وجود

... loading ...

وجود

کے ڈی اے،کےایم سی،ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا،سپریم کورٹ برہم،وزیراعلیٰ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب

پیر 25 اکتوبر 2021 کے ڈی اے،کےایم سی،ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا،سپریم کورٹ برہم،وزیراعلیٰ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب

سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب کر لیا جبکہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعلی سندھ سے استفسار کیا ہے کہ ہم یہاں مسائل سننے نہیں آئے حل بتائیں، آپ ہر بات میں وفاقی حکومت کی بات کر رہے ہیں، اگر وفاق یہاں آکر بیٹھ گیا تو پھر آپ کیا کریں گے۔ پیرکوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل بینچ نے تجاوزات کے خاتمے، سرکلر ریلوے، اورنگی اور گجرنالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کی جبکہ نسلہ ٹاور سے متعلق بھی رپورٹ بھی پیش کی گئی۔ تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس چیف جسٹس نے کہا کہ وہ حیدرآباد سے ہو کر آئے ہیں، دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، یہ صرف کراچی کا نہیں پورے سندھ کا معاملہ ہے، بہتری نظر نہیں آتی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔انہوں نے گجر نالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا جی بتائیں کیاپیش رفت ہوئی؟ گجرنالہ متاثرین کی بحالی کے لئے ابتک کیاکیا؟ عملی طورپرگراؤنڈپرکیاہورہاہے ، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا وزیراعلیٰ سندھ نے رپورٹ جمع کرادی، کچھ مالی ایشوزآرہے ہیں۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کیا ہورہا ہے، وزیراعلیٰ سندھ سے کہیں فوری پہنچیں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ بلائیں وزیراعلیٰ سندھ کوابھی ان سے ہی پوچھیں گے، آپ لوگ عدالت کامذاق اڑارہے ہیں؟ یہ کیارپورٹ پیش کی ہے آپ نے؟عدالت کے طلب کرنے پر پروزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے سپریم کورٹ میں پیش ہونے کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ پارکوں ،کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہوچکا ہے، سڑکوں پر سائن نہیں ہیں، گلستان جوہر، یونیورسٹی روڈ ٹوٹا ہوا ہے، آپ بتائیں کیا پلان ہے آپ کا؟۔چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سے استفسار کیا کہ اتنے عرصے سے شہر کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر کوئی پیش رفت نہیں،کیا ہو رہا ہے کچھ سمجھ نہیں آتا کیسے بہتر ہوگا، کوئی ایک چیز نہیں جس میں بہتری آرہی ہو، سہراب گوٹھ سے جاتے ہوئے کیا حالات ہیں، کیا لوگ شہر میں داخل ہوتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں،آپ کہیں گے یونیورسٹی روڑ بنا دی، یونیورسٹی روڈ پر سب رفاہی پلاٹوں پر قبضہ ہوچکا، آپ قصبہ مافیا سے کسی قسم کی رعایت نہ کریں، ان پر رحم کھانے کی ضرورت نہیں۔ ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ہوتا ہے، آپ کا وزیر عوام کے لیے کچھ نہیں کرتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ کے ماتحت اداروں میں کیا ہو رہا ہے؟ ماسٹر پلان مانگ رہے ہیں وہ نہیں مل رہا، وزیراعلیٰ سندھ نے اعتراف کیا کہ انتظامی مسائل ہیں، کے ڈی اے با اختیار ادارہ ہے،قانون موجود ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کراچی کون چلا رہا ہے، کیونکہ سبھی ادارے مفلوج ہیں، کے ڈی اے، کے ایم سی اور ایس بی سی اے سمیت کوئی ادارہ نہیں چل رہا، کیا کراچی خود ہی چل رہا ہے، سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کر دیے، آپ کا کام تو صوبے چلانا ہوتا ہے، آپ کے ماتحت شہری اداروں کا کام ہے جو وہ نہیں کر رہے، جس کو بلاتے ہیں سب یہی کہتے ہیں کوئی کام نہیں کرنا،شہر میں کثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں، آپ دوسرا بڑا صوبہ ہیں، آپ حکومت ہیں، پیسے لانے کے سیکڑوں راستے ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ صاحب یہ صرف کراچی کا نہیں پورے سندھ کا معاملہ ہے، میں کل حیدر آباد سے ہو کر آیا ہوں دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ابھی ہم انڈونیشیا گئے تھے کراچی سے بڑا ہونے کے باوجود سرسبز تھا۔ چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ سندھ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ بتائیں کیا پلان ہے آپ کا؟ ہماری سڑکیں دیکھیں کہیں سائن وغیرہ کچھ نہیں ہے،کچھ دن پہلے میں گلستان جوہریونیورسٹی روڈ سے آیا سارے روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نالہ متاثرین کو متبادلہ جگہ دینے کا کہا تھا،سندھ حکومت نے ہاتھ کھڑے کرلیے ہیں، اتنے سارے کاموں کے لیے پیسے ہیں متاثرین کے لیے؟ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ میں عدالت کا شکر گزار ہوں آپ کی رہنمائی چاہتا ہوں،میں بتانا چاہتا ہوں 6 سال سے وزیر اعلیٰ ہوں،میں اس شہر میں ہی پیدا ہوا ہوں،ہم نے جو روڈ بنائے انکی فٹ پاتھ پر دکانیں الاٹ کردی گئی تھیں،ہمیں تجاوزات کے لیے ویسے ہی کام کرنا چاہیے،اس سال کچھ بہتری ہوئی ہے بارشوں میں بھی دیکھا ہوگا، انتظامی مسائل ہیں، مجھے ٹائم دیں میں عدالت کو بتانا چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں شارع فیصل بنایا ہے یونیورسٹی روڈ بنایا ہے؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ادارے ہونے چاہئیں جو اس شہر کو چلا سکیں،ادارے ہوں جو اس شہر کو دیکھ سکیں، کے ڈی اے، کے ایم سی وغیرہ،حکومت کو دیکھنا چاہیے کہ وہ کام کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کے ڈی اے کاڈی جی آیا کہ میں نے حکم امتناع لیا ہوا ہے تب ہی عہدے پر ہوں۔وزیراعلی سندھ نے کہاکہ یہ ادارے با اختیار ہیں، قانون موجود ہے،چیف جسٹس نے ا س پر کہا کہ ویل، بہتری نظر نہیں آتی،جواب میں وزیر اعلی نے کہاکہ یہ کہنا غلط ہوگا کہ سول اداروں کے پاس اختیارات نہیں، ہم نے اداروں کو اختیارات دے رکھے ہیں، ہمیں اکیس گریڈ کے افسران درکار ہیں، وفاق سے سولہ میں سے چار افسران تعینات ہیں، ایک ایک آفسر سے تین تین عہدے چلوا رہے ہیں، وفاق کو متعدد بار کہہ چکے کہ افسران تعینات کریں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ گزشتہ سال تاریخی بارش ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی، نالہ متاثرین کی بحالی کا کام ہم نے وفاقی حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کیا ہے،انہوں نے کہاکہ ہم بھی متاثرین کی بحالی چاہتے ہیں، وفاق سے 36 ارب روپے آباد کاری کے لیے مانگے،ہمیں وفاق کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا،پہلی بار ہوا تاریخ میں وفاق سے کم ریونیو ملا ہے، ریاستوں کے لیے وسائل کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، واقعی دس ارب سندھ حکومت کے لیے کوئی مسلہ نہیں، متاثرین کے لیے پی سی ون بن چکا، ایک ارب روپے شروع میں جاری کرنے کی کوشش کریں گے، دو سال میں متاثرین کو بحال کر دیں گے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تیس چالیس سال سے سندھ حکومت نے کسی ہائوسنگ اسکیم کا اعلان نہیں کیا،مراد علی شاہ نے بتایا کہ اس سال کچھ بہتر ریونیو آ رہا ہے وفاق سے گزشتہ مالی سال میں کم پیسے ملے ،ہمیں پتہ ہے لوگوں کے کیا مسائل ہیں لوگوں کو مہنگائی کا سامنا ہے۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ابھی وہ پیسے آئے نہیں ہیں آپ پیسے مانگ رہے ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ سندھ حکومت آٹھ ارب ایک دن میں جنریٹ کرسکتی ہے، مراد علی شاہ نے کہاکہ دس ارب روپے کی ضرورت ہے کابینہ نے ایک ارب کی فوری منظوری دی ہے۔چیف جسٹس نے مراد علی شاہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ ہم یہاں مسائل سننے نہیں آئے حل بتائیں،گرائونڈ پر کچھ ہے تو بتائیں،وزیر اعلی نے بتایا کہ پی سی ون بنا لیا ہے، عدالت جیسے حکم دے گی ہم عمل درآمد کریں گے،چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ ہمیں پلان دیں کرنے کیا جارہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ہمیں کوئی رپورٹ نہیں دی گئی،مراد علی شاہ نے کہاکہ دس ارب صوبے کے لئے کوئی بڑی رقم نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپکے پیچھے وزیر بلدیات کھڑے ہیں انہیں بلا کر پوچھ سکتے ہیں،مگر ان کے پاس کچھ ہے نہیں بتانے کو سوائے ٹی وی پر بیان دینے کے،وہ اختیارات پتہ نہیں آپ کے پاس بھی ہیں یا نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بہت افسوس کی بات ہے متاثرین کی بحالی کے ہمارے پاس فنڈ نہیں ، جسٹس قاضی امین نے کہاکہ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں مگر آپ شرائط عائد نہیں کرسکتے،ہم پورے ملک کی سپریم کورٹ ہیں،یہ وہ لوگ ہیں جنھیں جرائم پیشہ لوگوں نے وہاں بٹھایا،ان لوگوں کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جوان بچیاں ہیںآپ وزیر اعلی ہیں آپ سکون کی نیند کیسے سو سکتے ہیں۔مراد علی شاہ نے جواب دیا کہ ہم کریں گے دس ارب کوئی مسئلہ نہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کا بیان ریکارڈ کریں گے کہ متاثرین کی بحالی کا کام کریں گے،کوئی اگر مگر نہیں بس بحالی کا کام کریں۔وزیر اعلی سندھ نے بتایا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن تین ماہ سے غیر فعال ہے،سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے، چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ آپ اس کیس کا نمبر دے دیں دفتر میں ہم لگوا دیتے ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ بہت ساری چیزیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کہہ سکتا، چیف جسٹس پاکستان نے اس پر کہاکہ پھر کبھی موقع ملا تو سنیں گے،ہم سب کچھ قانون کے مطابق ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہاں لوگوں نے سڑکوں پر قبضہ کرلیا ہے انتظامیہ کہاں ہے ؟کیا یہ گورنمنٹ آف لا ہے؟ہم عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہر مسئلے کا حل ہے آپ دیکھ لیں آپ کچھ نہیں کر رہے،آپ وفاقی حکومت وفاقی حکومت کہہ رہے ہیں وہ آکربیٹھ جائے گی توآپ کہاں جائیں گے،مراد علی شاہ بولے کہ میں وہ بات کرنا نہیں چاہتا، سیاسی بات ہوجائے گی۔جسٹس گلزار نے کہاکہ اٹارنی جنرل صاحب ، وزیراعلی سندھ کہہ رہے ہیں کہ وفاق تعاون نہیں کر رہا،آپ وفاقی حکومت سے ہدایت لے کر بتائیں۔جسٹس قاضی امین نے کہاکہ جو افسران انہیں چاہئیں ان کو دیں،چیف جسٹس پاکستان بولے کہ ایسا لگ رہا ہے وفاقی حکومت بھی مفلوج ہے، بڑی تقریریں کرتے تھے گراس روٹ لیول کی حکومت کی،گراس روٹ لیول کی حکومت کہاں ہے؟کوئی بتانے کے لئے تیار نہیں ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے مراد علی شاہ سے کہاکہ ڈی جی کے ڈی اے تین ماہ پہلے آیا تھا تبادلہ کردیا ہے کیا کام کرے گا وہ؟ کے ڈی اے کے ڈائریکٹر آپکے پیچھے کھڑے ہیں ان سے پوچھ لیں،وزیر اعل نے کہاکہ میں دیکھ لیتا ہوں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ اور بھی کئی افسران ہیں جن کیایک ایک دو دو ماہ میں تبادلے کر دئیے جاتے ہیں۔وزیر اعلی نے کہاکہ ڈی جی کے ڈی اے کے پاس دو چارج ہیں،وزیر تعلیم مکمل فعال سیکریٹری تعلیم چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہماری بھی پرابلمز حل کریں لوگوں کی پرابلم حل کریں،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ جتنی بھی سوک ایجنسیز ہیں سب غیر فعال ہیں۔مراد علی شاہ نے کہاکہ جی بالکل ہمیں لوگوں نے منتخب کیا ہے،سماعت مکمل ہونے کے بعد وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ سپریم کورٹ سے واپس روانہ ہوگئے۔ضیاء الدین اسپتال کے وکیل انور منصور خان بھی سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ آپ کے اسپتال کے اطراف تو سب قبضے ہو چکے ہیں۔ کے ڈی اے کے علاقے کا یہ حال ہے۔وکیل انور منصور خان نے بتایا کہ ہم نے قبضہ نہیں کیا، لوگ وہاں گاڑیاں کھڑی کرتے ہیں۔ یہی ہمارا موقف ہے کہ اردگرد قبضے ہیں۔چیف جسٹس نے ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ یہ بتائیں، سٹرک پر گھر کیسے بنے؟ یہ سب 3 سال کے اندر اندر ہوا۔ گلستان چلے جائیں، 90 فیصد کراچی گرے اسٹرکچر پر ہے۔جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ کراچی تو کسی بھی وقت گر جائے گا۔ آپ لوگ دفتر میں صرف چائے پینے جاتے ہیں ، یہ ہے میٹرو پولیٹن سٹی؟۔جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ڈی جی کے ڈی اے سے سوال کیا کہ پھر آپ کر کیا رہے ہیں؟۔ڈی جی کے ڈی اے آصف میمن نے عدالت کو بتایا مسئلہ یہ ہے کہ عہدوں پر کوئی رہتا نہیں، محمد علی شاہ او پی ایس افسر کو ڈی جی بنا دیا تھا۔ لوگ سندھ ہائی کورٹ سے حکم امتناعی لے کر آجاتے ہیں۔چیف جسٹس نے آصف میمن سے پوچھا کلفٹن میں کتنے رفاعی پلاٹس ہیں؟ عدالت کو بتایا گیا کہ کلفٹن میں 3 ہزار کے قریب رفاعی پلاٹس ہیں۔سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ سے جاری حکم امتناع ختم کردیے، عدالت نے تمام تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیتے ہوئے کہاکہ جعلی لیز پر قائم مکانات، کمرشل تعمیرات فوری گرائی جائیں۔


متعلقہ خبریں


عمران خان کی رہائی تک ہر منگل کو اسلام آباد میں احتجاج کا فیصلہ وجود - جمعرات 27 نومبر 2025

  ہر منگل کو ارکان اسمبلی کو ایوان سے باہر ہونا چاہیے ، ہر وہ رکن اسمبلی جس کو عمران خان کا ٹکٹ ملا ہے وہ منگل کو اسلام آباد پہنچیں اور جو نہیں پہنچے گا اسے ملامت کریں گے ، اس بار انہیں گولیاں چلانے نہیں دیں گے کچھ طاقت ور عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ رہے ہیں، طاقت ور لوگ ...

عمران خان کی رہائی تک ہر منگل کو اسلام آباد میں احتجاج کا فیصلہ

190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ وجود - جمعرات 27 نومبر 2025

  اسلام آباد ہائی کورٹ نے 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ناصر جاوید رانا کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، سیشن جج سے متعل...

190ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کو کام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

مسلم و پاکستان مخالف درجنوں ایکس اکاؤنٹس بھارت سے فعال ہونے کا انکشاف وجود - جمعرات 27 نومبر 2025

  سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس کے نئے فیچر ‘لوکیشن ٹول’ نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی، جس کے بعد انکشاف ہوا ہے کہ درجنوں اکاؤنٹس سیاسی پروپیگنڈا پھیلانے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق متعدد بھارتی اکاؤنٹس، جو خود کو اسرائیلی شہریوں، بلوچ قوم پرستوں اور اسلا...

مسلم و پاکستان مخالف درجنوں ایکس اکاؤنٹس بھارت سے فعال ہونے کا انکشاف

کراچی میں وکلا کا احتجاج، کارونجھر پہاڑ کے تحفظ اور بقا کا مطالبہ وجود - جمعرات 27 نومبر 2025

کارونجھر پہاڑ اور دریائے سندھ پر کینالز کی تعمیر کے خلاف وزیر اعلیٰ ہاؤس تک ریلیاں نکالی گئیں سندھ ہائیکورٹ بارکے نمائندوں سے وزیراعلیٰ ہاؤس میں مذاکرات کے بعد احتجاج ختم کر دیا گیا سندھ ہائی کورٹ بار اور کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم، کارونجھر پہاڑ اور د...

کراچی میں وکلا کا احتجاج، کارونجھر پہاڑ کے تحفظ اور بقا کا مطالبہ

54 ہزار خالی اسامیاں ختم، سالانہ 56 ارب کی بچت ہوگی، وزیر خزانہ وجود - جمعرات 27 نومبر 2025

معاشی استحکام، مسابقت، مالی نظم و ضبط کے لیے اصلاحات آگے بڑھا رہے ہیں 11ویں این ایف سی ایوارڈ کا پہلا اجلاس 4 دسمبر کو ہوگا، تقریب سے خطاب وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ 54 ہزار خالی اسامیاں ختم کی گئی ہیں، سالانہ 56 ارب روپے کی بچت ہوگی، 11ویں این ایف سی...

54 ہزار خالی اسامیاں ختم، سالانہ 56 ارب کی بچت ہوگی، وزیر خزانہ

فیض حمید کا کورٹ مارشل قانونی اور عدالتی عمل ہے ،قیاس آرائیوں سے گریزکریں ،ترجمان پاک فوج وجود - بدھ 26 نومبر 2025

  پاکستان نے افغانستان میں گزشتہ شب کوئی کارروائی نہیں کی ، جب بھی کارروائی کی باقاعدہ اعلان کے بعد کی، پاکستان کبھی سویلینز پرحملہ نہیں کرتا، افغان طالبان دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کارروائی کرے ملک میں خودکش حملے کرنے والے سب افغانی ہیں،ہماری نظرمیں کوئی گڈ اور بیڈ طالب...

فیض حمید کا کورٹ مارشل قانونی اور عدالتی عمل ہے ،قیاس آرائیوں سے گریزکریں ،ترجمان پاک فوج

ترمیم کی منظوری جبری اور جعلی تھی،مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا وجود - بدھ 26 نومبر 2025

  خلفائے راشدین کو کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا ہے تو کیا یہ ان سے بھی بڑے ہیں؟ صدارت کے منصب کے بعد ایسا کیوں؟مسلح افواج کے سربراہان ترمیم کے تحت ملنے والی مراعات سے خود سے انکار کردیں یہ سب کچھ پارلیمنٹ اور جمہورہت کے منافی ہوا، جو قوتیں اس ترمیم کو لانے پر مُصر تھیں ...

ترمیم کی منظوری جبری اور جعلی تھی،مولانا فضل الرحمان نے 27ویں آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا

ایف سی ہیڈکوارٹر حملے کے ذمہ دار افغان شہری ہیں،آئی جی خیبر پختونخواپولیس وجود - بدھ 26 نومبر 2025

حکام نے وہ جگہ شناخت کر لی جہاں دہشت گردوں نے حملے سے قبل رات گزاری تھی انٹیلی جنس ادارے حملے کے پیچھے سہولت کار اور سپورٹ نیٹ ورک کی تلاش میں ہیں انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) خیبر پختونخوا پولیس ذوالفقار حمید نے کہا کہ پشاور میں فیڈرل کانسٹیبلری (ایف سی) ہیڈکوارٹرز پر ہونے...

ایف سی ہیڈکوارٹر حملے کے ذمہ دار افغان شہری ہیں،آئی جی خیبر پختونخواپولیس

پانچ مقدمات،عمران خان اور بشریٰ بی بی کو گرفتار نہ کرنے کا حکم وجود - بدھ 26 نومبر 2025

عدالت نے9مئی مقدمات میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی ضمانت میں توسیع کر دی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت 23دسمبر تک ملتوی،بذریعہ ویڈیو لنک پیش کرنے کی ہدایت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے بانی پی ٹی آئی کیخلاف 9 مئی ودیگر 5 کیسز کی سماعت کے دور ان 9 مئی سمیت دیگر 5 مقدمات ...

پانچ مقدمات،عمران خان اور بشریٰ بی بی کو گرفتار نہ کرنے کا حکم

عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ جیل سے آپریٹ ہونے کا تاثر غلط ہے، رپورٹ جمع وجود - بدھ 26 نومبر 2025

بانی پی ٹی آئی جیل میں سخت سرویلنس میں ہیں ، کسی ممنوع چیز کی موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے عمران خان کے اکاؤنٹ سے متعلق وضاحت عدالت میں جمع کرادی بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ بند کرنے کی درخواست پر اہم پیش رفت سامنے آئی ہے جس میں سپرنٹن...

عمران خان کا ایکس اکاؤنٹ جیل سے آپریٹ ہونے کا تاثر غلط ہے، رپورٹ جمع

ضمنی انتخابات ،نون لیگ کاکلین سویپ ،قومی اسمبلی میں نمبر تبدیل وجود - منگل 25 نومبر 2025

مزید 6سیٹیںملنے سے قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی نشستوں کی تعداد بڑھ کر 132ہوگئی حکمران جماعت کا سادہ اکثریت کیلئے سب سے بڑی اتحادی پیپلز پارٹی پر انحصار بھی ختم ہوگیا ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے کلین سویپ سے قومی اسمبلی میں نمبر گیم تبدیل ہوگئی ،حکمران جماعت کا سادہ ...

ضمنی انتخابات ،نون لیگ کاکلین سویپ ،قومی اسمبلی میں نمبر تبدیل

2600ارب گردشی قرضے کا بوجھ غریب طبقے پر ڈالا گیا وجود - منگل 25 نومبر 2025

غریب صارفین کیلئے ٹیرف 11.72سے بڑھ کر 22.44روپے ہو چکا ہے نان انرجی کاسٹ کا بوجھ غریب پر 60فیصد، امیروں پر صرف 30فیصد رہ گیا معاشی تھنک ٹینک پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس نے پاکستان میں توانائی کے شعبے کا کچا چٹھا کھول دیا،2600 ارب سے زائد گردشی قرضے کا سب سے زیادہ ب...

2600ارب گردشی قرضے کا بوجھ غریب طبقے پر ڈالا گیا

مضامین
منو واد کا ننگا ناچ اور امریکی رپورٹ وجود جمعه 28 نومبر 2025
منو واد کا ننگا ناچ اور امریکی رپورٹ

بھارت سکھوں کے قتل میں ملوث وجود جمعه 28 نومبر 2025
بھارت سکھوں کے قتل میں ملوث

بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان ، نیا اُبھرتا خطرہ وجود جمعرات 27 نومبر 2025
بھارتی وزیر دفاع کا اشتعال انگیز بیان ، نیا اُبھرتا خطرہ

اسموگ انسانی صحت کیلئے اک روگ وجود جمعرات 27 نومبر 2025
اسموگ انسانی صحت کیلئے اک روگ

مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن وجود جمعرات 27 نومبر 2025
مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاؤن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر