... loading ...
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل63 اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت آج (منگل کو) مکمل کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ عدالت کے کندھے اتنے کمزور نہیں، یہ کندھے آئین پاکستان ہے۔ آئین کے تحفظ اور تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ صدارتی ریفرنس میں کس نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے، دوران سماعت ریمارکس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سینیٹ الیکشن والاعمل دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے، آئین جمہوریت کوتحفظ اور فروغ دے کر سیاسی جماعت کو مضبوط بھی کرتا ہے۔ اکثر انحراف پر پارٹی سربراہ کارروائی نہیں کرتے۔ آرٹیکل تریسٹھ اے سیاسی جماعت کے نظام کو بچاتا ہے۔ دوران سماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل مصطفی رمدے اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے اپنے دلائل مکمل کرلیے ہیں۔ آج اٹارنی جنرل اشتر اوصاف دلائل دیں گے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح کیلئے بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کا آغاز کیا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے عدالت میں پیش ہو کر بتایا کہ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو لاہور میں تاخیر ہوگئی ہے اور وہ لاہور سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوچکے ہیں جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ کس ٹرانسپورٹ پر اسلام آباد آرہے ہیں؟ تو عامر رحمن کا کہنا تھاکہ اٹارنی جنرل موٹروے سے اسلام آباد آ رہے ہیں 3 بجے تک پہنچ جائیں گے، پنجاب کے کچھ معاملات کی وجہ سے اٹارنی جنرل لاہور میں مصروف ہوگئے تھے, اس دوران تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا کہ اٹارنی جنرل آرہے ہیں یا جارہے ہیں، یہ سنتے دو ہفتے ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہاکہ ایسا کام نہ کریں جس سے کوئی اور تاثر ملے، اٹارنی جنرل نے پیر کو دلائل میں معاونت کرنے کی بات خود کی تھی، مخدوم علی خان کو بھی آج دلائل کیلئے پابند کیا تھا، ابھی ہمیں اطلاع ہوئی ہے کہ مخدوم علی خان بیرون ملک سے واپس نہیں آئے۔ یہ دونوں وکلا صاحبان ایک فریق کے وکیل ہیں۔ ایک سرکار کے وکیل ہیں دوسرے سیاسی جماعت کے نجی وکیل ہیں۔ اب لگتا ہے آپ اس معاملہ میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ساڑھے گیارہ بجے دیگر مقدمات قربان کر کے سماعت کے لیے کیس مقرر کیا۔ ہم آئین کے آرٹیکل تریستھ اے کے حوالے سے فیصلہ دینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ایک انتہائی اہم ایشو ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اٹارنی جنرل تین بجے پہنچ رہے ہیں تو چار بجے تک سن لیتے ہیں ہم رات تاخیر تک اس مقدمہ کو سننے کے لیے تیار ہیں کیونکہ یہ خدمت کا کام ہے جوہم کرنا چاہتے ہیں عدالت تو رات تاخیر تک بیٹھی ہوتی ہے، اٹارنی جنرل کو تین بجے سن لیں گے۔ جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ عدالت تو چوبیس گھنٹے دستیاب ہے۔ اس دوران معاون وکیل سعد ہاشمی نے عدالت کو بتایا کہ مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان سترہ مئی کو واپس آجائیں گے۔ مخدوم علی خان بیرون ملک مقدمہ میں دلائل دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارہ مئی کے بعد ہوسکتا ہے یہ بینچ دستیاب نہ ہو۔ چیف جسٹس نے پھر کہا کہ پورا ہفتہ لارجر بینچ دستیاب ہے لیکن معذرت کے ساتھ مخدوم علی خان نے مایوس کیا ہے۔ مخدوم علی خان بڑے وکیل ہیں وہ تحریری طور پر بھی دلائل دے سکتے ہیں۔ اس پر معاون وکیل سعد ہاشمی نے کہا کہ مخدوم علی خان سے رابطہ کر کے عدالت کو آگاہ کرونگا۔ چیف جسٹس نے معاون وکیل سے کہا کہ مخدوم علی خان کو پیغام دے دیں بینچ کا ہر رکن انکا بڑا احترام کرتا ہے۔ یہ کیس آئینی تشریح کا بڑا اہم مقدمہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آج ایڈوکیٹ جنرلز اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل)کے وکیل کو سن لیتے ہیں اوراٹارنی جنرل کا بھی انتظار کریں گے۔ بی این پی کے وکیل مصطفی رمدے نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل تریسٹھ اے میں مںحرف ارکان کے خلاف کارروائی کا تمام طریقہ کار موجود ہے اگر آرٹیکل تریسٹھ اے میں طریقہ کار موجود نہ ہوتا تو عدالت آرٹیکل باسٹھ ، تریسٹھ کی طرف طرف دیکھ سکتی تھی ان کا کہنا تھا کہ یہ ضروری نہیں ہر انحراف کسی فائدے کے لیے ہو، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئین سازوں نے ڈی سیٹ کی سزا رکھی ہے پارٹی موقف سے انحراف خالصتا سیاسی اختلافات پر بھی ہوسکتا ہے۔ آرٹیکل تریسٹھ اے میں ڈی سیٹ کی سزا فراہم کی گئی ہے، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں منحرف ارکان کیلئے ڈی سیٹ کرنے کی سزا کافی ہے، مصطفی رمدے نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کے طریقہ کار سے ہٹ کر مزید گہرائی میں نہیں جانا چاہتے کیونکہ ڈی سیٹ کے ساتھ مزید سزا شامل کرنے سے سیاسی تقسیم میں اضافہ ہو گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن قومی اسمبلی کے ارکان سے متعلق ریفرنس مسترد کر چکا ہے، مصطفی رمدے نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے آدھے ارکان نے ایک طرف جبکہ آدھے ارکان نے دوسری طرف ووٹ دیا،اس سیاسی جماعت نے اپنے ارکان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا،ایک سیاسی جماعت کے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آئی تو اسی جماعت کے صدر کی جانب سے صدارتی ریفرنس لایا گیا، چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ آئین جمہوریت کو فروغ اور تحفظ دیتا ہے اور سیاسی جماعت کو مضبوط بھی کرتا ہے۔ اکثر انحراف پر پارٹی سربراہ کارروائی نہیں کرتے۔ آئین کی افراد سے کمٹمنٹ نہیں ہے بلکہ آئین سیاسی جماعت کو مضبوط کرتاہے، پارلیمنٹ اور جمہوریت کے اپنے تقاضے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک نظریاتی سیاسی جماعت ہے اس کے ارکان نے پالیسی سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ آرٹیکل تریسٹھ اے ایک سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ بھی کرتا ہے اور پارٹی کے رکن کو چار چیزوں پر پالیسی کا پابند کرتا ہے۔ مصطفیٰ رمدے نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے ارکان کو پارٹی کی پالیسی کا پابند کرکے انحراف سے منع کرتا ہے۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کوئی رکن اسمبلی کے آخری چھ ماہ میں انحراف کرتا ہے تو ایسی صورتحال میں اس رکن کو کوئی سزا تو نہ ہوئی۔ مصطفی رمدے نے کہا کہ پارٹی سربراہ بھی منحرف ارکان کے خلاف کارروائی نہیں کرتے، ا س لیے عدالت پارٹی سربراہان کے کنڈکٹ کو بھی سامنے رکھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہو سکتا ہے منحرف رکن اپنے پارٹی سربراہ کو اپنے اقدام پر راضی کر لے۔ مصطفی رمدے نے کہاکہ ہماری سیاسی جماعتوں میں اتنی جمہوریت نہیں ہے۔ سیاسی پارٹی سربراہ کی ڈکٹیر شپ ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر ہر رکن اپنی مرضی کرے گا تو ملک میں جمہوریت کا فروغ کیسے ہو گا؟ کسی فرد پر فوکس کرنے کی بجائے سسٹم پر فوکس کیوں نہ کیا جائے؟ آرٹیکل تریسٹھ اے کے تحت انفرادی نہیں پارٹی کا حق ہوتا ہے توکیا دس پندرہ ارکان سارے سسٹم کو تبدیل کرسکتے ہیں؟ کیا چند افراد کو پارٹی ہائی جیک کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ مصطفیٰ رمدے کا کہنا تھا کہ عدالت کی آبزرویشن بڑی اہم ہے۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ وہ انفرادی شخصیت کون ہے؟ آئین آرٹیکل 95 کے تحت ارکان کا حق ہے کہ وہ مرضی سے ووٹ دیں لیکن کسی منحرف رکن کا دفاع نہیں کروں گا۔ اس لیے عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ کیا آرٹیکل تریسٹھ اے کی سزا بڑھانے سے جمہوریت کو فروغ ملے گا۔ کیا سزا بڑھانے سے پارٹی سربراہ کی آمریت میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا سینیٹ الیکشن میں کیا ہوا سب نے دیکھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم سینیٹ الیکشن والاعمل دہرانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارٹی کے موقف سے انحراف سے بہتر ہے منحرف ارکان استعفی دے دیں، استعفی دینے سے سیاسی سسٹم بھی بچ جائے گا، استعفی دینے والے کو عوام ووٹ دیں تو وہ دوبارہ آجائے گا، آئین کی تشریح کریں گے اور تشریح کیلئے معاملے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں گے، ضمیر کے مطابق بھی کوئی انحراف کرے تو ڈی سیٹ ہوگا، اس کا مطلب ہے کہ آئین ضمیر کے مطابق ووٹ دینے والے کے اقدام کو بھی قبول نہیں کرتا، مصطفی رمدے نے دلائل میں کہا کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد ہوئی، پارٹی سربراہ نے کسی کو شوکاز نوٹس نہیں دیا، آزاد کشمیر میں وزیراعظم تبدیل ہوا پارٹی سربراہ نے کسی کے خلاف ایکشن نہیں لیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آئین انحراف کی اجازت دیتا ہے؟ کیا یہ جائزہ لیا جاسکتا ہے کہ انحراف کس قسم کا ہے، ووٹ شمار ہوگا یا نہیں ہوگا، مصطفی رمدے کا کہنا تھا کہ ووٹ شمار نہ کرنے کی دلیل پر سابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے زور نہیں دیا یہ لوگ پارلیمنٹ میں آئین کو بدلنے کی بجائے اپنا وزن عدالت کے کندھوں پر ڈالنا چاہتے ہیں جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہمارے کندھے اتنے کمزور نہیں ہیں ہمارے کندھے آئین پاکستان ہے آئین کا تحفط اور تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس موجود ہے۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ درخواست میں کس نوعیت کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ مصطفی رمدے نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو کالعدم کردیتا ہے تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا اس اقدام کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے؟ مصطفی رمدے نے کہا کہ میں یہ بالکل نہیں کہہ رہا میں حقیقت بتا رہا ہوں، آئین کا آرٹیکل تریسٹھ اے رکن کو ڈی سیٹ کرتا ہے کہیں اختلاف پر ووٹ دینے سے نہیں روکتا اس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ اس کا مطلب ہے آرٹیکل تریسٹھ اے کی زبان بڑی واضح ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کی تشریح میں واقعات کو بھی دیکھنا ہوگا، جسٹس جمال خان کا کہنا تھا کہ دنیا کے دو سو ممالک میں سے 32 ملکوں میں انسداد انحراف قانون ہے اوران 32 ممالک میں صرف 6 ملکوں میں اس قانون پر عمل ہوتا ہے ان 6 ممالک میں انحراف پر ارکان کو ڈی سیٹ کیا گیا ہے، اگر انحراف غلط کام ہے تو آئین انحراف کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ مصطفی رمدے ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ریفرنس سیاسی مفاد کے لیے بھیجا گیا ہے, آرٹیکل تریسٹھ اے سے آرٹیکل 95 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آرٹیکل 95 کے تحت ارکان کو اپنے وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے؟ آرٹیکل 95 ارکان کو پارٹی ڈسپلن سے ہٹ کر ووٹ دینے کی اجازت دیتا ہے، چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ دلیل سے آپ نے سیاسی پارٹی کو ختم کردیا۔ اس طرح سے سیاسی پارٹی چائے (ٹی) پارٹی بن جائے گی۔ ہم بحث سے ایک بات سمجھے ہیں کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو ختم کرسکتا ہے لیکن کیا سیاسی جماعت کا سربراہ اپنی پارٹی کے ساتھ ہوئے غلط اقدام کو معاف کرسکتا ہے؟ اگر پارٹی سربراہ رکن کے غلط کام کو معاف کردے توکیا یہ آئین کے خلاف ہو گا؟ کیا سربراہ پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کی کوئی اہمیت نہیں۔ اس دوران وکیل بابراعوان نے کہا کہ پارٹی سربراہ بھی پارلیمانی پارٹی کا حصہ ہوتا ہے۔ مصطفی رمدے کا کہنا تھا کہ اگر اختلاف پر ارکان استعفی دے دیں تو سسٹم تباہ نہیں ہو گا۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ ارکان کے انحراف سے سسٹم ختم نہیں ہوتا۔ آرٹیکل تریسٹھ اے ایک مکمل کوڈ ہے۔ اس دوران عدالت کو بتایا گیا کہ اٹارنی جنرل ساڑھے تین چار بجے تک پہنچ جائیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر چار بجے اٹارنی جنرل کو سن لیتے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمن نے استدعا کی کہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ امید کرتے ہیں مخدوم علی خان کل منگل کو پیش ہوں گے۔ اگر وہ پیش نہیں ہوتے تو تحریری دلائل دیں چیف جسٹس نے کہا کہ کل صدارتی ریفرنس کی کارروائی کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ اس دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا شمائل بٹ نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے کو آرٹیکل باسٹھ کے ساتھ ملا کر پڑھا جانا چاہئے۔ آئین کی کوئی شق خوبصورتی کے لیے نہیں، ان دونوں آرٹیکلز کوایک ساتھ پڑھا جائے تو اس کے سنگین نتائج ہونگے، پارلیمنٹ کے بعد بھی دو فورمز نے انحراف کا جائزہ لینا ہے، اگر کوئی اسمبلی میں نہ آئے تو یہ بھی انحراف ہے، چاہے کسی نے گن پوائنٹ پرروک لیا ہو، جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ اگر وزیراعظم اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرے تو کیا پھر بھی رکن چاہے کہ وہی وزیر اعظم رہے۔ شمائل بٹ نے کہا کہ مانتے ہیں آرٹیکل تریسٹھ اے میں طریقہ کار کے مطابق الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ فورم ہے، جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ کیا پارٹی سربراہ کی شکایت پر الیکشن کمیشن کسی رکن کے کردار کو غلط یا صحیح کہہ سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے شمائل بٹ کے دلائل مکمل ہوئے تو کیس کی سماعت آج منگل تک ملتوی کردی گئی۔
عزت اور طاقت تقسیم سے نہیں، محنت اور علم سے حاصل ہوتی ہے، ریاست طیبہ اور ریاست پاکستان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ہے اور دفاعی معاہدہ تاریخی ہے، علما قوم کو متحد رکھیں،سید عاصم منیر اللہ تعالیٰ نے تمام مسلم ممالک میں سے محافظین حرمین کا شرف پاکستان کو عطا کیا ہے، جس قوم نے علم او...
حالات کنٹرول میں نہیں آئیں گے، یہ کاروباری دنیا نہیں ہے کہ دو میں سے ایک مائنس کرو تو ایک رہ جائے گا، خان صاحب کی بہنوں پر واٹر کینن کا استعمال کیا گیا،چیئرمین بیرسٹر گوہر کیا بشریٰ بی بی کی فیملی پریس کانفرنسز کر رہی ہے ان کی ملاقاتیں کیوں نہیں کروا رہے؟ آپ اس مرتبہ فیڈریشن ک...
دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں،شہباز شریف فرقہ واریت کا خاتمہ ہونا چاہیے مگر کچھ علما تفریق کی بات کرتے ہیں، خطاب وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ جادوٹونے سے نہیں ملک محنت سے ترقی کریگا، دہشت گردی اور معاشی ترقی کی کاوشیں ساتھ نہیں چل سکتیں۔ وزیراعظم شہ...
پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے،اختیار ولی قیدی نمبر 804 کیساتھ مذاکرات کے دروازے بندہو چکے ہیں،نیوز کانفرنس وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر برائے اطلاعات و امور خیبر پختونخوا اختیار ولی خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے ...
وزیر اعلیٰ پنجاب سندھ آئیں الیکشن میں حصہ لیں مجھے خوشی ہوگی، سیاسی جماعتوں پر پابندی میری رائے نہیں کے پی میں جنگی حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں،چیئرمین پیپلزپارٹی کی کارکن کے گھر آمد،میڈیا سے گفتگو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں ایک سیاسی...
قراردادطاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی، بانی و لیڈر پر پابندی لگائی جائے جو لیڈران پاکستان کے خلاف بات کرتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دی جائے بانی پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی قرارداد پنجاب اسمبلی سے منظور کر لی گئی۔قرارداد مسلم لیگ ن کے رکن اسمبلی طاہر پرویز نے ایوان میں پیش کی...
شہباز شریف نے نیب کی غیر معمولی کارکردگی پر ادارے کے افسران اور قیادت کی تحسین کی مالی بدعنوانی کیخلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ، تقریب سے خطاب اسلام آباد(بیورورپورٹ) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ وفاقی حکومت نیب کے ذریعے کسی بھی قسم کے سیاسی انتقام اور کا...
1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ پلائی دیوار تھی اور آج بھی آہنی فصیل ہے 8 جدید ہنگور کلاس آبدوزیں جلد فلیٹ میں آرہی ہیں،نیول چیف ایڈمرل نوید اشرف کا پیغام چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا کہنا ہے کہ 1971 میں پاک بحریہ دشمن کیلئے سمندر میں سیسہ ...
دینی درسگاہوں کے اساتذہ وطلبہ اسلام کے جامع تصور کو عام کریں، امت کو جوڑیں امیر جماعت اسلامی کا جامعہ اشرفیہ میں خطاب، مولانا فضل الرحیم کی عیادت کی امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ وسائل پر قابض مراعات یافتہ طبقہ اور افسر شاہی ملک کو اب تک نوآبادیاتی ...
تمام یہ جان لیں پاکستان کا تصور ناقابل تسخیر ہے،کسی کو بھی پاکستان کی خودمختاری، علاقائی سالمیت پر آنچ اور ہمارے عزم کو آزمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چیف آف ڈیفنس فورسز بھارت کسی خود فریبی کا شکار نہ رہے، نئے قائم ہونے والے ڈیفنس فورسز ہیڈ کوارٹرز میں بنیادی تبدیلی تاریخی ...
سیاسی جماعتوں پر پابندی لگانے سے کام نہیں چلے گا، کچھ فارم 47 والے چاہتے ہیں ملک کے حالات اچھے نہ ہوں، دو سال بعد بھی ہم اگر نو مئی پر کھڑے ہیں تو یہ ملک کیلئے بد قسمتی کی بات ہے پی ٹی آئی بلوچستان نے لوکل گورنمنٹ انتخابات کیلئے اپنا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ،بانی پی ٹ...
بانی پی ٹی آئی کی بہنیں بھارتی میڈیا کے ذریعے ملک مخالف سازش کا حصہ بن رہی ہیں ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن ریڈ لائن کراس کرنے کی کسی کو اجازت نہیں،بیان سندھ کے سینئر صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ ثقافتی دن منانا سب کا حق ہے لیکن کسی بھی جماعت کو ریڈ لائن کراس...