں لوگوں نے علاقہ میں رہنے والے تمام باہری لوگوں کی نشاندہی کرکے ان کو باہر کا راستہ دکھانے کی بات کہی تھی۔ اس معاملے میں ڈیوٹی مجسٹریٹ کو ایک میمورنڈم سونپ کر سات دن کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اگر ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا تو ہندو خود ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔اس سے زیادہ بڑی ایک پنچایت بلائی جائے گی اور آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔اس پنچایت میں بھی مسلمانوں کے خلاف خوب بھڑاس نکالی گئی اور پولیس خاموش تماشائی بنی رہی۔حالانکہ اس پنچایت سے پہلے منتظمین نے پولیس کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ امن کے ساتھ پنچایت کریں گے اور کسی قسم کی اشتعال انگیزی نہیں کریں گے، لیکن اس کے باوجود اس پنچایت میں کھلے عام مسلمانوں کو پاکستانی، بنگلہ دیشی اور روہنگیا قرار دے کر ان کا معاشی بائیکاٹ کرنے اور انھیں الگ تھلگ کئے جانے کی باتیں کہی گئیں اور پولیس نے ان پر کوئی کارروائی نہیں کی۔
سبھی جانتے ہیں کہ قانونی طورپر ہندوستان کاکوئی بھی شہری کہیں بھی بودوباش اختیار کرنے اور کاروبار کرنے کے لیے آزادہے۔ مسلمان ہریانہ کے کئی حصوں میں برسہا برس سے آباد ہیں اور پرامن طریقے سے اپنے کاروبار کرتے چلے آئے ہیں، لیکن جب سے وہاں بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، ان کا جینا حرام کردیا گیا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اسی گڑگاں میں جہاں ہزاروں مسلمان ملٹی نیشنل کمپنیوں میں برسرروزگار ہیں، ان کے لیے نماز جمعہ کی ادائیگی کے راستے بند کردیئے گئے تھے۔ درجنوں مقامات پر جہاں برسوں سے جمعہ کی نماز ادا ہورہی تھی، وہاں اس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
ہریانہ میں مسلمانوں کا ناطقہ بند کرنے کی کارروائیاں ادے پور واردات کے بعد سے بڑھ گئی ہیں۔ سنگھ پریوار کے لوگ مختلف حصوں میں پنچایتیں کرکے مسلمانوں کے خلاف محاذآرائی کررہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ادے پور میں کنہیا لال کے بہیمانہ قتل کی جس وسیع پیمانے پر مسلمانوں نے مذمت کی ہے، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تمام مسلم قائدین، مسلم تنظیموں نے اس وحشیانہ قتل کو اسلامی تعلیمات کے صریحا خلاف قرار دیتے ہوئے قصورواروں کو قرارواقعی سزا دئیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس بہیمانہ قتل کے حق میں کسی ایک مسلمان نے بھی آوازبلند نہیں کی جبکہ اس سے قبل گکشی کے جھوٹے الزامات لگاکر ملک کے مختلف حصوں میں درندگی اوربربریت کے ساتھ مسلمانوں کی جانیں لینے والوں کی حمایت میں نہ جانے کتنی تنظیمیں اور قانونی ماہرین میدان میں آئے۔ اتنا ہی نہیں جھارکھنڈ میں ایک بے گناہ مسلمان کی لنچنگ کرنے والوں کو ضمانت پررہا ہونے کے بعد ایک مرکزی وزیر نے باقاعدہ پھولوں کے ہارپہناکر ان کی حوصلہ افزائی کی۔خود اسی راجستھان کے راجسمند علاقہ میں 2018میں جب ایک وحشی درندے شمبھولال ریگر نے ایک بنگالی مزدور محمدافرازل کی کلہاڑے سے جان لے لی تھی اور باقاعدہ اس کا ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈالا تھا تو اس کی حمایت میں سینکڑوں لوگ میدان میں آگئے تھے۔یہاں تک کہ اسے2019کا پارلیمانی چنا لڑانے کی بھی باتیں ہوئی تھیں۔ شمبھولال کو قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے باقاعدہ سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی تھی، جس کے نتیجے میں پانچ سوسے زیادہ افراد نے اس کی بیوی کے کھاتے میں تین لاکھ روپے جمع کرادئیے تھے۔بدترین مجرموں اور قانون شکنی کرنے والوں کا دفاع کرنے کی اس ملک میں ایک پوری تاریخ موجود ہے۔
حال ہی میں جب سپریم کورٹ نے نوپور شرما کی دریدہ دہنی اور ملک کا امن وامان غارت کر نے کے خلاف سخت ریمارکس دئیے تو بھکتوں کی پوری فوج سپریم کورٹ پر حملہ آور ہوگئی اور ملک کی سب سے بڑی عدالت کے خلاف ایسے ایسے بے ہودہ تبصرے کئے گئے کہ انھیں یہاں نقل کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ جب اس سے کام نہیں چلا تو حکومت نواز سابق ججوں اور سابق سرکاری افسروں نے ایک بیان جاری کرکے سپریم کورٹ سے ریمارکس واپس لینے کا مطالبہ کیا۔15/سابق ججوں اور 77/ سابق اہل کاروں نے الزام عائد کیا کہ عدالت نے اس معاملے میں لکشمن ریکھا پار کردی۔انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ عدالت کی تاریخ میں یہ ریمارکس بدبختانہ، بے جوڑاور سب سے بڑی جمہوریت کے نظام انصاف کے لیے ایسا داغ ہیں جنھیں مٹایا نہیں جاسکتا۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان سابق ججوں اور سبکدوش سرکاری افسروں نے نوپورشرما کی دریدہ دہنی کے خلاف عدالت عظمی کے بیان پر تو سخت الفاظ میں تنقید کی ہے، لیکن اس بیان میں کہیں بھی نوپور شرما کے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات چھلنے کردینے والے بیان کی مذمت نہیں کی گئی ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سابق ججز اور سبکدوش افسران اسی فسطائی ذہنیت کے آلہ کار ہیں جو آج کل ملک میں ہرطرف اپنا جلوہ دکھا رہی ہے۔اسی ذہنیت نے آج تک نوپور شرما کو قانون کے لمبے ہاتھوں سے دور رکھا ہے اور ان تمام لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا جارہا ہے،جو نوپور شرما پر تنقید کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی اسی وجہ سے اپنی حدوں میں رہنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان تبصروں سے عاجز آکر خود نوپورشرما کیس کی سماعت کررہے جسٹس جے بی پاردی والا کو یہ کہنا پڑا کہ اس قسم کے تبصروں سے قانون کی حکمرانی کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور قانونی اداروں کا وقار مجروح ہورہا ہے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہڈیجیٹل میڈیا ٹرائل عدلیہ کے کام کاج میں دخل ہے۔ یہ لکشمن ریکھا کو پار کرجاتا ہے۔ اب یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کو درپیش سنگین حالات پر سپریم کورٹ کی فکرمندی لکشمن ریکھا کو پارکررہی ہے یا پھر وہ لوگ لکشمن ریکھا کو عبور کررہے ہیں جو ملک کی سب سے بڑی عدالت پر کیچڑاچھال رہے ہیں یا مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کرکے قانون شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
سکھوں کا پاکستان کی حمایت کا اعلان وجود پیر 05 مئی 2025
سکھوں کا پاکستان کی حمایت کا اعلان

منی بدنام ہوگئی ! وجود پیر 05 مئی 2025
منی بدنام ہوگئی !

قائد اعظم کے دورہ 'مرے کالج' کی یاد میں تقریب وجود اتوار 04 مئی 2025
قائد اعظم کے دورہ 'مرے کالج' کی یاد میں تقریب

دہلی پر سبزہلالی پرچم لہرانے کا وقت آگیا ہے جمہور کی وجود اتوار 04 مئی 2025
دہلی پر سبزہلالی پرچم لہرانے کا وقت آگیا ہے جمہور کی

سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے وجود اتوار 04 مئی 2025
سیلِ زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر