وجود

... loading ...

وجود
وجود

ادلب پر امریکی حملے کے اثرات

اتوار 26 دسمبر 2021 ادلب پر امریکی حملے کے اثرات

(مہمان کالم)

یاسریاکس

شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں 13دسمبر کو القاعدہ کا ایک تربیتی کیمپ امریکی میزائل حملے کا نشانہ بنا، ایک رپورٹ کے مطابق اس حملے میں 25دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ امریکا نے نیٹو اتحادی ترکی کو حملے سے قبل کوئی نوٹس جاری نہ کیا جس کی ادلب میں 12 چیک پوسٹیں ہیں۔ اسی طرح روس کو بھی مطلع نہ کیا جس کے ساتھ غیر ارادی محاذ آرائی سے بچنے کے طریقہ کار پر امریکا نے کئی مرتبہ اتفاق رائے کیا۔ ادھر جس مہارت کے ساتھ ہدف کو نشانہ بنایا گیا، اس سے لگتا ہے کہ حیات تحریر الشام کے زیر کنٹرول علاقہ میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کے امریکا کے پاس غیر معمولی ذرائع ہیں۔ میزائل حملے کے لیے وقت کا انتخاب بھی حیران کن ہے کہ ایسے وقت حملہ ہوا جب گروپ کے رہنمائوں کا اجلاس ہو رہا تھا۔میزائل حملے پر ترکی اور روس نے سخت حیرانگی کا اظہار کیا کیونکہ امریکی فوجی موجودگی دریائے فرات کے مشرق میں ہے، ادلب میں امریکی فورسز کا کوئی وجود نہیں۔ اس خطے کی سلامتی یا کشیدگی میں کمی کی مانیٹرنگ آستانہ امن عمل کے تین ضامن روس، ترکی اور ایران کرتے تھے۔
امریکی سنٹرل کمانڈ نے ایک جاری بیان میں کہا کہ میزائل کا ہدف انتہا پسند رہنما تھے جو کہ امریکی شہریوں، پارٹنرز اور معصوم شہریوں پر حملوں کے ذمہ دار تھے۔ یہ امریکی دعویٰ اس لیے قابل یقین نہیں کیونکہ خطے میں امریکی مفادات نام کی کوئی چیز نہیں۔ امریکا کا زیادہ فوکس مشرقی دریائے فرات میں کردوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانا اور محفوظ علاقوں کے قیام کے لیے ترکی کے ساتھ مذاکرات کرنا ہے،
جس کی حدود کی ابھی تک کوئی تعریف نہیں کی گئی۔ میزائل حملے کا بظاہر مقصد یہ دکھائی دیتا ہے کہ امریکا طاقت کا مظاہرہ کر کے ثابت کرنا چاہتا ہے کہ وہ بھی شمال مغربی شام بلکہ ادلب میں ایک اہم فریق ہے۔ روس، ترکی اور ایران ادلب کو ایک نجی معاملے کے طور پر دیکھتے رہے ہیں۔ اس حملے پر روس کا ردعمل کافی سخت تھا، اس نے شکوہ کیا کہ اسے یا ترکی کو خبردار کیے بغیر یہ حملہ کیا گیا اور اس سے جنگ بندی دائو پر لگ گئی ہے۔ روس اور ترکی کا دونوں کا ردعمل اگرچہ بظاہر سخت تھا مگر ان کے لیے اس میں پریشانی والی کوئی خاص بات نہ تھی کیونکہ حملے میں مشترکہ دشمن مارے گئے تھے۔ البتہ منفی ردعمل کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ اب امریکا بھی خطے میں فریق ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے۔ شام کے پیچیدہ تھیٹر میں تقریباً ہر کارروائی کے فوائد و نقصانات دونوں ہو سکتے ہیں۔ امریکا خطے سے انتہا پسندوں کا خاتمہ چاہتا ہے مگر کبھی نہیں چاہے گا کہ اس خاتمے کا فائدہ شامی حکومت اٹھائے۔ روس اور ترکی دونوں امریکی حملے پر خوش ہو سکتے ہیں مگر امریکا کو بالا دستی حاصل کرتے ہوئے کبھی دیکھنا نہیں چاہیں گے۔ اسد حکومت کے لیے انتہا پسندوں کا خاتمہ کسی بھی صورت میں خوش آئند ہے، مگر اس میزائل حملے کو اپنے خلاف طاقت میں بدلتے دیکھنا نہیں چاہے گی۔
روس کے ردعمل کی ایک وجہ یہ خدشہ ہے کہ اس سے کشیدگی میں خاتمے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ حالانکہ اس عمل کی کامیابی کا روشن امکان نہیں۔ ادلب کا ایک فریق ترکی ہے جس کے آستانہ امن عمل کے دیگر ضامنوں سے اختلافات ڈھکے چھپے نہیں۔ دریائے فرات کے مشرقی علاقے میں سکیورٹی زون کے قیام پر امریکا ترکی مذاکرات بھی خطے کی صورتحال کو پیچیدہ بناتے ہیں۔ بار بار تاخیر کے بعد گزشتہ اتوار کو دونوں ملکوں کے فوجیوں نے مشترکہ پٹرولنگ کی۔ ترکش صدر طیب اردوان اعلان کر چکے ہیں کہ اگر جنوری تک کوئی معاہدہ نہ ہو سکا تو ترکی پورے عمل سے علیحدہ ہو جائیگا۔ جنرل اسمبلی کے گزشتہ اجلاس کے موقع پر بائیڈن کے ساتھ ملاقات میں وہ واشنگٹن کے ساتھ چند دیگر مسائل بھی طے کرنا چاہتے ہیں۔ ادلب میں ترکی کو ڈیڈلاک کا سامنا ہے، انخلا کی سٹریٹجی تجویزکی جا چکی ہے، جیسے کہ مشرقی فرات کی طرح صوبے کے شمال میں سکیورٹی زون کا قیام وغیرہ۔ اس قسم کے زون ترکی کے حمایت یافتہ مسلح گروپوں کا ٹھکانہ بن سکتے ہیں، جس کی امریکا حمایت کر سکتا ہے تاکہ انتہاپسندوں کے ذریعے شامی حکومت پر دبائو ڈال کر اپنی مرضی کا حل قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔ کیونکہ اس طرح دریائے فرات کے مشرق سے انقرہ کی توجہ ہٹ سکتی ہے۔ اس پوری مساوات میں شام کا کردار کہیں نہیں۔ امریکا دانستہ یہ حقیقت نظر انداز کر سکتا ہے۔ دمشق تمام مسلح گروپوں کے خاتمے کے لیے ْپرعزم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے گروپ نیا ٹھکانہ کہاں بنائیں گے۔ انقرہ کے لیے یہ صورتحال ڈرائونے خواب سے کم نہ ہو گی کہ مسلح گروپ سر چھپانے کے لیے ترکی کا ہی رخ کر لیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکی میزائل حملہ شمال مغربی شام میں نئی صف بندیوں کا پیش خیمہ بنتا ہے یا پھر اس سے کوئی نیا پنڈورا باکس کھلتا ہے جس کے نتائج کا فی الوقت اندازہ لگانا ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر