وجود

... loading ...

وجود
وجود

کرپشن کے حمام میں

منگل 05 اکتوبر 2021 کرپشن کے حمام میں

پاناما لیکس سے بڑے پنڈورا پیپرز کے ہوشربا انکشافات نے پوری دنیا کو ہلاکررکھ دیاہے تاریخی اعتبارسے یہ دنیا کے سب سے بڑے انکشاف ہیں جس میں بہت سے عالمی و بہت سے ممالک کی اہم شخصیات کو بے نقاب کیا گیاہے اب تلک پنڈورا پیپرز میں29000سے زائدآف شور کمپنیوںکا پردہ فاش کردیا گیا2سالہ تحقیقات میں 150میڈیاہائوسز نے معاونت کی 200سے زائدممالک پر محیط130کھرب پتی افرادکا کچہ چٹھہ کھول کررکھ دیا 11.9ملین سے زائدخفیہ دستاویزجاری کی گئی ہیں 700سے زائد پاکستانیوں کی آف شور کمپنیاں بے نقاب ہوگئیں۔ پنڈورا پیپرز میں 2وفاقی وزراء شوکت ترین، مونس الٰہی کے علاوہ فیصل واوڈا، پیپلزپارٹی کے شرجیل میمن، اسحاق ڈار کا بیٹا علی ڈار، خسرو بختیار کے بھائی تاجر ، میڈیا مالکان اور ریٹائرڈ فوجی افسران شامل ہیں۔ پاکستان کے وزیر خزانہ شوکت ترین سمیت بیشتر شخصیات نے ان آف شور کمپنیز سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔خوفناک بات یہ ہے کہ غیرقانونی ذرائع سے دنیابھرمیں لندن میں جائیدادیں خریدنے والوں میں پاکستانی پانچویں نمبر پر ہیں جن میں وزیراعظم عمران خان کی کابینہ کے اہم ارکان ریٹائرڈ سول اور فوجی افسر وں اور ان کے ارکان خاندان اور بعض اہم میڈیا اداروں کے مالکان کے لاکھوں ڈالر کی آف شور کمپنیاں اور ٹرسٹ ہونے یا ماضی میں رہنے کا انکشاف ہوا ہے۔ جاپان کے1000 سے زائد کاروباری اداروں اور انفرادی شخصیات کے نام پنڈورا پیپرز میںآنے سے جاپان کی سیاست میں بھونچال آگیا ہے حالانکہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایماندار شہری جاپان کے تصورکیے جاتے ہیں پنڈورا پیپرز کے مطابق جاپان کے ٹاپ کے کاروباری ادارے اور چوٹی کے سیاستدان اور معروف کاروباری شخصیات نے ٹیکس بچانے کے لیے اپنی دولت پانامہ سمیت دیگر برٹش آئی لینڈ میں کمپنیاں بنا رکھی تھیں ، اِن ہی اہم کاروباری اداروں میں جاپان کے اہم ٹیلی کام کمپنی سافٹ بینک جاپان کے گروپ چیئرمین اور سی ای او کے بیٹے کے نام پر بھی کمپنی موجود تھی جس کے ذریعے جیٹ ہوائی جہاز خریدا گیا تھا جسے بعد میں امریکن وینچر کے نام پر منتقل کردیا گیا تھا۔ اسی طرح جاپان کی اہم سیاسی شخصیت چیف کیبنیٹ سیکریٹریٹ سیکشن کے سربراہ Takeo Hirata کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں شامل ہے جنہوں نے ورجن آئی لینڈ میں کمپنی قائم کررکھی ہے، وہ جاپان اولمپک اور پیرا اولمپک کی پروموشن کے انچارج، سابق بیوروکریٹ اور جاپان فٹ بال ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری بھی رہے ہیں۔ اسی طرح برٹش ورجن آئی لینڈ میں جارج ہارا نامی جاپانی شہری کی بھی کمپنی قائم ہے جس کے اثاثے اکتیس ملین ڈالر ہیں۔ جارج ہارا ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے اس طرح کے کسی بھی کاروبار سے انکار کردیا ہے۔
پینڈورا پیپرز میں ایک ہزار سے زائد جاپانی شخصیات اورکاروباری اداروں کے نام موجود ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کیا کارروائی کرتی ہے۔ن کا کہنا ہے کہ جائیداد قانونی طور پر آف شور کمپنی سے خریدی گئی تھی اردن کے بادشاہ شاہ عبداللہ کا نام بھی پنڈورا پیپرز میں آف شورکمپنی بنانے والے غیر ملکی سربراہان مملکت میں شامل ہے۔ اردن کے شاہ عبد اللہ کیلیفورنیا، واشنگٹن اور لندن میں 10کروڑ ڈالر اثاثوں کے مالک ہیں۔ واشنگٹن میں اردن کے سفارتخانے نے شاہ عبداللہ کے مشکوک اثاثوں سے متعلق تبصرے سے انکار کردیا۔ پنڈورا پیپرز میں سچن ٹنڈولکر کا نام بھی شامل ہیں دوسری جانب آف شور کمپنیاں رکھنے والوں سے متعلق پنڈورا پیپرز کی لسٹ میں قطر کے حکمرانوں کا نام بھی سامنے آیا ہے، سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر یوکرین، کینیا اور ایکواڈور کے صدور کے نام بھی آف شور کمپنیاں نکلی ہیںیوکرین، کینیا اور ایکواڈور کے صدور کے نام بھی آف شور کمپنیاں نکلی ہیں۔جبکہ چیک ری پبلک اور لبنان کے وزرائے اعظم کے نام بھی پنڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں ان کمپنیوںمیں کھربوں کی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ پنڈورا پیپرز میں عمران خان کے قریبی افراد کی کمپنیاں سامنے آنے سے پاکستان کی سیاست میں کھلبلی سی مچ گئی ہے سویلین قیادت کے علاوہ بعض ریٹائرڈ ملٹری افسروں کی آف شور ہولڈنگز کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ آف شور کمپنیوں اور جائیدادوں کے مالکان میں سابق کور کمانڈر کی اہلیہ اور بیٹا، جنرل (ر) محمد افضل مظفر کا بیٹا، جنرل (ر) نصرت نعیم، جنرل (ر) خالد مقبول کا داماد، جنرل (ر) تنویر طاہر کی اہلیہ، جنرل (ر) علی قلی خان کی بہن، ایئر مارشل عباس خٹک کے بیٹے اور ریٹائرڈ آرمی آفیسر اور سیاستدان راجہ نادر پرویز شامل ہیں۔جن لوگوں کی آف شور ہولڈنگز کا پنڈورا پیپرز میں انکشاف ہوا ہے ان میں وزیر خزانہ شوکت ترین اور تین افراد خاندان، وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار کے جھوٹے بھائی عمر شہریار سابق وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور دو ارکان خاندان، وفاقی وزیر آبی وسائل مونس الٰہی، سینئر صوبائی وزیر خوراک عبدالعلیم خان، وزیراعظم کے سابق معاون خصوصی برائے خزانہ مالیات وقار مسعود خان کا بیٹا، نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر عارف عثمانی اور نیشنل انوسٹمنٹ ٹرسٹ کے منیجنگ ڈائریکٹر عدنان آفریدی، وزیراعظم کے گشتی سفیر برائے غیر ملکی سرمایہ کاری علی جہانگیر صدیقی، ابراج کے بانی عارف مسعود نقوی، بڑی کاروباری شخصیت طارق شفیع شامل ہیں۔ سویلین اور فوجی لیڈروںکے علاوہ دستاویزات میں بڑے میڈیا مالکان کا بھی انکشاف ہوا ہے جن کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ جن میڈیا مالکان کی آف شور کمپنیاں ہیں ان میں جنگ گروپ کے پبلشر میر شکیل الرحمٰن، سی ای او ڈان میڈیا گروپ حمید ہارون، پبلشر ایکسپریس میڈیا گروپ سلطان احمد لاکھانی، ٹی وی چینل جی این این کا مالک، گورمے گروپ اور پاکستان ٹو ڈے کے پبلشر عارف نظامی مرحوم شامل ہیں۔
ان کے علاوہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار، سندھ کے سابق وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن اور سابق چیئرمین ایف بی آر اور سیکرٹری فنانس سلمان صدیق کے بیٹے یاور سلمان کی بھی ٹیکس چوروں کیلیے محفوظ علاقوں میں کمپنیاں ہیں۔ اس کا مطلب ہے کرپشن کے حمام میں سب ننگے ہیںحقائق بتاتے ہیں کہ سویلین اور ملٹری ایلیٹ کس طرح اپنا غیرقانونی سرمایہ آف شور کمپنیوں میں رکھتے ہیں اور ان سے بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں ان کی اکثریت نے یہ کہہ کر ان کمپنیوں سے لاتعلقی ظاہر کی ہے کہ یہ ان کے خاندان کے افراد کی ہیں اور وہ اپنے طور پر کام کر رہے ہیں یا پھر یہ کہا ہے کہ یہ کمپنیاں غیر فعال ہیں حالانکہ یہ سب دلیلیں من گھرٹ اور دھوکہ دینے کے مترادف ہے ضرورت اس امرکی ہے کہ پنڈورا پیپر ز میں نا م آ نے و الو ں کو مجرم تصور کیا جائے ماضی میں پانامہ لیکس کے انکشافات کے بعد پاکستان سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات کی پہلی لسٹ میں 636 افراد کے نام شامل تھے پھر وہ بڑھ کر 836 ہوگئے مگر معاملے کو دبا دیاگیا آف شور کمپنیوںکی وجہ سے ملک میں افراط ِ زر پیداہوجاتاہے جس ے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جنم لیتی ہے اسی بناء پر غریب عوام پر مہنگائی کے ڈرون حملے جاری ہیں اور اب تو مہنگائی اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ غریب عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہے۔ پنڈورا پیپرز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے وسطی لندن میں 67 لاکھ پونڈ کی جائیداد خریدی مگر 3 لاکھ 12 ہزار پونڈ اسٹیمپ ڈیوٹی ادا نہیں کی ۔پنڈورا پیپرز میں پاکستان کے متعدد سابق فوجی افسران کی آف شور کمپنیاں بھی منظرِعام پرآگئی ہیں جن میں سابق صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے سابق ملٹری سیکریٹری لیفٹیننٹ جنرل (ر) شفاعت اللہ شاہ نے آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں مہنگا اپارٹمنٹ خریدا میجر جنرل (ر) نصرت نعیم کے نام ایک آف شور کمپنی نکلی ہے، انہوں نے 2009 میں ریٹائرمنٹ کے بعد آف شور کمپنی رجسٹرڈ کروائی جبکہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) افضل مظفر کے بیٹے کے نام بھی ایک آف شور کمپنی سامنے آئی ہے۔ افضل مظفر پر اسٹاک مارکیٹ میں 4 ارب 30 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے الزام میں کیس بھی چلا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) علی قلی خان کی بہن نے آف شور کمپنی کے ذریعے برطانیہ میں جائیدادیں خریدیں۔ سابق ایئر چیف مارشل عباس خٹک کے دو بیٹوں کے نام بھی آف شور کمپنی نکل آئی ان ا نکشافات کے بعدزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پنڈورا پیپرز میں جو بھی قصور وار پایا گیا اس کے خلاف کارروائی ہوگی، حکومت پنڈورا پیپرز میں شامل تمام پاکستانیوں کی تحقیقات کرے گی۔ عمران خان نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کا خیرمقدم کرتے ہیں، اشرافیہ نے ٹیکس چوری، کرپشن سے ناجائز دولت وزیراعظم نے کہا کہ غریب ملکوں کا پیسہ روکنے کے لیے امیر ملک کچھ نہیں کرتے۔ پینڈورا پیپرز نے کرپشن سے کمائی گئی اشرافیہ کی ناجائز دولت کو بے نقاب کیا۔ اشرافیہ نے کالے دھن کو مالیاتی محفوظ پناہ گاہوں میں منتقل کیا۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کے ادارے نے چوری شدہ اثاثوں کا تخمینہ 7 ٹریلین ڈالر لگایا ہے، یہ دولت بڑے پیمانے پر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کی گئی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میری حکومت پنڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے تمام شہریوں کی تحقیقات کرے گی، اگر کوئی غلطی ثابت ہوئی تو مناسب کارروائی کریں گے۔ ترقی پذیر دنیا کی اشرافیہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح دولت لوٹ رہی ہے، بدقسمتی سے امیر ریاستیں بڑے پیمانے کی اس لوٹ مار کو روکنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان تمام تر انکشافات کے بعد حقیقت تویہ ہے کہ کرپشن روکنے کے لیے غالمی برادری کو مل کرٹھوس لائحہ عمل اختیار کرناپڑے گا ورنہ کرپشن کے حمام میں اشرافیہ موج مستی کرتی رہے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

خوابوں کی تعبیر وجود جمعرات 28 مارچ 2024
خوابوں کی تعبیر

ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں ! وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ماحولیاتی تباہ کاری کی ذمہ دار جنگیں ہیں !

ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
ریاست مسائل کی زدمیں کیوں ؟

مردہ قومی حمیت زندہ باد! وجود بدھ 27 مارچ 2024
مردہ قومی حمیت زندہ باد!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر