وجود

... loading ...

وجود

طالبان کون ہیں اور ان کی تاریخ کیا ہے ؟

منگل 17 اگست 2021 طالبان کون ہیں اور ان کی تاریخ کیا ہے ؟

افغانستان میں پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن افغانستان کی سربراہی کے لیے کس طالبان لیڈر کا انتخاب کیا جاتا ہے اس بارے میں ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔افغان طالبان نے جس برق رفتاری سے کابل پر قبضہ کیا ہے اس نے عالمی سطح پر مبصرین کو حیران کر دیا ہے ۔ طالبان نے جو سفر قندھار سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے شروع کیا تھا وہ گذشتہ روز کابل پر قبضے تک پہنچ چکا ہے ۔افغان فوج کی پسپائی کے بعد فغانستان کے دارالحکومت کابل کا کنٹرول حاصل کرنے والے طالبان کی تاریخ اور نظریے کے بارے میں کچھ اہم حقائق یہ ہیں:پشتو زبان میں طالبان کا مطلب طلبا ہے جو 1994 میں جنوبی افغان شہر قندھار سے ابھرے ۔ یہ سوویت یونین کے انخلا کے بعد ملک کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے لڑنے والے افغان جنگجو گروپوں میں سے ایک تھے ۔طالبان میں شامل اکثریت ان مجاہدین کی تھی جنہوں نے امریکا کی مدد سے 1980 کی دہائی میں سوویت افواج کو افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کیا۔1994 میں سامنے آنے کے بعد دو سال کے اندر طالبان نے کابل سمیت ملک کے بیشتر حصوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ۔ 1996 میں اسلامی قوانین کی تشریح کے ساتھ خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا جب کہ اقتدار کے لیے لڑنے والے دوسرے مجاہدین گروہ ملک کے شمال میں چلے گئے اور پھر وہیں تک محدود رہے ۔11 ستمبر 2001 کو امریکا میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکی افواج، شمالی اتحاد اور دیگر طالبان مخالف جنگجو نومبر میں بھاری امریکی فضائی حملوں کی آڑ میں کابل میں داخل ہوئے ۔جب کہ طالبان دور دراز علاقوں میں روپوش ہوگئے ، جہاں سے انہوں نے افغان حکومت اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف 20 سالہ طویل جنگ شروع کی۔طالبان کے بانی اور رہنما ملا محمد عمر تھے جو طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے ۔ ملا عمر کے ٹھکانے اتنے خفیہ تھے کہ 2013 میں ان کی موت کی تصدیق بھی ان کے بیٹے نے انتقال کے دو سال بعد کی۔اپنے پانچ سال کے اقتدار کے دوران طالبان نے سخت شرعی قوانین نافذ کیے ۔ انہوں نے خواتین کو بنیادی طور پر کام کرنے سے روک دیا تھا اور مرد سرپرست کی غیرموجودگی میں انہیں گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ان کے دور میں سرعام پھانسی اور کوڑے مارنے کی سزائیں عام تھیں جب کہ مغربی فلموں اور کتابوں پر پابندی لگا دی گئی۔مخالفین اور مغربی ممالک طالبان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے کنٹرول والے علاقوں میں حکمرانی کی پرانی طرز پر واپس آنا چاہتے ہیں مگر طالبان اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔تاہم، طالبان نے رواں سال کے شروع میں کہا تھا کہ وہ افغانستان کے لیے ایک حقیقی اسلامی نظام چاہتے ہیں جس میں ثقافتی روایات اور مذہبی قوانین کے مطابق خواتین اور اقلیتوں کو ان کے حقوق فراہم کرے ۔90 کی دہائی میں بننے والی طالبان حکومت کوپاکستان سمیت صرف چار ممالک نے تسلیم کیا۔جب کہ دیگر ممالک کی اکثریت نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کابل کے شمالی صوبوں میں اقتدار رکھنے والے گروہ کو حکومت کا حقدار قرار دیا۔ امریکا اور اقوام متحدہ نے طالبان پر پابندیاں عائد کیں اور بیشتر ممالک نے طالبان کی حکومت کو سفارتی طور پر تسلیم کرنے میں بہت کم دلچسپی دکھائی۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ اگر طالبان نے اقتدار سنبھالا اور وہاں مظالم ڈھائے تو افغانستان کو عالمی سطح پر بہت ہی ناپسندیدہ ریاست بننے کا خطرہ ہے ۔تاہم ، دوسرے ممالک جیسے چین نے محتاط انداز میں اشارہ دیا ہے کہ وہ طالبان کو ایک جائز حکومت کے طور پر تسلیم کر سکتاہے ،اب افغان طالبان کو اصل چیلنج کا سامنا ہے اور وہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد گورننس کرنا ہے ۔ ایسے میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہے کہ کیا افغان طالبان کے پاس ایسی قیادت اور ٹیم موجود ہے جو نظامِ حکومت بہتر انداز میں چلا سکے ۔اس سوال کا جواب جاننے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ طالبان کے تنظیمی ڈھانچے میں ذمہ داران کون ہیں اور کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔طالبان کے تنظیمی ڈھانچے میں اب بھی ایسے رہنما موجود ہیں جو ماضی میں افغانستان میں طالبان کی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔اس وقت طالبان کے اہم قائدین میں تنظیم کے امیر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ اور ان کے تین نائبین ملا عبدالغنی برادر، ملا محمد یعقوب اور سراج الدین حقانی شامل ہیں۔اس وقت افغان طالبان یا امارت اسلامی افغانستان کے امیر یا سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ اخونزادہ ہیں۔ملا اختر منصور کی سنہ 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد افغان طالبان کے امیر مقرر کیے جانے والے ملا ہیبت اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ طالبان تحریک کے قیام کے بہت بعد اس کا حصہ بنے تھے ۔ملا ہیبت اللہ طالبان کی جنگی کارروائیوں کے حق میں فتوے جاری کرتے رہے ہیں۔ وہ سنہ 2001 سے قبل افغانستان میں قائم طالبان کی حکومت میں عدالتوں کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ہبت اللہ کی عمر 45 سے 50 سال کے درمیان ہے اور وہ قندھار کے علاقے پنجوائی میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کا تعلق نور زئی قبیلے سے ہے ۔ہیبت اللہ اخونزادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے طالبان کی سمت و رفتار کو تبدیل کیا اور اس تنظیم کو اِس کی موجودہ حالت میں لانے میں ان کا بڑا کردار ہے ۔طالبان کے گڑھ قندھار سے تعلق رکھنے کی بنا پر انھیں طالبان پر گرفت مضبوط کرنے میں مدد دی۔سنہ 1980 کی دہائی میں انھوں نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں کمانڈر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں تھیں، لیکن وہ فوجی کمانڈر سے زیادہ مذہبی سکالر کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔وہ افغان طالبان کے سربراہ بننے سے پہلے ہی طالبان کے سرکردہ رہنماوں میں سے ایک رہے ہیں اور مذہبی امور کے متعلق طالبان کی جانب سے وہی احکامات جاری کرتے رہے ہیں۔انھوں نے قاتلوں اور ناجائز جنسی تعلقات رکھنے والوں کا سر قلم کرنے اور چوری کرنے والوں کے ہاتھ قلم کرنے کا حکم دیا تھا۔ہیبت اللہ طالبان کے سابق سربراہ اختر محمد منصور کے نائب بھی رہے ۔ منصور مئی سنہ 2016 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے ۔ منصور نے اپنی وصیت میں ہیبت اللہ کو اپنا جانشین قرار دیا تھا۔وصیت نامہ ان کی تقرری کو قانونی حیثیت دینے کے لیے تھا۔لیکن طالبان نے ان کے انتخاب کو متفقہ طور پر کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا تھا۔امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں طالبان کی جانب سے اگرچہ ایک مکمل ٹیم شامل تھی لیکن فروری 2020 کو قطر کے شہر دوحہ میں ہونے والے امن معاہدے پر دستخط ملا عبدالغنی برادر نے کیے تھے اور اس وقت وہ عالمی سطح پر نمایاں طور پر سامنے آئے تھے ۔ملا عبدالغنی برادر امارت اسلامی افغانستان کے نائب امیر ہیں اور ان کے پاس طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے انچارج کا عہدہ بھی ہے ۔ملا عبدالغنی برادر، ملا برادر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ملا برادر کا تعلق پوپلزئی قبیلے سے بتایا جاتا ہے ۔ یہ قبیلہ افغانستان میں انتہائی بااثر سمجھا جاتا ہے اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے ۔ اس قبیلے کے افراد سرحد کے دونوں جانب یعنی پاکستان کے صوبہ بلوچستان اور پشاور میں بھی آباد ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پر افغانستان کے جنوبی ضلع اورزگان سے بتایا جاتا ہے لیکن وہ کئی سال طالبان کے مرکز کے طور پر مشہور افغان صوبہ قندھار میں مقیم رہ چکے ہیں۔ملا عبد الغنی برادر افغانستان میں طالبان کارروائیوں کی نگرانی کے علاوہ تنظیم کے رہنماوں کی کونسل اور تنظیم کے مالی امور چلاتے تھے ۔افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے افغان طالبان کے سابق امیر ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے اور سنہ 1994 میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے تھے ۔ملا برادر طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔افغانستان پر کام کرنے والے اکثر صحافیوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ملا محمد عمر نے جب افغانستان میں طالبان تحریک کا آغاز کیا تو ملا برادر ان چند افراد میں شامل تھے جنھوں نے بندوق اٹھا کر طالبان سربراہ کا ہر لحاظ سے ساتھ دیا اور تحریک کی کامیابی تک وہ ان کے ساتھ ساتھ رہے ۔تاہم جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے پاس کوئی خاص عہدہ نہیں تھا۔ بعد میں انھیں ہرات کا گورنر بنا دیا گیا۔سنہ 2001 میں جب امریکہ کی قیادت میں افغانستان پر کیے جانے والے حملے میں طالبان کو اقتدار سے بیدخل کیا گیا تو وہ نیٹو افواج کے خلاف جنگ کے سربراہ بن گئے ۔بعد ازاں فروری سنہ 2010 میں انھیں پاکستان کے شہر کراچی سے امریکہ اور پاکستان کی مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا۔اس وقت افغان حکومت سے امن مذاکرات کو فروغ دینے کے لیے طالبان کی جانب سے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جاتا تھا اس فہرست میں ملا عبدالغنی برادر کا نام سرفہرست ہوتا تھا۔انھیں ستمبر 2013 میں پاکستانی حکومت نے رہا کر دیا تھا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہو سکا کہ وہ پاکستان میں ہی رہے یا کہیں اور چلے گئے ۔ ملا برادر طالبان رہنما ملا محمد عمر کے سب سے قابل اعتماد سپاہی اور نائب رہے ۔افغان انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں کو ہمیشہ ہی اس بات پر یقین تھا کہ برادر کے قد کا رہنما طالبان کو امن مذاکرات کے لیے آمادہ کر سکتا ہے ۔جب طالبان کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو وہ طالبان کے نائب وزیر دفاع تھے ،دیگر طالبان رہنماں کی طرح ملا برادر پر بھی اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کی تھی۔ ان کے سفر کرنے اور ہتھیاروں کی خریداری پر پابندی تھی۔ افغانستان میں طالبان تحریک کے سابق امیر ملا محمد عمر کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کی امارت کے امیدوار بھی رہے ہیں۔ طالبان کے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران جو افغانستان میں تشدد کے کارروائیوں کو روکنے کا حکم دینا پڑا تو اس وقت مولوی محمد یعقوب کو تحریک کے عسکری کمیشن کا سربراہ مقرر کر دیا گیا تھا ۔مولوی محمد یعقوب افغان طالبان کے نائب امیر بھی ہیں جبکہ انھیں اس سال مئی کے مہینے میں سکیورٹی چیف کا اضافی عہدہ بھی دیا گیا ہے ۔ ان کی تعیناتی پہلے افغان طالبان کے سپریم لیڈر ملا ہیبت اللہ نے کی تھی۔طالبان ذرائع نے بتایا ہے کہ مولوی محمد یعقوب نے ابتدائی تعلیم پاکستان کے بڑے شہر کراچی کے مدرسے سے حاصل کی ہے ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مولوی محمد یعقوب بظاہر ایک سیاسی اور عسکری سوچ کی نوجوان شخصیت ہیں اور وہ اس عہدے پر عسکری ونگ اور سیاسی ونگ کے درمیان رابطے کے لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔افغان امور کے ماہر سابق سفارتکار رستم شاہ مہند کا کہنا ہے کہ مولوی محمد یعقوب طالبان تحریک میں اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اکثر معاملات میں مشاورت کی جاتی ہے ۔سینیئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ مولوی یعقوب کا نام اس وجہ سے زیادہ معتبر ہے کیونکہ وہ ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں اور اس وجہ سے طالبان کے اندر انھیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ مولوی یعقوب عسکری ونگ میں بھی شامل رہے ہیں جب طالبان اور ملا عمر کے خاندان کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے تو اس وقت ملا عمر کے بھائی عبدالمنان اخوند اور مولوی یعقوب کو عہدے دیے گئے تھے ۔ملا عمر کے بھائی کواس وقت جب تحریک کی امارت کے لیے کچھ نام سامنے آئے تھے اس پر تحفظا ت تھے ۔ مولوی یعقوب کو کچھ صوبوں کے عسکری ونگ کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ افغان طالبان کے دوسرے نائب امیر سراج الدین حقانی ہیں اور ان کے تعلق ان کے والد جلال الدین حقانی کے حقانی نیٹ ورک سے ہے ۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہے اور ان کی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جائیدادیں ہیں۔انھوں نے سنہ 1980 کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابقہ سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران منظم کارروائیاں کیں۔یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ افغانستان کی قیادت کون سنبھالے گا،افغان طالبان کے اہم رہنما اور سابق سفیر ملا عبدالسلام ضعیف نے برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ افغانستان میں سیاسی سطح پر جوڑ توڑ جاری ہے اور افغانستان سے ایک کمیشن نے پیر کو قطر پہنچنا تھا لیکن گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران حالات اچانک کافی بدل گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ یہ کمیشن صدر اشرف غنی کا استعفی اور مکمل اختیار کے ساتھ پہنچے گا تاکہ انتقالِ اقتدار کا مرحلہ مکمل ہو سکے ۔انھوں نے بتایا کہ یہ فیصلہ ہوا تھا کہ جب تک معاہدہ مکمل نہ ہو جائے افغان طالبان کابل میں داخل نہیں ہوں گے لیکن اچانک حالات نے نیا رخ اختیار کیا جس کی وجہ سے طالبان کابل میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے کیونکہ کابل میں امن قائم کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام نظر آ رہے تھے ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کون سا طالبان لیڈر افغانستان میں قیادت سنبھالے گا۔ جب تک بات چیت جاری ہے اور پرامن انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل نہیں ہو جاتا اس وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سربراہ مملکت ہو سکتا ہے۔


متعلقہ خبریں


غزہ میں مسلم بچے یہودی درندگی کا شکار مسلم ممالک بنے تماشائی وجود - هفته 12 جولائی 2025

24 گھنٹوں میں 55 شہادتیں رپورٹ ، شہادتوں کا یومیہ تناسب 100 سے تجاوز بھوکے ، پیاسے ،نہتے مسلمانوں پرفضائی اور زمینی حملے ،ہسپتال ادویات سے محروم یہودی درندے فلسطین میں مسلم بچوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں ، شہادتوں کا یومیہ تناسب 100 سے تجاوز کرچکا ہے ، پچھلے 24 گھنٹوں میں ...

غزہ میں مسلم بچے یہودی درندگی کا شکار مسلم ممالک بنے تماشائی

کھارادر میںمخدوش 5 منزلہ عمارت خالی کرالی مزاحمت پر چار افراد کوزیر حراست وجود - هفته 12 جولائی 2025

چھ خاندان سڑک پر آگئے،خواتین کا ایس بی سی اے کی رپورٹ پر عمارت کو مخدوش ماننے سے انکار مخدوش عمارتوںکو مرحلہ وار خالی کر ایا جا ئے گا پھر منہدم کردیا جائے گا،ڈی جی شاہ میر خان بھٹو کھارادر میں پانچ منزلہ سمیت دو عمارت خطرناک قرار دے کر خالی کرالی گئیں جس میں مقیم چھ خاندان س...

کھارادر میںمخدوش 5 منزلہ عمارت خالی کرالی مزاحمت پر چار افراد کوزیر حراست

پاکستان کا ایشیا کپ کیلئے ہاکی ٹیم کو بھارت نہ بھیجنے کا فیصلہ وجود - هفته 12 جولائی 2025

موجودہ صورتحال، کشیدہ تعلقات اور ٹیم کو لاحق سیکیورٹی خدشات ، کھلاڑیوں کو نہیں بھیجا جاسکتا انتہا پسند تنظیم مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے پاکستان ہاکی ٹیم کو کھلم کھلا دھمکیاں دے رہی ہیں پاکستان نے کشیدہ تعلقات اور ٹیم کو لاحق سیکیورٹی خدشات کو دیکھتے ہوئے ایشیا کپ کے لیے ہاک...

پاکستان کا ایشیا کپ کیلئے ہاکی ٹیم کو بھارت نہ بھیجنے کا فیصلہ

دہشتگردوں سے پوری قوت سے نمٹیں گے، خون کا بدلہ لیا جائیگاشہباز شریف وجود - هفته 12 جولائی 2025

بلوچستان میںنہتے مسافروں کے اغواء اور ان کا قتل فتنہ الہندوستان کی دہشتگردی ہے،وزیراعظم اپنے عزم، اتحاد اور طاقت سے دہشت گردی کے ناسورکو جڑ سے اکھاڑ کر دم لیں گے،مذمتی بیان وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں بس کے مسافروں کے اغواء اور قتل کی مذمت کی ہے۔اپنے مذمتی بیان میں وز...

دہشتگردوں سے پوری قوت سے نمٹیں گے، خون کا بدلہ لیا جائیگاشہباز شریف

بلوچستان میں 9 مغوی مسافر قتل، لاشیں آبائی علاقوں کو روانہ وجود - هفته 12 جولائی 2025

فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں نے 3 مقامات پر حملے کیے، ترجمان بلوچستان حکومت عثمان طور اور جابر طور دونوں بھائی کوئٹہ میں رہائش پذیر تھے، والد کے انتقال پر گھر جارہے تھے بلوچستان میں ایک بار پھر امن دشمنوں نے وار کر دیا، سرہ ڈاکئی میں فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں نے9معصوم شہ...

بلوچستان میں 9 مغوی مسافر قتل، لاشیں آبائی علاقوں کو روانہ

فیلڈ مارشل عاصم منیرکے صدر بننے کی کوئی تجویز زیرغور نہیں(وزیرداخلہ) وجود - جمعه 11 جولائی 2025

آرمی چیف کی توجہ کا مرکز استحکام پاکستان ہے، صدر زرداری کی تبدیلی سے متعلق خبروں کی سختی سے تردید میں جانتا ہوں یہ جھوٹ کون پھیلا رہاہے اور اس پروپیگنڈے سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے، محسن نقوی وزیرداخلہ محسن نقوی نے صدر آصف زرداری کی تبدیلی سے متعلق خبروں کی سختی سے تردید کرت...

فیلڈ مارشل عاصم منیرکے صدر بننے کی کوئی تجویز زیرغور نہیں(وزیرداخلہ)

افغان طالبان اور بھارت کا گٹھ جوڑ بے نقاب(سابق افغان جنرل کے ہوشرباانکشاف) وجود - جمعه 11 جولائی 2025

افغان طالبان بھارت سے مالی امداد لے کر پاکستان میں دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں مالی امداد فتنۃ الخوارج(ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو دی جاتی ہے، سابق جنرل سمیع سادات افغان طالبان اور بھارت کے گٹھ جوڑ سے متعلق سابق افغان جنرل نے ہوشربا انکشافات کیے ہیں۔افغان ...

افغان طالبان اور بھارت کا گٹھ جوڑ بے نقاب(سابق افغان جنرل کے ہوشرباانکشاف)

اداکارہ حمیرا اصغر کی میت لینے بھائی اور رشتہ دار کراچی پہنچ گئے وجود - جمعه 11 جولائی 2025

بھائی اور بہنوئی ایس ایس پی ساؤتھ کے دفتر پہنچے،لاش کی حوالگیکیلئے قانونی کارروائی جاری ورثا میت لاہور لے جانا چاہتے ہیں، انہوں نے کسی شک و شبہے کا اظہار نہیں کیا، مہزور علی کراچی کے علاقے ڈیفنس میں فلیٹ سے ملنے والی ماڈل و اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش لینے کیلیے بھائی اور دیگر...

اداکارہ حمیرا اصغر کی میت لینے بھائی اور رشتہ دار کراچی پہنچ گئے

پاکستان کسی گروپ کو دہشت گرد حملوں کی اجازت نہیں دیتا(بلاول بھٹو) وجود - جمعرات 10 جولائی 2025

پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 92 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں قربان کیں پہلگام دہشت گرد حملے کے متاثرین کا درد محسوس کر سکتے ہیں،چیئرمین کابھارتی میڈیا کو انٹرویو چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کسی گروپ کو ملک کے اندر یا ب...

پاکستان کسی گروپ کو دہشت گرد حملوں کی اجازت نہیں دیتا(بلاول بھٹو)

تحریک انصاف کا یوٹیوب چینلز کی بندش کیخلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان وجود - جمعرات 10 جولائی 2025

ریاستی مشینری پوری بے باکی سے پاکستان میں اظہار کی آزادیوں کو زندہ درگور کرنے میں مصروف ہے، ترجمان پی ٹی آئی کسی سرکاری بابو کی صوابدید پر کسی بھی پاکستانی کی حب الوطنی کا فیصلہ ممکن ہے نہ اس کی اجازت دی جا سکتی ہے،اعلامیہ پاکستان تحریک انصاف نے یوٹیوب چینلز کی بندش کے خلاف...

تحریک انصاف کا یوٹیوب چینلز کی بندش کیخلاف بھرپور مزاحمت کا اعلان

بینظیر پروگرام سے افسران کی بیگمات کا رقم بٹورنے کا انکشاف وجود - جمعرات 10 جولائی 2025

فائدہ اٹھانے والے محکمہ تعلیم کے گریڈ ایک سے 18 کے ملازمین اور افسران کی بیگمات شامل 72 ملازمین اور افسران کی بیگمات نے فی کس 2 ہزار سے ایک لاکھ 90 ہزار تک رقم وصول کی بینظیرانکم سپورٹ پروگرام سیگریڈ 18تک کے افسران کی بیگمات کے مستفید ہونے کا انکشاف،ضلع میرپورخاص میں بینظیر ا...

بینظیر پروگرام سے افسران کی بیگمات کا رقم بٹورنے کا انکشاف

وقت ختم ، اب کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے،عمران خان وجود - جمعرات 10 جولائی 2025

کوٹ لکھپت جیل میں قیدتحریک انصاف کے سینئر رہنماؤں کی حکومتی اتحاد سے مذاکرات کی حمایت کی تجویز کو پیٹرن انچیف نے واضح الفاظ میں مسترد کردیا امپورٹڈ حکومت کیخلاف فیصلہ کن جدوجہدجاری رکھنے کے عزم کا اعادہ ،5 اگست سے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جائیگا،بانی پی ٹی آئی کا جیل...

وقت ختم ، اب کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے،عمران خان

مضامین
برکس اور بھارت وجود هفته 12 جولائی 2025
برکس اور بھارت

بے گورو کفن وجود هفته 12 جولائی 2025
بے گورو کفن

ہم اپنے آپ کو دوبارہ کیسے بنا سکتے ہیں؟ وجود هفته 12 جولائی 2025
ہم اپنے آپ کو دوبارہ کیسے بنا سکتے ہیں؟

نظر بند کشمیری قیادت سے ناروا سلوک وجود جمعه 11 جولائی 2025
نظر بند کشمیری قیادت سے ناروا سلوک

معافی اور مافیا وجود جمعه 11 جولائی 2025
معافی اور مافیا

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر