وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغانستان ،اثاثوں کی ضبطگی اور سنگین انسانی بحران

بدھ 16 فروری 2022 افغانستان ،اثاثوں کی ضبطگی اور سنگین انسانی بحران

گزشتہ سال اگست 15تک افغان سرزمین سے امریکی اور ناٹو افواج کے انخلا اور قابضین کی جانب سے مسند اقتدارپر ڈھونک انتخابات کے ذریعے بٹھائے گئے صدر اشرف غنی دوسرے حکومتی عہدیداروں اور سرکاری و فوجی منصب داروں کے مال و دولت کے ساتھ دوسرے ممالک کو نکلنے و فرارکے بعد امید بندھی تھی کہ واشنگٹن قطر کے دار الحکومت دوحا میں29فروری2020ء کو ہونے والے معاہدے کے حرف حرف کی پاسداری کرتے ہوئے عملدرآمد کا پابند ہوگا، مگر ایسا نہ ہوا۔ حالاں کہ اسلامی امارت نے انخلا کے دوران کسی بھی طرح کے عدم تعاون و معاونت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ امریکا تھا کہ جس پر معاہدے کے باوجود خوف طاری تھا۔ بگرام ایئربیس اور دوسرے اڈے راتوں رات خالی کرکے ان کے فوجی نکل گئے۔ چناں چہ جو بائیڈن کے صدر بننے کے بعد بھی روش پیش رئوں کی رہی۔ امریکا سمیت عالمی دنیا کے عدم تعاون و مدد کے باعث افغان عوام شدید انسانی بحران کا سامنا کیے ہوئے ہیں۔ ملک کی نصف آبادی کو بھوک و افلاس کا سامنا ہے۔بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔پانچ سال سے کم عمر کے ایک ملین بچے بھوک سے موت کے خطرے سے دو چار ہیں۔ مالی و معاشی ابتری کے باوجود یہ نئی افغان حکومت ہے کہ جس نے ملک کے اندر حکومتی عملداری قائم کر رکھی ہے۔ نئی افغان حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ میں دراصل انسانی حقوق کا بزعم خیش پاسباں و علمبرداروامریکا حائل ہے۔ کابل نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود دنیا کے ساتھ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ ان کے وفود دو طرفہ سیاسی و معاشی تعلقات کی خاطر اور دنیا کو افغانستان کے بارے اطمینان دلانے وقتاً فوقتاً دورے کرتے رہتے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ امریکا افغانوں کے جائز حق تک پر سانپ کی طرح کنڈلی مار کربیٹھا ہے۔افغانستان کے نو ارب ڈالر سے زائد کے اثاثے ہیں، جن میں سات ارب ڈالر کے اثاثے امریکا کے پاس ہے۔ باقی کی رقم جرمنی، متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ اور قطر میں ہیں۔ طرہ یہ کہ افغانستان کے منجمد کیے گئے اثاثوں کی واپسی کی بجائے امریکا بہادر نے خطیر رقم پر ڈاکا مارا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے صدارتی حکم نامہ پر دستخط کرکے افغانستان کے منجمد اثاثوں میں سے7بلین ڈالرز جاری کرنے کی منظوری دی ہے۔ جس میں3.5بلین ڈالر گیارہ ستمبر2011ء کو نیویارک کے جڑواں عمارتوں کے انہدام کے متاثرین میں تقسیم کیے جائیں گے۔ باقی کی رقم بھی افغان حکومت کی بجائے اپنے طور غیر سرکاری تنظیموں کے ذریعیانسانی امداد کی مد میں خرچ کرنے کا کہا ہے۔ کابل کی حکومت نے قرار دیا ہے کہ امریکا کی طرف سے افغان عوام کی رقم کی چوری اور اسے ضبط کرنا کسی ملک اور قوم کی انسانی اور اخلاقی گراوٹ کی نچلی سطح کی نمائندگی کرتا ہے۔اور کہا ہے کہ جنگ میں ناکامی اور فتح پوری تاریخ کا حصہ ہوتی ہے لیکن سب سے بڑی اور شرمناک شکست وہ ہوتی ہے جب فوجی شکست میں اخلاقی شکست بھی شامل ہو جائے۔افغان حکومت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فنڈز جاری کرے اور انسانی تباہی سے بچنے میں مدد کرے۔ دیکھا جائے تو یہ مسلمہ اور واشگاف حقیقت پوری دنیا کے سامنے موجود ہے کہ خود امریکا افغانستان کا مقروض و مجرم ہے کہ جس نے نائن الیون سانحہ کے بعد ایک آزاد ملک پر جدید وسائل کے ساتھ حملہ کرکے تاراج کردیا۔برابر 20سال تک اسے اپنا مقبوضہ بنائے رکھا۔ لاکھوں افغان قتل ہوئے۔ لاکھوں ہجرت پر مجبور ہوئے۔ غربت اور کسمپرسی ان کا مقتدر بنا یا گیا۔ انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں سرزد ہوئیں۔ خواتین ،جن حقوق کا امریکا اوردوسرے حواری ممالک نے ڈھونگ رچا رکھا ہے،افغانستان پر حملے کے دوران انگنت خواتین اور بچے پیوندک خاک کرد یے۔ اور قبضہ کے بیس سال متواتر یہ سیا ہ عمل دہرایا جاتا رہا ہے۔ غیر ملکی افواج جنگی جرائم کے ساتھ انسانی جرائم کی بھی مرتکب ہوئی ہیں۔ جس کی پوری تحقیقات ہونی چاہیے۔ خصوصاً افغان حکومت کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا آغازکردے کہ 8اکتوبر2001ء کو حملے کے بعد تسلط و استبداد کے ان بیس سالوں میں کتنے افغان مرد عورتیں اور بچے موت کی گھاٹ ا تارے جا چکے ہیں۔ املاک کی تباہی اور جنسی زیادتیوں کے واقعات منصفانہ طور دنیا کے سامنے پیش کیے جائیں۔ قابضین کے افغان کاسہ لیسوں کی جنایات اور زیادتیوں کو ریکارڈ پر لا یا جائے۔ نئی افغان حکومت کو پر امن بقائے باہمی کے اصولوں کا نہ صرف ادراک ہے، بلکہ اس پر قائم بھی ہے۔ جوعلاقائی سالمیت ، عدم جارحیت کی پالیسی پر کاربند ہے۔ کسی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت کی نیت رکھتے ہیں اور نہ کسی کو اپنے ملک و معاملات میں مداخلت کی اجازت دیتے ہیں۔ سیاسی ، معاشی و اقتصادی تعاون و مراسم اور باہمی مفادات کی دعوت دیتی ہے۔ ملک کے اندر بد ترین بد خواہوں سے بھی ترک تعلق نہ کیا ہے، روابط رکھے ہیں۔ تہران میں کمانڈر طورن اسماعیل اور احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود سے بھی رابطہ رکھا۔ اس کے برعکس افغانستان کے خلاف تخریب کی پالیسیاں زیر غور ہیں۔ امریکا، ہمسایوں میں ایران و تاجکستان کے اندر مزاحمت کے نام پر دفاتر کھولنے کی اطلاعات ہیں۔ سابق کابل حکومت کے چند افراد یا کمانڈروں کوپاکستان میں نقل و حمل کی چھوٹ ملی ہے۔
یہ اشارے خطے میں بقائے باہمی، افغانستان کی خودمختاری، سلامتی اور استحکام کے خلاف ہے۔ سردست پاکستان کسی بھی غفلت و غلطی کا مزید متحمل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان سمیت دنیا کے ممالک کو نئی افغان حکومت تسلیم کرنے اور کرانے کے لیے زوردار آواز اٹھانا چاہیے۔ نیز امن پسند اور انسان دوست عوام افغانستان کے لیے صدائے احتجاج بلند کرے کہ اس درماندہ ملک کو اپنے جائز اثاثوں سے محروم نہ کیا جائے ،ان کی حکومت تسلیم کی جائے۔ اقوام متحدہ سمیت دنیا افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے۔ مستحکم افغانستان خطے اور دنیا کے مفاد میں ہے۔ افغان حکومت ملکی نظم و نسق پر قادر ہے۔ ان کے احتساب اور قانون لاگو کرنے کے ادارے مربوط و مستحکم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کو نہ صرف قانون شکن گروہ داعش کو پنپنے نہیں دیا ہے، بلکہ قلیل مدت میں معاشی و اقتصادی استحکام وترقی کا سفر بھی شروع ہوگا۔ پچھلی حکومتوں کی تو بدعنوانیاں زبان زد عام تھیں، جنہوں نے بد عنوانی کی تایخ رقم کردی ۔ ان حکومتوں کی بجٹ کا قریبا اسی فیصد عالمی امداد اور تعاون پر قائم تھا۔اور یہ بجٹ بڑی بے رحمی سے بد عنوانی کی نظر ہوتا۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق افغانستان دنیا کا پندرہواں بد عنوان ترین ملک رہا۔ گویا اس وقت کی بھوک، افلاس و غربت معاشی بحران کا ذمے دار امریکا ہے۔ افغان عوام متواتر اس سلوک و برتائو کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ منجمد اثاثوں کی بندر بانٹ اور ضبطگی کی پاکستان نے بھی مذمت کی ہے،اس رقم کو افغانستان کی ملکیت قرار دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر