وجود

... loading ...

وجود
وجود

پنڈورا پیپرز کے انکشافات

هفته 16 اکتوبر 2021 پنڈورا پیپرز کے انکشافات

(مہمان کالم)

بروک ہیرنگٹن

پنڈورا پیپرز کی بعض رپورٹس پر بڑی رنگین شہ سرخیاں لگی ہیں مگر 12ملین سے زائدلیک ہونے والے اس خفیہ فنانشل ریکارڈ زکی دولت کے بارے میں بہت کم آگہی پائی جاتی ہے جس میں دنیا بھر کی معروف شخصیات کے نام آتے ہیں۔ ہمیں یہاں بھی اسی طرح کا طریقہ واردات نظر آتا ہے جیسے 2016 ء میں منظر عام پر آنے والے پاناما پیپرز اور 2017ء کے پیراڈائز پیپرز میں دیکھنے میں آیاتھا یعنی اعلیٰ درجے کی ناقابلِ تصور قانونی کرپشن۔ایسا لگتا ہے کہ جن طاقتور لوگوں کو اس لعنت کے خاتمے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی انہوں نے ہی اپنے ذاتی مفاد کے لیے اس میں ہاتھ رنگے۔لیک ہونے والی ہر رپورٹ سے ایک ہی میسج ملتا ہے کہ یہ امید نہ رکھیں کہ کوئی بھی حکومت عوام کی خدمت کرے گی یا یہ کہ جدید حکومت کے دائرہ کار میں قانون کی حکمرانی سب کے لیے ہو گی۔ نئے قوانین اتنا ریسکیو نہیں کر رہے کیونکہ انہیں اتنی جلدی سے وضع نہیں کیا جا سکتایا وہ اتنے جامع نہیں ہوتے کہ کوئی بڑی تبدیلی لا سکیں؛ تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ ٹیکنالوجی اور رائے عامہ کی وجہ سے ا شرافیہ کے آف شور کمپنیوں کی مالیاتی سروسز کے استعمال کے خلاف تحریک تقویت پکڑتی جا رہی ہے۔
میں نے پچھلے 15سال آف شور دنیا کو اندرسے ریسرچ کرنے، بطور ویلتھ منیجر سرٹیفکیشن لینے اور ایجنٹس کے کام کرنے کے طریقہ کار کا مطالعہ کرنے کے لیے دنیا بھر کے سفر میں گزارے ہیں۔ میں نے یہ سیکھا ہے کہ ٹیکس ہیونز ٹیکس سے بچنے کے لیے نہیں ہوتیں۔ یہ اشرافیہ کو اس قانون کی حکمرانی سے بچاتی ہیں جو وہ ہم پر لاگو کرتی ہے۔آف شور کمپنیاں بہت زیادہ معاشی اور سیاسی عدم توازن پیدا کرکے دنیا کو عدم استحکام کا شکار کر رہی ہیں۔پنڈورا پیپرز میں زیادہ تر نام دنیا کے90 ممالک کے330 سیاست دانوں کے آئے ہیں جن میں 35 موجودہ اور سابق سربراہان حکومت بھی شامل ہیں۔وہ جس قوم کی خدمت کے لیے آتے ہیں اسی سے لو ٹ مار کرکے اپنا لائف ا سٹائل بہتر بناتے ہیں۔ان پیپرز میں کئی سیاستدانوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو کرپشن کے خلاف مہم چلاتے رہے مثلاً چیک رپبلک کے وزیراعظم آندرے بابیس،کینیا کے صدر اوہورو کینیاٹا اور یوکرائن کے صدر ولادیمیرزیلنسکی۔2016ء میں چیک رپبلک کے جن امرا کے نام پاناما پیپرز میں آئے تھے‘ آندرے بابیس نے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔2020 ء میں ایک انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ کرپشن کرنے والوں کا علاج صرف ان کی گردنیں اڑانا ہے۔اب ان پر الزام ہے کہ انہوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے کئی کروڑ ڈالرز کی بیرونِ ملک جائیدادیں خریدی ہیں۔پاناما اور پیراڈائز پیپرز میں نام آنے کے باوجود دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میرے اندازے کے مطابق ان میں سے صرف 10 لوگوں کو سزائیں ہوئی ہیں جن میں صرف ایک سیاستدان ہے۔
اکانومسٹ تھامس پِٹکی نے پاناما پیپرز آنے سے پہلے ہی کہا تھا کہ جن قوم پرست سیاستدانوں نے اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف کریک ڈائون کے وعدے کیے تھے ان کے حق میں عوام نے بھرپور ردعمل ظاہر کیاتھا۔ احتساب کی جتنی بھی شکلیں نظر آرہی ہیں وہ موثر ہونے کے باوجود قانون کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔بہت زیادہ متمول افراد کو جرمانے اور مقدمات کے مقابلے میں بدنامی کا زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے۔مشاہدے میں یہ بات آرہی ہے کہ اب رائے عامہ بڑی تیزی سے تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور سیاستدانوں کو بھی اب اپنی بدنامی کی صورت میں کرپشن کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔جب مسٹر مٹ رومنی 2012ء کے صدارتی الیکشن میں حصہ لے رہے تھے تو بائیں بازو سمیت امریکی عوام کی بڑ ی تعداد نے اس خبر کو زیادہ قابلِ توجہ نہیں سمجھاتھا کہ ان کی دولت زیادہ تر آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے کمائی گئی مگر پاناما پیپرز کا انکشاف ہونے کے بعد ٹیکس میں غبن جیسے معاملے پر عوام کی رائے منفی ہو گئی اور قانونی طریقہ استعمال کرنے کے باوجود اس عمل کو غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔اس امر کی بہترین عکاسی 21ویں صدی کے اوائل میں نظر آتی ہے جب کارپوریٹ سیکٹر کی ٹیکس گریز عادت پر غیر جانبدار رہنے کے بجائے عوامی اشتعال بڑھنے لگا اور چند ہی برسوں میں بار بار دبائو ڈالنے کی تحاریک سامنے آئیں۔ پنڈورا پیپرز سامنے آنے کے بعد شاید آندرے بابیس کی شہرت پر برے اثرات مرتب ہوں۔چیک پولیس کا موقف ہے کہ وہ ان کے آف شور کاروبار کے خلاف کارروائی کرے گی اور ممکن ہے کہ ایک ہفتے بعد ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں عوام کا فیصلہ بھی سامنے آ جائے۔
امید کی ایک وجہ ٹیکنالوجی بھی ہے جس کی مدد سے عوام اور صحافیوں کو ڈیٹا بڑی آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے۔گزشتہ پانچ سال کے دوران مخبروں کے لیے انقلابی امکانات پیدا ہو گئے ہیں کہ PGP انکرِپشن جیسے ٹولز استعمال کر کے وہ اپنی شناخت خفیہ رکھ سکتے ہیں اور اس طرح انہیں آف شور کمپنیوں کا بھاری ڈیٹا ڈلیور کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور وہ کسی رد عمل سے بھی بچ جاتے ہیں۔پانچ سال ہو چکے ہم ابھی تک ’’جان ڈو ‘‘کی شناخت نہیں جانتے جس نے پاناما پیپرز لیک کیے تھے اور نہ ان لوگوں کو جانتے ہیں جنہوں نے چار سال پہلے پیرا ڈائز پیپرز لیک کیے تھے۔یہ ڈیجیٹل سرویلینس کا کمال ہے اور اس سے مخبروں کی مزید حوصلہ افزائی ہوگی۔مجھے دنیا بھر کے ویلتھ منیجرز سے بات چیت کرکے پتا چلا کہ ان کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ان کے کام کی وجہ سے دنیا میں خوفناک قسم کی سیاسی اور معاشی عد م مساوات پیدا ہوئی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اِن سائیڈر پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے ایسی کرپشن کو خفیہ رکھنے کا پردہ چاک کر سکتے ہیں جو آ ف شور کرپشن کو ممکن بناتا ہے۔ اب اِن سائیڈرز کے لیے ممکن ہو گیاہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق کام کر سکیں۔ہم بھاری بھر کم پنڈورا پیپرز کی شکل میں دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کتنی تحریک پیدا ہو چکی ہے ، ان میں ایک کے بجائے 14آف شور ذرائع سے انفارمیشن حاصل کی گئی۔اس سے پتا چل رہا ہے کہ نہ صرف مخبروں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں بلکہ وہ ارکانِ پارلیمنٹ کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں دنیا کے طاقتور افراد کاعوامی عدالت میں احتساب کرنے میں تعاون کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر