وجود

... loading ...

وجود
وجود

سعودی عرب اور پاکستان ساتھ ساتھ ہیں

جمعرات 13 مئی 2021 سعودی عرب اور پاکستان ساتھ ساتھ ہیں

 

سفارتی تعلقات کی دنیا میں اُتار چڑھاؤ، اونچ نیچ اور نشیب و فراز ایک معمول کی بات ہوا کرتی ہے۔یعنی جب دوممالک رشتہ سفارت کاری کے بندھن میں ایک دوسرے سے منسلک ہونے کا حتمی فیصلہ کرتے ہیں تو اُن میں سے ہر ایک ملک کے پیش نظر دوسرے ملک سے زیادہ سے زیادہ سیاسی ، معاشی اور سفارتی مفادات کشید کرنا ہی ہوتا ہے۔شاید یہ ہی وجہ ہے کہ جب دو ممالک کے درمیان مفادات کے توازن میں ذرا سی بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے تو اُس کا سب سے پہلا منفی اثر سفارتی تعلقات پر ہی پڑتا ہے ۔اِس عالمگیر سفارتی اُصول کا اطلاق اگر پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ تعلقات پر بھی کیا جاتا ہے تو اس میں آخر مضائقہ ہی کیا ہے۔ سمجھنے والوں کو سمجھنا چاہئے کہ پاکستان اور سعودی عرب بھلے ہی اسلامی بھائی چارہ کے اُٹوٹ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں لیکن بہر حال ہیں تو آخر ،دو الگ الگ ملک ہی۔ جن کے مفادات اور ترجیحات کی نوعیت کسی بھی صورت بالکل ایک جیسی نہیں قرار دی جاسکتی ۔دراصل کسی بھی ملک کی جغرافیائی اہمیت اور معاشی و عسکری طاقت ہی طے کرتی ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے نزدیک اُس ملک کی سفارتی اہمیت کیا ہوگی؟۔مثلاً پاکستان جغرافیائی اور عسکری اعتبار سے تو بلاشبہ سعودی عرب کی ضرورت بن سکتا ہے لیکن اپنی کمزور معیشت کی بنا ء پر پاکستان کا سعودی عرب کی مضبوط معیشت پر انحصار کرنا بھی ایک ایسی بدیہی حقیقت ہے ،جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اس لیے اگر سعودی عرب اور پاکستان آپس میں مل جل کر ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں تو اُن کا یہ طرز عمل سفارتی اُصولوں اور اخلاقیات سے عین مطابقت رکھتا ہے۔
مگر ہمارے ہاں بعض عاقبت نااندیش تجزیہ کار اور ینکر پرسنز الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کی مضبوطی کو خالص سفارتی پیمانے پر پرکھنے کے بجائے ،اسلامی بھائی چارہ کی ’’نادیدہ کسوٹی ‘‘پر جانچتے ہوئے اُمید رکھتے ہیں دونوں ممالک کے تعلقات ہرقسم کے سیاسی و معاشی مفادات کی علت سے پاک ہو کر ،سراسر مبنی بر اخلاص ’’اسلامی اُخوت ‘‘ کے سانچے میں ڈھل جائیں اور جب اُ ن کی یہ تمنا بر نہیں آتی تو وہ کبھی سعودی عرب اور کبھی پاکستان کو ہدفِ تنقید بنانا شروع کردیتے ہیں ۔ ایسے افراد کے نزدیک جہاں سعودی عرب کا پاکستان کی عسکری صلاحیت پر انحصار کرنا ایک گناہ عظیم ہے ، تو وہیں یہ دانش و بنیش ا فراد سمجھتے ہیں کہ پاکستان کاسعودی عرب سے معاشی فوائدسمیٹنا بھی ایک کارِ حرام ہے ۔یعنی اگر سعودی عرب اپنے دفاع کے لیے پاکستان کی جانب ملتفت دکھائی دے تو یہ لوگ فوراً ہی سعودی عرب کو ’’عسکری کمزوری ‘‘ کے طعنے دینا شروع کردیتے ہیں جبکہ اگر پاکستان اپنی معیشت کی بہتری و استحکام کے لیے سعودی عرب سے کوئی معاشی سہولت حاصل کرنے کا معاہدہ کرگزرے تو پھر یہ پاکستانی قیادت پر بھکاری یا کاسہ لیس ہونے کی پھبتی کسنا شروع کردیتے ہیں اور جب خداانخواستہ یہ ہی دونوں ممالک ایک دوسرے سے کھنچے کھنچے نظر آئیں تو اِن کی جانب سے پاکستان پر کمزور خارجہ پالیسی کا آوازہ سننے کو ملتا ہے ۔
مصیبت تو یہ ہے کہ سعودی عرب اور پاکستان کی قیادت ایک دوسرے کے ساتھ باہم شیر و شکر دکھائی دے، تب بھی اِن کے سینوں پر مختلف طرح کی سازشوں اور وسوسوں کے سانپ لوٹنا شروع ہو جاتے ہیں ۔مثال کے طور پر کل کو یہ ناقدین شکوہ کناں تھے کہ’’ اتنا عرصہ ہوگیا وزیراعظم پاکستان عمران خان سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان رابطہ کیوں نہیں ہورہا، لگتا ہے کہ سعودی شہزادہ پاکستانی وزیراعظم سے سخت ناراض ہے ‘‘ ۔ لیکن جب حالیہ دورہ سعودی عرب میں عمران خان کا ائیر پورٹ پر استقبال کرنے کے لیے ولی عہد شہزادہ محمدبن سلمان خود ائیرپورٹ پر تشریف لے آئے تو انہیں فکر دامن گیر ہوگئی ہوجاتی ہے کہ اَب میاں محمد نواز شریف کی سیاست کا مستقل کیا ہوگا؟۔یوں سمجھ لیجئے کہ ایسے لوگوں کے پاس ہمیشہ کہنے کے لیے تو بہت کچھ ہوتا ہے مگر سمجھنے اور سمجھانے کے لیے ڈھنگ کی ایک دلیل بھی نہیں ہوتی۔
بہرحال ناقدین جو بھی کہیں لیکن سچ تو یہ ہی ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورۂ سعودی عرب کئی حوالوں سے یاد گار رہا ۔ خاص طور پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے جس طر ح کی پذیرائی وزیراعظم پاکستان عمران خان کے لیے دیکھنے میں آئی ،اُس سے کم ازکم یہ اندیشے تو رفع ہوگئے کہ سعودی عرب اور پاکستان کے مابین کسی بھی قسم کے سنگین اختلافات پائے جاتے ہیں ۔اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ کی بدولت پاکستان کا سعودی عرب سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق ہواہے۔نیز وزیر اعظم عمران خان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہونا بھی دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں بہتری کے لیے ایک بڑی مثبت خبر ہے۔علاوہ ازیں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو سعودی عرب کے ’’وژن‘‘کے خدوخال سے بھی تفصیلاً آگاہ کیا۔اس وژن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سعودی حکومت کو اگلے 10سال کے دوران، دس ملین، افرادی قوت درکار ہو گی۔شہزادہ محمد بن سلمان نے یقین دہانی کروائی ہے کہ پاکستانی ورک فورس کی گزشتہ خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اس مطلوبہ ورک فورس کا زیادہ تر حصہ پاکستان سے لیا جائے گا۔بلاشبہ روزگار کے مواقع کے حوالے سے یہ پاکستانیوں کے لیے ایک بہت بڑی خبر ہے۔
خوش آئند با ت یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں سعودی عرب کی جانب سے کشمیر پر پاکستانی موقف کی از سرنو واضح حمایت اور تنازع کشمیر سمیت پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام باہمی اختلافات کو پُرامن مذاکرات سے حل کرنے پر زور دیا جانا اہلِ پاکستان کے لیے بلاشبہ سکون و اطمینان کا باعث ہے کیونکہ پچھلے سال جب حکومت پاکستان نے کوشش کی تھی کہ سعودی حکومت مودی سرکار کی غیرمنصفانہ کارروائیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے کشمیر کے بحران پر او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے ذریعے پاکستان کی حمایت کرے تو اس میں کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ جبکہ مشترکہ اعلامیے میں افغانستان میں پائیدار امن کی خاطر تمام فریقوں کو سیاسی تصفیے کے موقع کو درست طور پر استعمال کرنے کی تاکید بھی کی گئی ہے اور یوں سعودی عرب اور پاکستان کی مشترکہ کوششوں سے افغانستان میں امن عمل کے تقویت پانے کے امکانات روشن ہوئے ہیں جبکہ لیبیا، شام، یمن میں بھی تنازعات کے سیاسی حل کی حمایت کی گئی ہے۔ نیزمشترکہ اعلامیے میں دونوں رہنماؤں نے عرب امن اقدام کے تحت فلسطینی عوام کے تمام جائز حقوق، خاص طور پر ان کے حقِ خود ارادیت اور ان کی خود مختار ریاست کے 1967سے قبل کی سرحدوں اور مشرقی یروشلم کے دارالحکومت کی حیثیت سے قیام کے اعادہ کی تصدیق کیا جانا بھی اہم بات ہے۔
وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ میں سعودی عرب اور پاکستان کے مابین دو معاہدے بالترتیب قیدیوں کے تبادلے اور جرائم کی بیخ کنی کے حوالے سے طے پائے ہیں۔ جن پر وزیر خارجہ شیخ رشید صاحب نے دستخط کیے،جبکہ دو معاہدوں پر دستخط وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے دستخط کیے۔ ان میں سے ایک معاہدہ انسداد منشیات کے حوالے سے تھا جبکہ دوسرے معاہدے کی رو سے سعودی عرب کی جانب سے فوری طور پر پاکستان کوسعودی ڈیولپمنٹ فنڈ سے 500 ملین ڈالر کی رقم فراہم کی جائے گی ۔ اس رقم کو پاکستان میں انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ کی بہتری، آبی وسائل کی ترقی اور ہائیڈرو پاور ڈویلپمنٹ کے لیے خرچ کیا جائے گا ،جبکہ سعودی عرب پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل کی فراہمی بھی بدستور جاری رکھے گا ۔سب سے خوش آئند بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو دورہ پاکستان کی بھی دعوت دی جو انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلی ہے اور طے پایا ہے کہ عید کے فوراً بعد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے خدوخال طے کرنے کے لیے سعودی افسران اعلی سطح کا وفد پاکستان تشریف لائے گا۔ذرائع کے مطابق سعودی ولی عہد رواں برس ہی پاکستان کے خصوصی دورے پر تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیںاور غالب امکان یہ ہے کہ وہ اپنے متوقع دورہ پاکستان میں سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کا باضابطہ اعلان بھی فرمائیں گے۔
یاد ش بخیر !سعودی عرب کی سی پیک پروجیکٹ میں براہ راست شمولیت سے پاکستانی معیشت پر انتہائی دور رس اور مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ خاص طور پر گوادر میں اگر سعودی عرب اپنے سابقہ کیے گئے وعدہ کے عین مطابق آئل ریفائنری کی تکمیل جلد از جلد کرنے میں کامیاب ہوجاتاہے تو اس عظیم الشان تجارتی منصوبہ کے مکمل ہونے سے گوادر کی بندرگاہ کی تجارتی اہمیت و افادیت میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ واضح رہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان کے سابقہ دورہ پاکستان کے موقع پر گوادر میں آئل ریفائنری کے قیام کا اعلان کیا گیاتھا۔ مگر چند ناگزیز وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ دونوں اطراف سے تعطل کا شکار ہوگیا تھا ۔ اب شنید ہے کہ وزیراعظم پاکستان کے حالیہ دورہ سعودی عرب میں سعودی حکام کی جانب سے اس منصوبہ پر تیزرفتاری کے ساتھ کام شروع کرنے کا عندیہ دے دیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ سعودی عرب پاکستان میں سیاسی استحکام میں بھی اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتاہے۔ کیونکہ سعودی شاہی خاندان کا صرف مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت پر ہی نہیں بلکہ پاکستان کی کم و بیش تمام بڑی مذہبی جماعتوں پر بھی زبردست اثرو رسوخ پایا جاتا ہے ۔ یقینا جب سی پیک میں شامل ہوجانے سے سعودی عرب اور پاکستان کے تجارتی و معاشی مفادات یکساں ہوجائیں گے تو پھر سعودی حکام کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ اُن کی پروردہ سیاسی و مذہبی جماعتیں پاکستان میں کسی سیاسی عدم استحکام کا سبب بنیں ۔اس نقطہ نگاہ سے جائزہ لیا جائے تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے حالیہ دورہ سعودی عرب نے، دونوں برادر اسلامی ممالک کے درمیان، پراعتماد اور مخلصانہ سفارت کاری کے کئی نئے در، وا کیے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر