وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر اور بڑی جماعتیں

هفته 17 جولائی 2021 کشمیر اور بڑی جماعتیں

آزادکشمیر کا انتخابی میدان سج چکا ہے اور تینوں بڑی جماعتیں جیت کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ راہ گم کردہ مسافر کی طرح ریاست کے شہریوں کو چند ایک لوگ انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے کے لیے بھی قائل کرنے کی تگ دو میں ہیں۔ ہر طرف جلسوں کی بھر مار ہے۔ پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کی قیادت جلسوںسے خطاب کرتے ہوئے ووٹروںکولبھانے میں مصروف ہیں خدمت کے دعوے کرتے ہوئے مسلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی اپنی جماعت کی جیت کو ناگزیر قرار دیا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے امریکا روانگی سے قبل کئی ایک جلسوں سے خطاب کیا اور مودی کو نواسی کی شادی پر بلانے ،آم وساڑھیوں کے تبادلوںپر شریف خاندان کو تنقید کانشانہ بنایا۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر عمران خان کی طرف سے جواب میںیہ کہنا، میں کیا کروں ،پر نکتہ چینی کی۔ جواب میں مریم نواز اور دیگر ن لیگی رہنمائوں نے سارک کانفرنس کے دوران اسلام آباد سے کشمیر کے متعلق اشتہارات اُتارنے کے طعنے دیے۔ مریم نوازنے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان اپنا نامہ اعمال لیکر کشمیر آئیں اور یہ کہ کشمیر کو صوبہ نہیں بننے دیں گے تاکہ پاکستان میں ہونی والی تباہی سے کشمیر ی محفوظ رہیں۔ تحریکِ انصاف والے کہا ں پیچھے رہتے، انھوں نے بھی سابق حکمرانوں پر تنقید کرتے ہوئے بد اخلاقی کی تمام حدیں پار کیں۔یہ بدزبانی کشمیریوں کی خدمت نہیں بلکہ نمک پاشی کے مترادف ہے ۔ علی امین گنڈاپورکی طرف سے رقوم تقسیم کرنے اور مظاہرین پر فائرنگ جیسے واقعات نے انتخابی ماحول آلودہ کر دیا ہے۔ مودی کے مظالم کو بے نقاب کرنے کی بجائے ایک دوسرے کوغدار اور کشمیر دشمن ثابت کرنے پر زور ہے۔ آزادکشمیر میں جاری الیکشن مُہم سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کو قومی مفاد سے کوئی غرض نہیں ۔ سب کو کشمیریوں سے نہیں اپنی جماعت کی جیت سے دلچسپی ہے ۔ ایسے حالات میں جب ملک میں سیاستدانوں پر تنقید کرنا ایک فیشن بن گیا ہے ، سیاستدانوں کی طرف سے بھی ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنا تنقید کی تصدیق کے مترادف ہے مگر یہ مت بھولیں اظہارِ خیال میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرنے سے سیاسی اشرافیہ کی اپنی ساکھ ہی متاثر ہوگی ۔
مقبوضہ کشمیرکو ظلم و جبر کی بدترین لہرکا سامنا ہے سات لاکھ سے زائدقابض فوج نے جنت نظیر وادی کو عملاََ جیل بنا کر رکھ دیا ہے کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب بے گناہ کشمیریوں کو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں رزقِ خاک نہیں بنایا جاتا گھر گھر چھاپے روز کا معمول ہیں اور اِس دوران گرفتار ہونے والوں کے حوصلے توڑنے کے لیے انھیںملک کی دوردراز جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔ مزید ستم یہ کہ جعلی مقابلوں میں شہید ہونے والوں کی تدفین کے لیے ورثا کو لاشیں بھی نہیں دی جاتیں ۔ اب تو کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کی مدد کے لیے خواتین اہلکاروں کو بھی بھیجا جارہا ہے تاکہ گھر گھر تلاشی کے دوران کشمیری خواتین کو بہیمانہ تشدد کانشانہ بنایا جا سکے۔ علاوہ ازیں مقبوضہ کشمیر سے مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے لاکھوں غیر کشمیری ہندوئوں کو ڈومیسائل جاری کیے جارہے ہیں ۔ آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی بات ہو یا کشمیریوں کو جعلی مقابلوں میں مارنے کی وارداتیں،دوردراز جیلوں میں کشمیری قیادت کو بند کرنے کے منصوبے ہوں یا خواتین اہلکاروں کی طرف سے تشدد کی نئی لہر کی بات ، حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ملک کی تینوں بڑی جماعتیں جلسوں سے خطاب کے دوران کشمیریوں کو درپیش اِن مسائل پر لب کشائی سے گریزاں ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کو ہی کشمیریوں کی مدد سمجھ رہی ہیں۔ یہ غیر ذمہ داری کی انتہا اور کشمیریوں کا مقدمہ خراب کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ آزاد کشمیر میں جاری الیکشن مُہم سے ایسا لگتا ہے کہ بھارت کے بجائے پاکستان ہی مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ بڑی جماعتیں ذمہ داریوں کا ادراک کریں اور قومی مفاد پر شخصی مفاد کوترجیح دینے سے گریز کریں۔ اگر غیر ذمہ دارانہ رویے پر نظر ثانی نہ کی گئی تو نہ صرف انتخابی نتائج کی شفافیت پر سوال اُٹھیں گے بلکہ بھارت کوجبرو قہر ڈھانے کی شہ ملے گی جس سے کشمیر میں جاری تحریک کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
بلوچستان ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے شہری ووٹ دیتے وقت وفاق میں حکمران جماعت کو ذہن میں رکھتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ وفاق میں حکمران جماعت کے امیدواروں کو کامیاب کیا جائے تاکہ وفاق سے ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز ملتے رہیں جب ملک پرپیپلز پارٹی حکمران تھی تو چوہدری عبدالمجیدنے بڑے آرام سے الیکشن جیت کرآزاد کشمیر کے وزیرِ اعظم کا منصب حاصل کر لیا مسلم لیگ ن کو اقتدار ملا تو راجہ فاروق حیدر بھاری اکثریت سے ریاستی وزیرِ اعظم منتخب ہوگئے۔ گلگت بلتستان میںبھی ایسا ہی ہو، ا بلوچستان میںبھی ایساہی ہوتا ہے ۔آزادکشمیر کے موجودہ انتخابی ماحول میں اگر کوئی بہت بڑی انہونی نہیں ہوتی تو پی ٹی آئی کی طرف سے آزادکشمیر کا انتخابی معرکہ جیتنا نوشتۂ دیوار ہے جس کا ثبوت انتخابی مُہم سے قبل موجودہ اسمبلی سے کئی الیکٹ ایبلز کا پی ٹی آئی میں شامل ہونا ہے۔ یہ لوگ الیکشن کی ہوا دیکھ کر جماعتیں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے بھی اپنے کارکنوں کے بجائے الیکشن سے قبل شامل ہونے والے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دینے میں عجلت دکھائی۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امیدوار بھی ووٹروں کے مزاج آشنا ہیںجس کی بنا پر وفاق کی حکمران جماعت کی جیت مشکل دکھائی نہیں دیتی۔
آزادکشمیر میں جاری انتخابی مُہم پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو یہ سمجھنے میں کوئی ابہام نہیں رہتا کہ تحریکِ انصاف کا پلڑا بھاری ہے ۔ مگر علی امین گنڈاپور جیسے لوگ حماقتوں سے اپنی جماعت کی خدمت کے بجائے نقصان کا موجب بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور تحریکِ انصاف کو ہدفِ تنقید بنانے والے بلاول بھٹو جوپی پی کی جیت کے بعد ریاست میں حکومت بنانے کے دعویدار ہیں مگر تلخ سچ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے تمام ریاستی انتخابی حلقوں میں امیدوار ہی نہیں بلکہ کچھ امیدواروں نے پارٹی کے ملے ٹکٹ بھی واپس کر دیے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کا بھی کم و بیش ایسا ہی حال ہے پھر بھی جیت کے دعوے کس زعم میں کیے جا رہے ہیں ، کچھ سمجھ نہیں آتی۔ آزاد کشمیر کے موجودہ انتخابی میدان میں سب سے زیادہ اُمیدوار تحریکِ انصاف کے ہیں جنھیں حکومتی وسائل بھی حاصل ہیں ۔ یہ امیدوار جلسوں کے دوران ترقیاتی فنڈز کے اعلان کرتے ہوئے ابھی سے روزگار کی یقین دہانیاں کراتے پھرتے ہیں لیکن ابھی تک علی امین گنڈا پور کے سوا کسی اورحکومتی شخص کے خلاف الیکشن کمیشن نے کوئی ایکشن نہیں لیا ۔حکومتی مشنری کُھلے عام پی ٹی آئی کے امیدواروں کی حمایت کر رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ووٹوں کے بھائو تائو طے ہو رہے ہیں ۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز اگر بے سروپا الزام تراشی کے بجائے خرابیوں کی نشاندہی اور الیکشن رولز کی خلاف ورزیوں کے ثبوت پیش کریں تو الیکشن کمیشن نوٹس لے سکتا ہے جس سے انتخابی عمل صاف شفاف اور غیر جانبدار ہو نے
کا امکان بڑھ سکتا ہے اور مسلم لیگ ن اور پی پی بہتر پوزیشن پر آ سکتی ہیں وگرنہ بھارتی مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کے بجائے ایک دوسرے اوراِداروں پر تنقیدسے نہ صرف کشمیریوں کا مقدمہ متاثر ہو گا بلکہ کشمیریوں کو مایوس کرنے کا باعث بھی بنیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر